ظاہر پر نہ جائیں اور دوسروں کو حقیر نہ جانیں

 ظاہر پر نہ جائیں اور دوسروں کو حقیر نہ جانیں۔اندر سے وہ کیا ہے صرف اﷲ جانتا ہے

ہم نے اسلام کا ہر نظریہ کو کلچر کے اثر کے تحت غلط کر دیا ہے ۔ہمارا لوگوں کے بارے ظاہر پر مبنی فوری رائے، نقطہ نظر،فتوی، دینے کی بری عادت ہے کہ یہ بندہ نیک ہے یہ برا ہے، دیکھو لباس کیسا پہنا ہے یار تم دال کیوں کھا رہو پیسے بچا رہے ہو،دیکھو یہ کسے ہنستا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں ایکدمjudgemental نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ بندہ اندر سے کیا ہے صرف اﷲ کو پتہ ہے۔ اور نیکی یا بدی کا فیصلہ ویسے بھی اﷲ نے کرنا ہے۔ ہم یہ رول خود نہیں سنبھال سکتے۔ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ بندہ کب اپنی اصلاح کر کے یاoutstanding کاکام یا نیکی کر کے ولی اﷲ بن جائے۔اس لئے ہمیں دوسروں کو جیسے کہ وہ ہیںaccept کر لینا چاہئے۔ہم ہر ایک کو اپنے سٹینڈرڈ سے دیکھتے ہیں کہ اسے یہ کرنا چاہئے اس لئے ہر وقت ہر ایک کی ہر بات کہ کیسے کپڑے پہنے ہیں،کیا کھا رہا ہے، کیسے بات کر رہا ہے پر اسے کہنے سے بھی نہیں جھجکتے۔
مغربی ممالک میں کوئی کسی کے لباس ، کھانے کی عادات پر رائے زنی نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ ہر ایک کا حق سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا کر سکتا ہے یا وہ ماحول جس میں پلا ہے یا رہ رہا اس کے اثر کی وجہ سے ایسا ہے۔ وہ اس چیز کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ اس کا آپ کے ساتھ سلوک کیسا ہے یہی اہم بات بھی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرہا ہے تو ٹھیک ہے۔صحابہ کرام ؓ بھی ظاہری رکھ رکھاؤ کو بالکل نہیں دیکھتے تھے۔ ایسے لگتا ہے کہ اﷲ نے ہماری مت مار دی ہے۔مجھے یہ لکھنے کا اس لئے خیال آیا کہ میں نے اخبار میں پڑھا کہ کسی نے ہماری کسی فلم ایکٹریس کے روزہ رکھنے پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔

ایک ذاتی واقعہ سے بھی یہ واضح کرتا ہے۔ جب میں اپنی پہلی کتاب لے کر ایک مفتی صاحب کے پاس دکھانے کے لئے گیا تھا۔وہ مدرسے میں بیٹھے تھے مجھے پتلون شرٹ میں دیکھ کرعجیب نظروں سے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں،اور چند دن بعد آنے کے لئے کہا جب میں دوبارہ گیا تو کہنے لگے ماشاء اﷲ کتاب تو بہت اچھی لکھی ہے۔پھر کہنے لگے کہ جب آپ آئے تھے تو میں نے سوچا تھا کہ شکل دیکھو اور اسلام پر کتاب لکھنے لگے ہیں۔ میرے ایک استاد نے بھی ایک ایسا کیا تھا ۔ایکدن عصر پڑھ کر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی گھوڑ سواری کے لباس میں مسجد میں داخل ہوا تو ان کے دل میں شیطان نے ایکدم خیال ڈالا کہ انگریزوں جیسی چال ڈھال شکل دیکھو اور آ یا ہے نماز پڑھنے۔ اس شخص نے ہیٹ اور لمبے بوٹ اتارے۔ پھر بڑی احتیاط سے وضو کیا اور بڑی توجہ، انہماک سے نماز پڑھی اور دعا مانگی۔جو بہت کم لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مولوی صاحب پچھتائے اور جب وہ آدمی جانے لگا تو مولوی صاحب نے اس سے معافی مانگی کہ میرے دل میں تمہاری انگریزوں جیسا ظاہری رنگ ڈھنگ دیکھ کر حقارت پیدا ہوئی تھی جس کے لئے میں شرمسار ہوں۔اس کے بعد مفتی صاحب اور میری دوستی ہو گئی اور میری ہر کتاب جو چھپی ہے اس کا تعارف انہوں نے ہی لکھا ہے۔جس کے لئے میں دعاء گو ہوں-

اس ذاتی واقعہ سے یہ بھی د کھانا مقصود ہے کہ ہم نے اگر ترقی کرنی ہے اور مسلمانوں کا نشاۃ ثانیہ یاrenaissanse دیکھنا ہے تو ہمیں اپنی سوچیں اور رویے اور عادات درست کرنی ہونگی۔ اور ہر فرد کی ذاتی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھا کر آگے بڑھنا ہو گا ۔کسی کو بھی حقیر سمجھنے کی بجائے اسے اپنا assetیا اثاثہ سمجھنا ہوگا۔ نئے سے نئے آئیڈیاز کو پیدا کرنا ہوگا۔ ہر شخص کو اﷲ ایک خاص مقصد اور رول کے لئے پیدا کرتا ہے اسی لئے علامہ اقبال کہہ گئے ہیں کہ، ؛ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ؛ تو آئیے آج سے ہر پاکستانی مرد عورت کی دل سے عزت کریں کہ اسی کی مدد سے ہی ہم نے ترقی کرنی ہے۔اور ہمیں ہر ایک پر فخر ہونا چاہئے کیونکہ وہی ہمارا اپنا ہے۔اﷲ تعالی نے کب، کس سے کیا آئڈیا دے کرکام لینا ہوتا ہے یہ اس کی مشیت اور مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ کسی کی ذاتی صلاحیت نہیں ہوتی اور نہ ہی بڑا کا م کرنا صرف بڑوں کی یا سپیشلسٹ لوگوں کا حق اور تخصیص ہوتی ہے۔ پم میں سے ہر ایک کو اﷲ تعالی سے پاکستان کے لئے بڑے کام کرنے کی توفیق مانگنی چاہئے تبھی ہم دنیا میں عزت والے بنیں گے۔ ورنہ ہم جیسے اب ہمارے سیاست دان اور دوسرے بڑے ہر ایک کو چھوٹا اور حقیر جان کربرداشت نہیں کر رہے تو ہمارے بچوں کا مستقبل خراب ہو جائے گا۔اﷲ ہمارا نگہبان ہو۔ آمین
Imtiaz ali
About the Author: Imtiaz ali Read More Articles by Imtiaz ali: 37 Articles with 39368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.