اے عرب کے حکمرانوں تم آج ہمیں اپنا دس فیصدی اسلحہ دے دو کل بیت المقدس
میں عید کی نماز پڑھ لو۔حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے سربراہ کا یہ
خوبصورت جملہ سوشل میڈیا پر ہاٹ کیک کے مانند اپنی مانگ اور قدر میں اضافہ
کررہا ہے ۔القسام بریگیڈ عز الدین القسام جو ایک نامور مجاھد تھے کے نام پر
بنائی گئی مجاھدین کی ایک تنظیم ہے جس نے اپنی جنگی ٹکنک کی وجہ سے اسرائیل
کا ناک میں دم کر رکھا ہے ۔عرب اسرائیل کی 1967کی جنگ صرف پانچ دن رہی
1973کی جنگ 7دن جاری رہی اور اب سے کچھ برس قبل حزب اﷲ سے 17دن جنگ رہی
لیکن اب حماس سے اسرائیل کی جنگ تقریباَایک ماہ پر محیط ہے ابھی یہ ختم
نہیں ہوئی بلکہ ایک خیال یہ ہے کہ اس میں ٹہراؤ آیا ہے حماس کے ایمانی جوش
اور جذبوں سے لبریز مجاھدوں نے اس جنگ میں قرون اولیٰ کے دور کی یاد تازہ
کردی ہے ایک صاحب جو عربی کے استاد ہیں اور بہت اچھی عربی لکھ پڑھ اور بول
لیتے ہیں اس جنگ کے دوران وہ تراویح کے بعد انٹر نٹ فیس بک کے ذریعے غزہ
اور مصر میں اپنے فیس بک کے دوستوں سے جنگ کی تازہ ترین صورتحال اور ٹھیک
ٹھیک مستند خبریں حاصل کرکے اپنے سوشل میڈیا کے دوستوں کو دیتے تھے اس جنگ
کا آغاز دراصل خود اسرائیل کی ایک خوفناک سازش کی وجہ سے ہوا کہ اپنے تین
فوجیوں کے اغوا کا الزام الخلیل پر الزام لگاکر اسے ادھیڑ کر رکھ دیا پھر
حماس پر الزام لگایا حماس نے بھی انکار کیا کہ ہم نے اغوا نہیں کیا اس کے
بعد القدس پر الزام لگایاگیا انھوں نے بھی انکار کیا جب 15دن بعد انکی جلی
ہوئی لاشیں ملتی ہیں تو اس سے پورے اسرائیل میں ایک کہرام مچ جاتاہے تمام
فوجیوں اور اسرائیلی شہریوں میں جذباتی فضا پیدا کی جاتی ہے غزہ کو صفحہ
ہستی سے مٹانے کی بات کی جاتی ہے ،اسی دوران ایک فلسطینی 17سالہ نوجوان ابو
خذیر کو اغوا کرکے اس پر شدید تشدد کیا جاتا ہے اور پھر اس کے منہ میں ڈیزل
ڈال کر آگ لگادی جاتی ہے اور پھر غزہ پر اسرائیل کی بمباری شروع ہو جاتی ہے
ویسے بھی غزہ کے باشندے اسرئیل کے طویل محاصرے سے تنگ آگئے تھے پانی اور
بجلی کی پریشانیاں الگ سے تھیں ملازمین کو تنخواہیں وقت پر نہیں مل پاتی
تھیں برسوں سے ان پریشانیوں تنگ آئے لوگوں نے حماس کی اس جنگ کو خوش آمدید
کہا اور یہی سوچا گیا کہ اس کھلی جیل میں سسک سسک کر مرنے بہتر ہے ظالم کا
مقابلہ کر کے ایک ہی دفعہ جان دے دی جائے یہی وجہ ہے کہ جہاں دو ہزار کے لگ
بھگ فلسطینیوں نے اس جنگ میں جام شہادت نوش کیا ہے وہیں اسرائیل سمیت پورا
بین الاقوامی میڈیا یہ کہہ رہا ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل کا پچھلی تمام
جنگوں کی بہ نسبت زیادہ نقصان ہوا ہے ۔اس میں 57 نہیں 400کے قریب اسرائیلی
فوجی مارے گئے ہیں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے لیے پریشانی کا سبب یہی
چیز تو ہے جب انھوں نے بڑے ملکوں سے جنگ کی جن کے پاس منظم فوج اور پوری
