فلسطین۔۔۔میں کیا کر سکتا ہوں ؟

جس وقت یہ سطور کاغذ کی زینت بنائی جارہی تھیں اس وقت تک فلسطین میں ظلم و بربریت کا 29وا ں دن گزر چکا تھا اور ان 29دنوں میں 76مساجدشہید ہوچکی تھیں ،2چرچ،25ہسپتال اور 8500گھر تباہ ہو چکے تھے جب کہ 1800سے زائد افراد شہید ہوچکے تھے جن میں 400بچے اور 300خواتین بھی شامل ہیں ۔ اسرائیل کا یہ بھیانک اور غلیظ روپ دکھانے کے عوض 7صحافی لقمہ اجل بن چکے تھے ، 9000سے زائد افراد زخمی تھے جن میں 2500بچے اور 1600خواتین بھی شامل ہیں ۔

آپ ان 29دنوں پر رونا چاہیں تو آپ کے پاس رونے کی دو وجوہات ہیں :پہلی وجہ فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کی ظلم و بربریت اور دوسری وجہ اس ظلم و بربریت پرلگ بھگ 2ارب مسلمانوں کی ہر طرح کی خاموشی۔

فلسطین کے جن لوگوں پر ظلم ہوا اور ہو رہا ہے کیا وہ مسلمان نہیں ہیں ؟اگر ہیں تو پھر۔۔۔تو پھر دو ارب مسلمانوں کی ہر طرح کی خاموشی کیوں ؟کیا رحمت عالم حضرت محمد ﷺ کا یہ فرمان بھلا دیا گیا ہے :’’تمام مسلمان ایک شخص کی مثل ہیں کہ اگر اس کے سر میں درد ہوتا ہے تو تمام بدن میں درد ہوتا ہے اور اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن تکلیف زدہ ہوتا ہے‘‘(رواہ مسلم)

اگر تو مذکورہ بالا فرمان بھلایا نہیں گیا ہے تو پھر پس پشت کیوں ڈالا گیا ؟یقینادنیا سے انتہا کی محبت۔۔۔ حالاں کہ دنیا تو مسلمان کے لیے قید خانہ ہے پھر اس قید خانہ میں اپنے بہن بھائی پر ہوتا ظلم دیکھ کر پل بھر میں بھول جانا کہاں کا بھائی چارہ ہے؟آج 29واں دن ہے کہ اخبارات فلسطین کے مسلمانوں کے خون کو سیاہی بنا کر لکھی جا چکی ہیں ٹی وی چینلز میں فلسطینی مسلمانوں کی سسکیوں ، آہوں اور بکاہوں کی اندہناک آوازیں ہمارے سوئے ضمیر اور سوئی غیرت کو جگانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر کیا ہوا ؟۔۔۔ ایک لمحہ کے لیے افسوس اور پھر۔۔۔اور پھر اخبارات ایک طرف ، ٹی وی چینل تبدیل اور مسلمان دنیا کی رونقوں میں مگن کیوں کہ۔۔۔کیوں کہ یہ بچ گیا ہے۔ حالاں کہ یہ نہیں جانتاکہ صرف اسی نے یہ بھلایا ہے کہ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے جب کہ مسلمانوں پر ظلم و بربریت کرنے والے یہ یاد رکھے ہوئے ہیں کہ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ۔ آج اگر یہ ایک بھائی کو ظلم وبربریت کا نشانہ بناسکتے ہیں توکل دوسرے بھائی کی طرف بھی تو جاسکتے ہیں ۔

