قانون کا احترام۔۔۔

ہمارے سامنے امر یکا اور بر طانیہ کے علاوہ مغربی ممالک کی مثالیں مو جود ہیں‘ جہاں پر قانون سب کے لیے برابر ہو تا ہے ‘ امیر ہو یا غریب ، بادشاہ ہو یا فقیر ، سر کاری ملازم ہو یا پرائیویٹ اداروں میں کام کر نے والا ایک عام شحض ‘ قانون سب کے لیے بر ابر ہو تا ہے۔کوئی شحض قانون سے بالاتر نہیں ہو تا‘ ملک کا صدر ہو یا وزیر اعظم ‘ قانون کی پابندی کر ناسب پر فرض ہے جبکہ ایسی مثالیں بھی ان ممالک کی موجود ہے کہ اگر ایک وزیر سڑک پر بندسگنل کراس کر لیتا ہے تو ان کو نہ صرف جرمانہ کیا جاتا ہے بلکہ بد تمظی کرنے پر جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ تی ہے جبکہ بعض اوقات قانون کی خلاف ورزی کی بنا پروزرا اپنے عہدے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مغر بی اور ان تر قی یافتہ ممالک میں بڑے عہدوں اور سیاست دانوں کے لیے قانون پر عمل کر نا ایک عام شحض کے مقابلے میں زیادہ ضروری اور اہم ہو تا ہے ‘ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ عام لو گوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں اس کے بر عکس گنگا بہتی ہے ‘یہاں پر سر کاری آفسروں اور بیوروکریٹ سے لے کر ایک عام سپاہی تک قانون اور آئین سے مبر اتصور ہوتے ہیں جبکہ ایم پی اے ‘ایم این اے اور وزیر یا مشیر کسی سڑک کے سرخ سگنل کو کراس کریں، قانون کی خلاف ورزی کریں اور ٹر یفک پولیس ان کو چالان کر یں یہ خواب میں تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ انتہائی مشکل ہے ۔ ہم یہاں پر وزیر اعظم ، صدر ، اپوزیشن لیڈر، چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ ، چیف آف آرمی سٹاف اورچیف جسٹس آف پاکستان کی بات نہیں کر تے ‘ جہاں سڑک پر ان کے لیے کوئی سگنل یا قانون نہیں ہو تابلکہ عام تاثر تویہ ہے کہ ہمارے ملک کو چلانے والے ان حضرات پر قانون و آئین لاگو نہیں ہوتا ۔ قانون تو عام لوگوں کے لیے بنایا جا تا ہے خواص کے لیے نہیں‘بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ کا تعلق کسی وزیر یا مشیر کے خاندان سے ہیں یا آپ کا کوئی رشتہ دار پو لیس اور فوج میں آفیسر ہے توقانون کا احترام آپ پر فرض نہیں ‘ اگر غلطی سے پولیس اہلکاروں نے آپ کو غلطی پر روکا توکارڈیا ریفرنس دے کر آپ قانون سے آزادہو جاتے ہیں۔ دنیا میں اُن ممالک نے تر قی کی ہے جہاں پر قانون کا احترام مو جود ہے اور قانون سب کے لیے برابر ہے۔ ہم اسلام کا نام تو لیتے ہیں اور اسلام پر مر مٹنے کو بھی تیار ہو تے ہیں لیکن اسلام پر عمل کر نے کو تیا ر نہیں ہوتے ۔ اسلام کے بنیادی تعلیمات میں ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ ملکی قوانین کااحترام کیا جائے اور قانون کے سامنے سب جوابدے ہو‘ تب ہی ملک و قوم تر قی کر سکتا ہے ۔

قانون پر عمل نہ کر نے سے ہم خود کئی مسائل سے دوچار ہو تے ہیں مثلاً اگر ہم حکمران طبقے اور ایلیٹ کلاس کو سائٹ پر رکھیں اور قانون پر عمل کرنے کو صرف عام لوگوں کے لیے پابندی اور رہنمائی کا اصول بنائے توہمارے کئی مسائل خود بخود حل بھی ہو سکتے ہیں اور ہم کئی مشکلات سے بھی بچ سکتے ہیں ے۔ دوسرے قوانین کے علاوہ اگر ہم سڑگ پر گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہو ئے متعلقہ سپیڈ اور قوانین کا خیال رکھیں تو ہم حادثات سے بچ سکتے ہیں ۔مغر بی ممالک جس کو اسلام دشمن اور ملک دشمن کہتے ہو ئے ہم تکتے نہیں وہاں پر سا ئیکل چلا تے ہو ئے بھی ہلمٹ پہننا جاتا ہے جبکہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اگر دو آدمی بیٹھے ہو تو دونوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ ہلمٹ پہنے جبکہ ہمارے ملک میں اور خیبر پختونخوا کے باقی شہروں کے علاوہ پشاور شہر میں بھی بغیر ہلمٹ کے موٹر سائیکل چلائے چلتے ہیں‘ قانون پر عمل کیا اپنی حفا ظت کی خاطر بھی ہلمٹ نہیں پہنتے اور تیز رفتاری اور اپنی لائن کی پروا کیے بغیر مو ٹر سائیکل چلتے ہوئے حادثات کو جنم دیتے ہیں ‘خاص کر کسی ایونٹ کے موقعے پر تو مو ٹر سائیکل چلانے والے حاد ثات میں کئی گنا اضا فہ ہو جا تا ہے ۔ عید کے مواقعے پر سینکڑوں ٹر یفک حادثا ت جن میں اکثر یت مو ٹرسائیکل چلانے والوں کی ہے رونما ہوئے جس میں بہت سے نوجوان اپنے والد ین کو غم میں چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے جبکہ بہت سے نواجوان ہسپتالوں میں موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔جہاں پر قانون نافذ کر نے والے اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کو قانون پر عمل کر نے کاپابند بنائے وہاں ہم سب کا اور خاص کر والدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قانون پر عمل کر نے اور قانون کا احترام کر نے والا بنا دے تاکہ عمر بھر افسوس اور مصیبتوں سے بچ سکے۔

پا کستان میں اس وقت نواجوان طبقہ طبعی اموات سے زیادہ ٹر یفک حادثات ، تیز رفتاری ، غلط اورٹیکنگ کی وجہ سے مر تے ہیں اور اپنے والدین کے لیے عمر بھر کا غم چھوڑ لیتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ خواص کی طرح عام لو گ بھی جہاں ان کا بس چلے قانون کو پیروتلے روند ڈالتے ہیں ۔پا کستان کے درالحکومت اسلام آباد کے علاوہ تقر یباً تمام شہروں میں ٹر یفک قوانین پر عمل نہ ہو نے کے برابر ہے ‘ قوانین موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جا تا ‘ جس کا قانون نافذ کر نے والے اداروں کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں‘ اس میں امر یکا اور برطانیہ کا قصور ہے اور نہ ہی مغربی ممالک کی سازش اس میں شامل ہے ۔قانون پر عمل کر نے والے معاشرے ہی تر قی کر تے ہیں ۔
 
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226320 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More