ریاستی طاقت ہوتی ہے تو ان ملکوں کو تو ایک ہفتے کے اند ر ڈھیر کردیا ،لیکن
حزب اﷲ اور حماس ایسی تنظیمیں جن کے پاس کوئی حکومتی طاقت نہیں جدید قسم کے
ہتھیار نہیں وہ مہینوں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کا مقابلہ کر جاتے ہیں
۔القسام بریگیڈ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگ
ہیں زیادہ تر انجینئرز ،ڈاکٹرزاور اساتذہ ہیں ،انھوں نے اپنے ایک انجینئر
احمد الجعبری کے نام پر J-50 میزائل بنایا اسی طرح ایک دور مار میزائل
R-160 بنایا ہے جس کا نام انھوں حماس کے سابق سربراہ عبدالعزیز رنتیسی کے
نام پر رنتیسی میزائل رکھا۔ ابو ظہبی سے جو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف
کی جو ٹیم غزہ کے شہریوں کی مدد کے لیے آئی تھی رفحہ بارڈر پر حماس نے ان
کی تصاویر کمپیوٹر کے ذریعے سے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سب ابو ظہبی
انٹیلجنس کے افسران ہیں جو ڈاکٹروں کے روپ میں اسرائیل کے مخبر تھے اس میں
سے کچھ بھاگ گئے کچھ نے معافیاں مانگیں ،بلکہ اس کے اوپر تو ابو ظہبی کی
حکومت نے سرکاری طور پر حماس سے معافی مانگی ۔جہاں تک اسرائیل کا یہ دعویٰ
ہے کہ اس نے حماس کی تمام سرنگوں کو ختم کردیا ہے بالکل غلط ہے حماس کی
تقریباَ سو سرنگیں ہیں جس میں سے صرف 6تباہ ہوئیں ہیں ،ا س موضوع پر آگے
بڑھنے سے پہلے یہ دلچسپ بات بتانا بھی ضروری ہے سرنگوں کی ٹیکنک شمالی ویت
نام نے بھی امریکا کے خلاف استعمال کی تھی ۔ویت نامی سرنگوں سے نکل کر آتے
اور امریکیوں کو مار کر چلے جاتے ۔ویت نام میں امریکیوں کی شکست کے اسباب
میں یہی سرنگیں بھی ایک سبب تھیں ۔اگر دیکھا جائے تو سب سے پہلے یہ جنگی
ٹیکنک ہمارے پیارے نبی آخر الزماں حضور اکرم ﷺ نے جنگ احزاب میں اختیار کی
تھی اسی لیے اس غزوہ کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے ۔جب ویت نامی جیسے غیر
مسلم ہمارے نبی کی اس جنگی حکمت عملی کو اختیار کر کے دنیا کی سپر پاور کو
شکست دے سکتے ہیں تو پھر حماس کے مجاھدین کیوں نہیں کامیابی حاصل کر سکتے
۔حماس کے مجاھدین بھی ان سرنگوں سے جو اسرائیل کی سرحد کے قریب نکلتی تھیں
سے نکل کر آتے اور اسرائیل کے فوجیوں پر حملہ کر کے واپس سرنگوں میں چلے
جاتے ،ان ہی سرنگوں میں سے ایک سرنگ میں 29حماس کے مجاھدین تھے خان یونس پر
جب اسرائیلی فوجی حملہ کرنے کے لیے آئے تو یہ مجاھدین ان کو روکنے کے لیے
نکلے تو اسرائیل نے سٹیلائٹ سے ان کی سرنگ کا پتا لگا لیا پھر انھوں نے
بمباری کر کے ان سرنگوں کے دونوں دہانوں کو بند کر دیا ان مجاھدین نے
اسرائیلی فوجیوں کو مخمصے میں ڈال رکھا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کا یہ بیان
آیا ہے کہ کوئی سائے آتے ہیں اور مار کر چلے جاتے ہیں گولیاں تو چلتے ہوئے
نظر آتی ہیں لیکن مارنے والے نظر نہیں آتے ۔ یہ حماس اور القسام بریگیڈ کے
لیے ایک بہت بڑا دھچکہ تھا کہ اس کے وہ 29مجاھدین شہید ہو گئے ۔ایک دو ہفتے
