مختلف زبانوں کی مختلف انداز

جمشید خٹک
دُنیا کی سات ارب کی لگ بھگ آبادی میں بسنے والے انسان اس وقت تقریباً سات ہزار سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں ۔سب سے زیادہ زبانیں ایشیامیں بولی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ بولنے والی زبان دُنیا کی کل آبادی کی تقریباً 14.4 فی صد یعنی 955 ملین لوگ چین ، تائیوان اور سنگاپور میں آباد ہیں۔405 ملین افراد سپینش زبان بولنے والے ہیں۔ جو سپین اور اس کے سابق کالونیوں میں رہنے والے لو گ ہیں۔ 360 ملین افراد یعنی کل آبادی کے 5.43 فی صد لوگ انگریزی بولتے ہیں۔ 310 ملین یعنی 4.7 فی صد لوگ ہندی بولتے ہیں۔ 295 ملین افراد یعنی 4.43 فی صد عربی سمجھتے اور بولتے ہیں۔74 ملین یعنی کل آبادی کا 1.12 فی صد فرنچ بولتے ہیں۔66 ملین افراد یعنی کل آبادی کا 0.99 فی صد اُردو بولتے ہیں۔جن کی کثیر تعداد پاکستان اور بھارت میں بستے ہیں۔39 ملین افراد یعنی 0.58 فی صد افراد پشتو زبان بولتے ہیں۔جن کی زیادہ تعداد افغانستان اور پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ کراچی میں کل آبادی کا 25 فی صد پشتوزبان بولتے ہیں۔کراچی کا شہر صوبہ خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے علاوہ پشتو بولنے والوں کا بڑا شہر ہے ۔ پاکستان میں 44 فی صد لوگ پنجابی ، 15.9 فی صدپشتو، 14 فی صد لوگ سندھی ، 10 فی صد سرائیکی ، 7.5 فی صد اُردو ، 3.59 فی صد بلوچی بولتے ہیں۔اس کے علاوہ کئی دوسری چھوٹی زبانیں یا بولیاں بولی جاتی ہیں۔صوبہ خیبر پختونخوا میں چھوٹی بڑی کل 26 زبانیں بولی جاتی ہیں۔خیبر پختونخواہ اور قبائیلی علاقوں میں ایک کروڑ لوگ پشتو بولتے ہیں۔17 زبانیں چترال میں بولی جاتی ہیں۔بعض زبانیں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق بچہ مادری زبان میں جو کچھ آسانی سے سیکھ سکتا ہے ۔وہ غیرملکی زبان میں نہیں۔اقوام متحدہ کی سفارشات کی بنیاد پر ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینی چاہیے۔اکثر ممالک میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کثیر الازبان قومیں مختلف قسم کے زبانوں اور بولیوں کی وجہ سے ایک بولی کا انتخاب مشکل ہوتا ہے ۔لیکن سوئیزرلینڈ جیسے ملک میں چار قومی زبانیں ہیں اور تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے ۔بھارت میں سب سے زیادہ مختلف زبانیں بولنے والے افراد آباد ہیں۔ لیکن قومی زبان کا مسئلہ پیش نہیں آیا ہے ۔نہ لسانی بنیادوں پر جھگڑے اور فسادات ہوئے ہیں۔تقسیم ہند سے قبل ہندوستا ن کے ایک شہر میں خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم سیاسی رہنما نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اُس کا قوم بہادر ہے ۔ مہمان نواز ہے ۔ تقریر ختم کرنے کے بعد بعض حلقوں نے اُس کی تقریر پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ اتنا بڑا لیڈر ہو کر بھی قوم کو مذکر کے صیغے میں استعمال کرتا ہے ۔ جبکہ قوم مونث ہے ۔ اُس رہنما نے فوراً جواب دیتے ہوئے کہا ’’ کہ ہوگی تمھاری قوم مونث میرا قوم مذکر ہے ۔

