مغربی ممالک نے قرآن کی احتساب یا
accuntabiliy کی آیت کو زندگی میں کیسے اپنا کر امن سکون سے رہ رہے ہیں-
سورہ نحل۱۶۔ آیت ۹۳۔ اور تم سے ضرور پوچھا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے
16-93-But you shall certainly be called to account for what you used to
do. ۔۔ ہم نے قرآن مجید کو صرف آخرت کی کتاب سمجھ لیا ہے جبکہ یہ تو اس
زندگی کی کتاب ہے ۔اس پر عمل کر کے ہم اپنی دنیا کو بھی جنت بنا سکتے ہیں،
اور آخرت کو بھی ۔ اﷲ تعالی نے اس کتاب میں جو اصول آخرت کے لئے بیان
فرمائے ہیں وہی اصول اس دنیا میں بھیapplicable ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی
مگر گوروں نے یہ راز سمجھ لیا تھا اور انہوں نے اس کا ہر اصول اپنی زندگیوں
پر لاگو کر کے اپنی دنیا جنت بنا لی ہے کہ ساری دنیا سے لوگ بشمول ہمارے
وہاں شفٹ کرنا چاہتے ہیں۔ان کی کامیابی کا راز اوپر دی گئی آیت پر عمل میں
ہے۔ وہ کیسے ۔؟ ۔وہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر بتاتا ہوں۔
کینیڈا میں ہر چیز پر حکومت کا کنٹرول ہے۔ اور اس کے لئے قانون سازی کی گئی
ہے تا لوگوں کو پتہ ہو کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں۔ تا کہ ہر شہری کے حقوق کی
حفاظت کی جا سکے ۔ہر شہری کو رولز بتانے کیے لئے ہر جگہ بورڈز ہوتے
ہیں۔سکول ہو یا دفتر، ہسپتال ہو یا پلازے ہوں یا شاپنگ مال، ہر جگہ کے
استعمال کے رولز ہیں جو واضح لکھے ہوتے ہیں حتی کہ دروازے کھولنے بند کرنے
کا بھی لکھا ہوتا ہے۔۔ قانون لوگوں کی سہولت کے لئے بنائے جاتے ہین تو لوگ
بھی اس پر عمل کرتے ہیں۔پہلے سزا سے ڈر کر بعد میں سمجھ آنے کے بعد
رضاکارانہ کہ اس میں سب کا فائدہ ہے۔ کہ کسی کو سزا بھی دینی ہو تو قانون
کے ذریعے ہی ہو،کسی کی مرضی سے نہ ہو۔ یہ بھی اﷲ کے اصول کے مطابق ہے کہAnd
We never punish until We have sent a Messenger (to give
warning)((17-15اگر کوئی قانون توڑے تو فوری پکڑ اور سزا بھی ہوتی ہے۔کسی
کو اس کی معاشرتی رتبے کی وجہ سے چھوڑا نہیں جاتا۔
ہمارے گھر کے باہر درخت بھی میونسپل کارپوریش نے لگائے ہیں۔ گھر والوں نے
نہیں لگائے تاکہ پورے ائیریا میں خوبصورتی ہے ۔ ان کو گھر والے کاٹ بھی
نہیں سکتے ہیں۔ سردی میں ان کی ٹہنیاں کاٹنے کی حد بھی کارپوریشن مقرر کرتے
ہے۔ہمارے ایریا میں اگر مہمان آئے اور رات کو رہنا ہو تو ان کی پارکنگ کی
جگہ الگ ہے۔اس عید پر امریکہ سے ہمارے مہمان کار میں آئے تو ان کی کار کی
ہمارے گراج میں پارکنگ کے لئے اجازت لینی پڑی۔
کسی بھی چھوٹے پلازے میں چلے جائیں تو نوٹس لگا ہو گا کہ یہاں صرف خریدار
پارکنگ کر سکتا ہے۔ اور وہ بھی مقررہ وقت تک۔ورنہ اتنا جرمانہ ہو گا۔
ہرپارکنگ میں معذور لوگوں کی پارکنگ کی جگہ چھوڑنی پڑتی ہے۔اور بورڈ بھی
لگانا ہوتا ہے۔ ہر نئی کنسٹرکشن کے وقت کمپنی کو پارک سکول پلے گراؤنڈ کی
جگہ چھوڑنی ہوتی ہے۔ متعلقہ محکمے کی انسپکشن کے بغیر مکان رہائش کے لئے
ہینڈ اوور نہیں کیا جاتا۔ ہمارے بلڈنگ انسپکٹر پہلے خلاف ورزی کی خود اجازت
دیتے ہیں اور بعد میں کمپلیشن کے وقت پکڑتے بھی ہیں تا کہ پہلے بھی رشوت
ملے اور بعد میں بھی۔
تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اﷲ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے دراصل
انسانوں کی اس دنیا کی زندگی کو جنت بنانے کے لئے ہی تفصیلااصول اور قاعدے
بتا دئے ہیں۔ کہ ان پر عمل کرو اور اپنی مرضی نہ کرو کیونکہ ن کا حساب کتاب
آخرت میں ضرورہو گا ۔ اور یہ صرف فرمانبرداری اور نافرمانی کرنے کا حساب ہو
گا۔ یہ بات ہمیں خود سمجھ لینی چاہئے کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کو اس سے کوئی
فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس دنیا کی اپنی زندگی جنت بناتے ہیں یا جہنم۔ اﷲ اور
اس کے رسول ﷺنے آکر پاکستان نہیں رہنا۔ہم نے رہنا ہے۔اور ہم نے بدقسمتی سے
اپنی مرضی کرنے کو عادت بنا لیا ہے ۔ذاتی لیول پر بھی اور حکمرانوں کے لیول
پر ، اس لئے یہاں کسی چیز پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں رہا، اگر ہم نے نئے
سرے سے زندگی بہتر بنانی ہے تو صرف ہر چیز پر قانون سازی کے ذریعے کنٹرول
کر کے اور نہ ماننے والوں کے لئے فوری احتساب کا اﷲ کا اصول لاگو کرنا
ہوگا۔چوائس ہماری اپنی ہے، جنت یا جہنم۔
ٹورنٹو، کینیڈا اگست2014 امتیاز علی |