کے بعد جب مجاھدین کی طرف سے مسلسل حملوں کی وجہ سے اسرائیلی فوجی وہاں سے
پیچھے ہٹے تو حماس نے اس سرنگ کو کھودنا شروع کیا کہ اپنے مجاھدین کے جسد
خاکی کو نکال کر دفن کر دیا جائے جب انھوں نے سرنگ کھودا تو صرف6لاشیں ملیں
انھوں نے مزید اور کھودا تو ایک جگہ ان کی خوشی کی ا نتہا نہ رہی جب
23مجاھدین زندہ سلامت مل گئے ۔جب ان مجاھدین سے پوچھا گیا کہ آپ کیسے اس
میں دو ہفتے تک زندہ رہے انھوں نے کہا ہمیں یہ تو پتا نہیں کہ سانس لینے کے
لیے ہوا کہاں سے آرہی تھی کھانے کے لیے ہمارے پاس جو کھجوریں تھیں وہ ہم
سحری میں آدھی کھجور ہر ایک فرد کھاکر روزہ رکھ لیتا ، پانی کے بارے میں
انھوں نے بتایا کہ قدرتی طور پر زمین گیلی ہوئی پھر اس میں کچھ پانی کا
رساؤ معلوم ہوا حالانکہ اس جگہ 90فٹ کی گہرائی پر پانی نکلتا ہے زمین سے
نکلنے والے پانی سے ہم ایک کپڑا بھگوتے اور اس کپڑے سے ہم سب پانی کے چند
قطرے حلق میں ڈالتے تو وہی چند قطرے ہی ہماری پیاس بجھانے کے لیے کافی ہو
جاتے بعد میں یہ پانی اتنا بڑھ گیا کہ ہمیں یہ خطرہ ہونے لگا کہ کہیں ہم اس
پانی میں ڈوب نہ جائیں مجاھدین نے اس سرنگ میں تمام روزے بھی رکھے۔ حماس نے
ان 23مجاھدین کی تصاویر بھی نٹ پر جاری کی ہیں ۔اسرائیل دو لوگوں سے بہت
گھبراتا ہے ایک حماس کے ترجمان ابو عبیدہ جو نقاب پہنے ٹی وی پر آتے ہیں
دوسرے القسام کے سربراہ محمد ضیف جو معذور ہیں حماس کی مدد ایران اور لبنان
بھی کررہے ہیں حماس والے کہتے ہیں کہ عقیدہ الگ چیز اور مشن الگ ہمارا مشن
ایک ہی ہے اور وہ ہے بیت المقدس کی ازادی ۔حماس کے ساتھ ایک تنظیم القدس
بریگیڈ بھی مد کررہی ہے جو حرکت الاسلامیہ کی عسکری ونگ ہے القسام نے یہ
بیان دے کر اسرائیل کو ہلا دیا ہے کہ ہم نے ابھی بہت کچھ چھپا رکھا ہے
اسرائیل کی بمباری سے غزہ کے 23خاندان مکمل طور پر ختم ہو گئے حماس والے
لفظ ختم پر اعتراض کرتے ہیں یوں کہیں کہ یہ خاندان بمعہ اپنے اہل وعیال جنت
میں گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے شہداء جنت میں ہیں اور ان کے مقتولین
یہودی دوزخ میں ہیں ۔حماس نے جب اسرائیل کا ایک قیدی گرفتار کیا تو پورے
غزہ میں مسرت کی لہر دوڑ گئی تھی کہ ایک قیدی کے بدلے ایک ہزار فلسطینییوں
کو رہائی مل جاتی ہے اس کا نام ایریل شارون ہے اور یہ صدارتی ایوارڈیافتہ
سپاہی ہے۔حماس اور اسرائیل میں ایک اخلاقی فرق یہ بھی ہے حماس جب بھی حملہ
کرتی تھی تو اعلان کر کے کہ وہ 9بجے راکٹ ماریں گے تو اسی وقت مارتے تھے
لیکن اسرئیل کے پاس ایسی کوئی اخلاقیات نہیں ہے وہ جب چاہیں حملہ کردیتے
تھے اسی طرح جنگوں میں عبادت گاہیں ،تعلیمی ادارے،ہسپتال اور مہاجرین کی
پناگاہوں پر بمباری نہیں کی جاتی لیکن اسرائیل نے اس کا بھی خیال نہیں رکھا
ایک فرق سوچ کا یہ بھی ہے ایک حماس کا نوجوان جب گھر جاتا ہے تو اپنی ماں