تعداد میں بھلے دو ارب سہی مگر کم زور اور ناکارہ ۔ایسے ناکارہ اور کم زور کہ دشمن کم ہونے کے باوجود بھی مسلمانوں سے ہیبت ناک نہ ہوگا ۔ رسالت مآب حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ ’’قریب ایک زمانہ آرہا ہے کہ کفار کی تمام جماعتیں تمھارے مقابلہ میں ایک دوسرے کو بلائیں گی جیسے کھانے والے اپنے خوان کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ایک کہنے والے نے عرض کیا،کیا ہم لوگ اس روز شمار میں کم ہوں گے ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا ، نہیں بل کہ تم اس روز بہت ہو گے لیکن تم کوڑہ(ناکارہ) ہوگے جیسے رَو میں کوڑہ آجاتاہے اور اﷲ تعالیٰ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت نکال دے گااور تمھارے دلوں میں کم زوری ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے عرض کیا کہ یہ کم زوری کیا چیز ہے (یعنی اس کا سبب کیا ہے؟)تو آپ ﷺ نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے نفرت‘‘(ابو داؤد بیہقی)

مسلمانوں پر ظلم ہونا ، ان کی نسل کشی اور قتل عام ہونا یہ آج کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس قتل و غارت اور ظلم و بربریت پر مسلمانوں کا ہر طرح کی خاموشی اختیار کرنا عام بات ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں بحیثیت ایک مسلمان کیا کرسکتا ہوں ؟کیوں کہ ظلم کو دیکھ کر ہاتھ اور زبان سے ظلم روکنے کی ہمت تو کب کی سلب ہو چکی ہے مگر ظلم کو ظلم جاننے کی ہمت دماغ کے ایک کونے کھدرے میں زنگ آلود پڑی ہے اسی زنگ آلود ہمت کو اگر استعمال کیا جائے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ ظلم اور بربریت پر میں اور کچھ کرسکتا ہوں یا نہیں مگر احتجاج کرسکتا ہوں احتجاج بھی بذریعہ بائیکاٹ ،جو کفار کے لیے سب سے مہلک اور خطر ناک ترین احتجاج ہے کیوں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ جب کہ کافر کے لیے جنت ہے ۔کفار کی اس جنت کے لوازمات یا آرام و آسائش دنیاوی دولت سے ہے اور یہ دولت یہ اپنی نت نئی اور بے انتہا مصنوعات کی فروخت سے حاصل کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف یہی کفار مسلمانوں کی نسل کشی پر تلے ہوئے ہیں تو دوسری طرف انھی کی مصنوعات استعمال کر کے مسلمان اپنے لیے تباہی کا سامان کرنے کے ساتھ ساتھ ان مصنوعات کے استعمال پر فخر بھی کرتے ہیں ۔

