برفانی تودے کا سِرا

غزہ ایک بار بار خاک و خون میں غلطاں ہے۔ اسرائیل نے درندگی کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ جنگی جہازوں سے موت برسائی جارہی ہے۔ بنیادی سہولتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ بمباری سے زخمی ہونے والوں کو بر وقت طبی امداد پہنچانا بھی ممکن نہ رہے۔ نہتے فلسطینیوں پر توڑی جانے والی اس تازہ قیامت کے حوالے سے اسلامی ممالک سمیت پوری عالمی برادری کا مجموعی ردعمل نیم دِلانہ ہے۔ امریکا اور یورپ نے، جیسا کہ اندازہ لگایا جارہا تھا، ایک بار پھر اسرائیل کے حقِ دفاع کا راگ الاپا ہے۔ حماس کے خلاف کارروائی کو مغرب نے برحق اور جائز قرار دیا ہے مگر بمباری میں خواتین اور بچوں کے سفاکانہ قتل کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔

کیا فلسطینیوں کو شہید کرنا اور ان پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا صرف اسرائیل کا فیصلہ ہے؟ کیا یہ صرف اسرائیلی ہیں جو فلسطینیوں کو برداشت نہیں کرنا چاہتے؟ کیا سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا ہمیں دکھائی دے رہا ہے؟

سوچنا پڑے گا۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین جو کچھ بھی چھ عشروں سے چل رہا ہے وہ ہرگز ایسا نہیں کہ نظر انداز کردیا جائے یا ہلکا لیا جائے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت ہر اعتبار سے قابلِ مذمت سہی مگر سوچنا یہ ہے کہ یہ کہیں برفانی تودے کا سِرا تو نہیں؟ سمندر میں برفانی تودے کا صرف سِرا دکھائی دیتا ہے یعنی اصل مصیبت تو پانی میں چُھپی ہوتی ہے۔

اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کے خلاف کرتا آیا ہے وہ کہیں چوہے دان میں لگایا جانے والا پنیر کا ٹکڑا تو نہیں؟

جنگل کے ماحول سے متعلق ایک دستاویزی فلم میں ہم نے دیکھا تھا کہ ایک چیتے نے ہرن کے بچے کو پکڑ لیا اور اُس کی گردن میں دانت گاڑنے کے بجائے اُسے ’’پیار‘‘ سے جکڑ کر اُس کی ماں کا انتظار کرنے لگا۔ ہرنی دور سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ چیتا بھی اُسی پر نظر جمائے ہوئے تھا۔ وہ بچے کے ذریعے اُس کی ماں کو دبوچنا چاہتا تھا۔ خاصا وقت گزرنے کے بعد بھی ہرنی قریب نہ آئی تو چیتے نے بچے کو چیر پھاڑ کر کھالیا۔

ذرا سا غور کرنے پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کو چیتے کا کردار عطا کرکے اُسے بھی ہرنی کو دام میں لانے کا فریضہ ہی سونپا گیا ہے۔ اسرائیل اسلامی دنیا کے سینے میں خنجر کی طرح گڑا نہیں بلکہ اُسے گاڑا گیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک پر بے ضمیر اور انفرادی مفاد کے غلام حکمران تھوپ کر رہی سہی کسر پوری کردی گئی ہے۔ جس طور ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کرتی ہے بالکل اُسی طرح اسرائیل کے وجود نے پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔

مگر کیا واقعی اسرائیل اِس قدر طاقتور ہے کہ ہر معاملے میں من مانی کرسکے؟

مشرقِ وسطیٰ یعنی اسلامی دنیا کی نئی نقشہ گری یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کو انتہائے ذہانت کے ساتھ آلۂ کار بنایا گیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ طے کردیا گیا تھا کہ مسلم دنیا کو کسی بھی طرح سَر اُٹھانے کا موقع نہیں دینا ہے۔ مغربی قوتوں نے جمہوریت، لبرل ازم، رواداری، کشادہ ذہنی اور وسیع القلبی کے ہزار دعووں کے باوجود اب تک اسلامی دنیا سے اپنی ماضی کی لڑائیوں کو فراموش نہیں کیا۔ صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ایوبی جیسے سُورماؤں کے ہاتھوں جو مار سہنی پڑی تھی اُس کا انتقام لینے کا جذبہ مغرب کے عیسائیوں کے دِلوں سے اب بھی گیا نہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اسلامی دنیا کو زیرِ نگیں رکھنے کے لیے فساد کی جڑ پیدا کرنا بھی تو مقصود تھا، سو اسرائیل کو جنم دیا گیا۔ مغرب اپنی منصوبہ بندی میں بھرپور انداز سے کامیاب رہا ہے۔ اہلِ مغرب چھ عشروں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہودیوں نے اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ دنیا کو باور کرایا جارہا ہے کہ یہودیوں سے زیادہ ذہین اور فطین کوئی نہیں۔ اور یہ کہ وہ جو کچھ بھی چاہیں کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ اﷲ نے جس قوم کو مردود قرار دے رکھا ہے وہ تو علم و فن اور معیشت کے محاذ پر کامیاب جارہی ہے! اِس نُکتے پر غور کرنے کی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا کہ بیشتر خرابیاں یہودیوں کی پیدا کردہ ہیں یا پھر اُن کے نام پر متعارف کرائی گئی ہیں۔