سے کہتا ہے کہ ماں شہید ہونے کی میری باری کب آئے گی اور ایک اسرائیلی فوجی
جب گھر جاتا ہے تو اپنی ماں سے کہتا ہے کہ ماں میں بچ کر آگیا ۔حماس نے
اپنی 4 عسکری پروڈکٹس کا اعلان کیا ہے ۔پہلا یہ کہ انھوں نے ایسے میزائل
تیار کیے ہیں جو اسرائیل کی لگائی ہوئی رکاوٹوں کو توڑ کر اپنے حدف تک
پہونچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں دوسرے یہ کہ انھوں نے 6لاکھ دستی بم تیارکرلیے
ہیں اور اپنے غزہ کے بچوں سے کہا ہے اب پتھر کا دور لد گیا آپ کو
اسرائیلیوں کو مارنے کے لیے دستی بم دیے جائیں گے تیسرے انھوں نے ایک گن
تیار کی ہے جس کا نام انھوں نے الغول گن رکھا ہے یہ گن عدنان الغول شہیدجو
القسام کے ایک مجاھد انجینئر تھے کے نام پر رکھا ہے اور وہ اس کے اصل خالق
ہیں۔ اس کا دہانا14.5ملی میٹر ہے اور اس کی رینج 2کلو میٹر تک ہے اس جنگ
میں اس کا تجربہ بھی کیا اور اس سے یہ 16اسرائیلی فوجیوں کو مار چکے ہیں
چوتھی چیز جس کا انھوں نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے تین قسم کے ڈرون تیار
کر لیے ہیں ایک جاسوسی ڈرون دوسرا خود کش ڈرون اور تیسرا ٹارگیٹڈ ڈرون۔اس
پر مزید قسام کا یہ کہنا کہ انھوں نے ابھی بہت کچھ چھپا کر رکھا ہے
اسرائیلیوں کی نیندیں ہرام کر دی ہیں ۔اسرائیل کے جو ٹینک اور بکتر بند
گاڑیاں مجاھدین نے تباہ کیے اسے حماس نے غزہ کی گلیوں اور چوراہوں پر رکھ
دیا ہے جس میں فلسطینی بچے کھیلتے ہیں اس کی تصاویر بھی نٹ پر ہیں
۔سربراہوں میں ترکی کے سربراہ نے بھرپور حماس کی مدد کی ہے انھوں نے
40چینلز پر بیک وقت 15منٹ کی مہم میں لاکھوں ڈالر جمع کرلیے ہیں ترکی نے
غزہ کی 21مساجد جو اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو گئیں ہیں ان کو نئے سرے سے
بنانے کا اعلان کیا ہے۔ایک خاندان کے بمباری میں بچے مر گئے اس کے یہاں
زچگی ہونے والی تھی تواسی دن اس کے یہاں 4بچے ایک ساتھ پیدا ہوئے ۔ایک اور
اچھی بات یہ جہاں کی مسجدیں بمباری سے منہدم ہوئی ہیں وہاں مسلمانوں نے چرچ
میں نمازیں ادا کیں،اس لیے کہ چرچ کے پادریوں نے مسلمانوں سے خود کہا کہ آپ
چرچ میں آذان دے سکتے ہیں نماز باجماعت پڑھ سکتے ہیں ۔اسی دوران ایک واقعہ
اور ہوا کہ مسجد اقصیٰ کے قرب و جوار میں فلسطینی اور اسرائیلی آباد ہیں
فلسطینیوں کو بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے ،اس دفعہ
فلسطینیوں نے کئی دروازوں پر اسرائیلیوں کو بھگا کر قبضہ کرلیا اور وہاں
نمازیں ادا کیں ۔عرب کے تمام اسلام پسند عناصر کی رائے ہے کہ بہترین جنگ
لڑنے والے جنگجو القسام بریگیڈ کے پاس ہیں جو انتہائی منظم ہیں ۔اس دفعہ
حماس نے فیصلہ کن جنگ کا تہیہ کرلیا ہے آج بھی حماس کا بیان آیا ہے کہ
مطالبات پورے کیے بغیر جنگ بندی نہیں کریں گے ان کا اصل مطالبہ یہ ہے غزہ
کا محاصرہ جو برسوں سے جاری ہے ختم کیا جائے اور یہ کہ سمندر میں ایک حدود
تک ان کے ماہی گیروں کو مچھلیاں پکڑنے کی سہولت دی جائے ۔ |