اگر ایک مسلمان یہ فیصلہ کرلے کہ وہ ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرے گا تو یقینا کفار کی جنت کے لوازمات میں کمی آئے گی وہ ایک بپھرے ہوئے ریچھ کر طرح مسلمانوں کے خون کے پیاسے نہیں ہوں گے بل کہ پاؤں چاٹنے لگے گیں مگر اس کے لیے احتجاج کی ضرورت ہے جلسے ،جلوسوں اور ریلیوں والا احتجاج نہیں بل کہ احتجاج بذریعہ بائیکاٹ ۔اس احتجاج کے لیے کسی وزارت، کسی عہدے، کسی حکومت یا کسی سفارتی تعلقات کی ضرورت نہیں ہے بل کہ یہ احتجاج تو ہر مسلمان کی پہنچ میں ہے چاہے وہ مسلما ن مالی ضروریات کی جنگ لڑنے کے لیے سخت دھوپ میں مزدوری کر رہا ہو یا ایک آرام دہ کروڑوں کی گاڑی میں بیٹھ کر سیر کے لیے جا رہا ہو مگر۔۔۔مگر اس کے لیے تمام مسلمانوں کو جسم واحد ہونا پڑے گا ، وہ درد اپنے اندر شدت و حِدت سے محسوس کرنا پڑے گا جس کا شکار ہزاروں میل دور بسنے والے مسلمان ہیں ۔
اخوت اس کو کہتے ہیں، چھبے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہوجائے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے ایک کے بائیکاٹ کرنے کا کیا فائدہ ہوگا تو بہت مشہور اور سچی بات ہے کہ قطرہ قطرہ مل کر ہی سمندر بنتا ہے اورپھر ہر کسی نے اپنی اپنی کوشش اور محنت کا جواب دینا ہوگا ہزاروں لاکھوں یا کروڑوں کانہیں ۔دوسری بات یہ کہ کچھ مصنوعات ہم نے اپنی ضرورت خواہ مخواہ کی بنا لی ہیں جیسے کولڈ ڈرنکس کی بات کی جائے تو اس کے بنا بھی گزارہ چل سکتا ہے اور بہت اچھا چل سکتا ہے پھر کاہے کی مجبوری اورکہاں کی ضرورت ۔ایسی سیکڑوں مصنوعات ہیں جن کا نعم البدل موجود ہے مگر ہم نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو ان چیزوں کا عادی بنا لیا ہے اور مزے کی بات ان اسلام دشمن اور مسلما ن دشمن ممالک کی 80فی صد ایسی مصنوعات ہیں جو ہم بلا وجہ استعمال کرتے ہیں کیا ہماری غیرت اتنی سوچکی ہے کہ ہم مسلمانوں کا قتل و غارت کرنے والوں کی مصنوعات احتجاجاً چھوڑنے پہ بھی ہچکچارہے ہیں ؟پیغام محمد ﷺ کا اتنا بھی پاس نہیں کہ ہم ایک جسم واحد کی طرح ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کر کے دشمن کو ہر طرح کا دشمن سمجھیں ؟
قلب میں سوز نہیں ،روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمھیں پاس نہیں

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی مصنوعات ان اسلام دشمن اور مسلمان دشمن ممالک کی ہیں اور کون سی مصنوعات اسلام دوست اور مسلمان دوست ممالک کی ہیں تو اس کے لیے ایک مسلمان کو تھوڑی سی محنت اور تھوڑا سا تردد کر نا پڑے گا ۔ جو مصنوعات متواتر استعمال کی جارہی ہیں ان کے بارے میں تھوڑی معلومات لینی ہوگی یہ کام اب اتنا مشکل نہیں رہا ہے آپ مصنوعات کے بروشر سے لے کے انٹرنیٹ کی دنیا تک اس معاملہ میں کوشش کر سکتے ہیں ۔ اس کے بعد آپ فیصلہ کرلیں کہ کون سی مصنوعات بحیثیت مسلمان استعمال کرنی چاہیے اور کون سی نہیں، مطلب کون سی مصنوعات کو بنانے والے اسلام اور مسلمان دوست اور کون سے دشمن ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کھلے الفاظ میں بتادیا ہے کہ مسلمان کا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے ؟

’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤیہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انھی میں شمار ہوگابے شک اﷲ ظالم لوگوں کوہدایت نہیں دیتا‘‘(سورۃ المائدہ آیت ۵۱)

جہاں تک مصنوعات کے معیار کا تعلق ہے تو اس کے لیے اتنا عرض کروں گا کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی تیار کردہ مصنوعات استعمال کریں گے تو یقینا انھیں حوصلہ ہوگا اور اس حوصلہ کو وصول کرنے کے بعد یقینا وہ اپنی مصنوعات کا معیار بڑھائیں گے ورنہ لاکھوں کی طرح ہمت ہار کر بیٹھ جائیں گے اگر ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا حوصلہ بڑھا دے گا تو یقینا اس کا اپنا ہی حوصلہ بڑھے گا کیوں کہ مسلمان نے ہی مسلمان کو تھامنا اور سنبھالنا ہے جس کے بارے میں خاتم النبین حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : ’’مسلمان ایک مضبوط عمارت کی مثل ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تھامتا ہے اور سنبھالتا ہے‘‘ (رواہ البخاری و مسلم)
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78410 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.