کیا اہلِ مغرب واقعی یہودیوں کے سامنے بے بس ہیں؟ اگر ایسا ہے تو چین کو برداشت کرنے سے انکار کیوں کیا جارہا ہے؟ اُس کے پاس تو عددی برتری بھی ہے۔ امریکا کے مُٹھی بھر یہودی کیا واقعی اِتنے طاقتور ہیں کہ منتخب ایوانوں کی تقدیر کا فیصلہ صادر کریں اور وہ فیصلہ تسلیم بھی کیا جائے؟ امریکی عوام کو نَفسی طور پر اِس قدر مغلوب کیوں کردیا گیا ہے کہ وہ یہودیوں کی برتری تسلیم کرنے پر مجبور ہیں؟ میڈیا کے ذریعے یہ پیغام تواتر کے ساتھ کیوں دیا جارہا ہے کہ کھلونے جیسا چھوٹا سا اسرائیل دنیا کی واحد سُپر پاور کو ناکوں چنے چبوا سکتا ہے؟ کیا یہ سارا eye-wash اِس لیے ہے کہ اسرائیل اور یہودیوں کی طرف دیکھ کر مسلمان نفرت کا اظہار کریں اور عیسائی نَفسی طور پر مغلوب ہوں؟

امریکا اسرائیلی قیادت سے کوئی بی مطالبہ اِس طرح کرتی ہے جیسے کوئی ہرن خوفزدہ ہوکر درندوں سے بچتا پھر رہا ہو۔ یعنی اپنی مرضی کا ایک بدمعاش کھڑا کرکے اُسے خوب مضبوط کیا جارہا ہے تاکہ سب مکر و فریب اور طاقت و حشمت کے اِس بچھڑے کی پُوجا کرنے پر مجبور ہوں!

چھ عشروں سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہودیوں کا کوئی دشمن ہے تو صرف مسلمان۔ یہ بات میڈیا کے ذریعے ذہنوں سے کھرچ کر پھینک دی گئی ہے کہ اسلام کے ظہور پذیر ہونے سے بہت پہلے عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ عیسٰی علیہ السلام کی نبوت سے موسیٰ علیہ السلام کی شریعت منسوخ ہوگئی تھی۔ یہودی اِس بات کو برداشت نہ کرسکے۔ اور اُنہوں نے عیسٰی علیہ السلام پر سُولی پر لٹکادیا۔ بیشتر عیسائی آج بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جسے وہ خدا کا بیٹا مانتے ہیں اُسے سُولی پر مسلمانوں نے نہیں، یہودیوں نے چڑھایا تھا۔ یہ تلخ حقیقت پروپیگنڈے کے ذریعے عیسائیوں کے اذہان سے مٹادی گئی ہے۔

یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمن آمر ایڈولف ہٹلر نے کم و بیش ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا۔ اِس دعوے کو غلط قرار دینے کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی گئی۔ امریکا کی مدد سے یہودیوں نے یورپ اور باقی دنیا کو پابند کیا کہ دوسری جنگ عظیم میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل یعنی ’’ہولوکاسٹ‘‘ کو درست تسلیم کرے۔ یورپ کے کئی ممالک میں آج بھی ہولوکاسٹ کے خلاف بولنا جرم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا تو آج کے یہودیوں کو ہر جرمن کے خون کا پیاسا ہونا چاہیے۔ یہودیوں نے اپنے ساٹھ لاکھ نفوس سے محروم ہو جانے پر جرمنوں کو قبول کرلیا مگر مسلمان اُن سے برداشت نہیں ہو پارہے۔ مسلمانوں کی کسی بھی حکومت یا سلطنت نے کبھی یہودیوں کو بڑے پیمانے پر قتل نہیں کیا۔

کیا امریکا اور یورپ یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے مشتعل ہوکر مسلم ممالک اسرائیل پر چڑھ دوڑیں؟ ایسی صورت میں مغربی افواج کو پورے خطے پر قابض ہونے کا بہترین بہانہ ہاتھ آجائے گا۔ فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر آپ اور مجھ سمیت دلِ درد مند رکھنے والا ہر مسلمان یہی چاہتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی جائے۔ امریکا اور یورپ یہی چاہتے ہیں۔ مغرب کے سامراجیوں کے ترتیب دیئے ہوئے نئے عالمی نظام کے تحت پورے مشرقِ وسطیٰ کی نئی صورت گری کا یہی ایک قابلِ عمل راستہ ہے۔

اسرائیل کا راستہ لازم ہے۔ مگر اُس سے کہیں بڑھ کر معصومیت کا ڈھونگ رچانے والے امریکا اور یورپ کو بھی یہ باور کرانا لازم ہے کہ ساری خرابی کے اصل ذمہ دار وہی ہیں۔ امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی پوری بساط اُلٹنے کی گنجائش بھی پیدا ہو اور الزام صرف اسرائیل کے سَر جائے!

مسلم دنیا کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ایک طرف اسرائیل کو جارحیت سے روکنا ہے اور دوسری طرف اُس کے خلاف کھلی اور مکمل جنگ سے احتراز بھی کرنا ہے۔ ایسے میں امریکا اور یورپ پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسرائیل کو چابی بھرنے سے باز رہیں۔ کسی صلاح الدین ایوبی کی آمد کا انتظار کرنے کے بجائے مسلم حکمرانوں کو خود ہی صلاح الدین ایوبی والا کردار اپنے اندر پروان چڑھانا ہوگا۔

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524790 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More