ہر زبان کے بولنے افراد اپنے اپنے مخصوص اندا ز میں الفاظ کا چناؤاور تلفظ کا استعمال کرتے ہیں ۔ جو دوسری زبان کے بولنے والے وہ تلفظ ادا نہیں کر سکتے ۔تلفظ کی غلط ادائیگی سے بولنے والے کی تضحیک کرنامناسب نہیں ہے ۔کوئی بھی دوسری زبان بولنے والے اہل زبان کی طرح صحیح ادائیگی نہیں کرسکتا۔ بلکہ بعض زبانوں میں الفاظ ادا کرتے ہوئے کھائے جاتے ہیں۔ فرانسیسی زبان دُنیا کی قدیم ترین زبان ہے ۔74 ملین بولنے والے افراد فرنچ بولتے ہیں ۔ لیکن فرنچ میں وہ الفاظ جس کے آخر میں EST آجائے ۔ عام طور پر اُس کی ادائیگی ہوتی نہیں ہے ۔ جیسے کہ Garde lest کے لفظ کو اگر ہجے کے لحاظ سے پڑھا جائے تو گارڈی لسٹ پڑھا جائے گا۔ لیکن اُس کی صحیح تلفظ گارڈی لے ہے ۔ آخر میں آنے والے تین الفاظ Est کھائے جاتے ہیں۔جب ہم سکول میں پڑھتے تھے ۔تو ایک دن تختہ سیاہ پر لکھے ہوئے لفظ NATURAL کو ایک طالب علم نے الفاظ کو دیکھتے ہوئے اُس کو نتولے کہا ۔ استاد نے اُس کی خوب سرزنش کی ۔ایک دن میں سپین کے ایک شہر میڈرڈ میں گھوم رہا تھا ۔ تو ایک دُکان پر NATURAL لکھا ہوا تھا۔اُس کو سپینش زبان میں نتولے پڑھا جاتا ہے ۔لفظ نتولے پر مجھے اُس طالب علم وہ واقعہ یاد آیا ۔ جس کو نتولے کہنے پر استاد کی طرف سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اسی طرح پشتو بولنے والے اُردو کے تلفظ کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتے ۔ جیسے جہاز پھٹ گیا ۔ہر بیس میل کے بعد زبان کی تلفظ تبدیل ہو جاتی ہے ۔ا اسی طرح پشتو زبان کے قندھاری لہجے اور یوسف زئی لہجے کے چند الفاظ میں فرق پایا جاتا ہے ۔خٹکوں کی زبان لہجے کے اعتبار سے قندھاری لہجے کے قریب ہے ۔بعض علاقوں میں ف کو پ پڑھا جاتا ہے ۔جیسے گلفام سے گلپام ۔ فلم سے پلم ۔ بنگلہ زبان میں بولنے والے اکثر ج کو ز کی طرح پڑھتے ہیں اور اچھے خاصے نام جلیل کو زلیل کی آواز سے پڑھتے ہیں ۔عربی زبان میں پ کا حرف نہیں ہے ۔ عام طور سے پ کو ب کی طرز پر پڑھتے ہیں۔انگریزی کا اپنا ایک انداز ہے ۔ وہ بھی امریکن انگریزی برطانوی انگریزی میں بھی تلفظ کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے ۔ دونوں زبانوں کے کئی الفاظ ہجے اور معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں دفتری نظام میں انگریزی استعمال کی جاتی ہے ۔اس لئے لہجے اور معنی کے ہر زبان کی غلطیاں ہوتی ہیں۔جیسے Photostat کو عام طو ر سے Photostate لکھا جاتا ہے ۔جو غلط ہے ۔

ہر بیس میل کے فاصلے کے بعدلہجے میں فرق آجاتا ہے ۔اور یہی فرق ماحول رسم و رواج ، تاریخی پس منظر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ جس علاقے کے لوگ جتنے تعلیم یافتہ ، مہذب اور شہری ہونگے۔زبان اتنی ہی میٹھی ، شائستہ و شستہ ہوگی ۔جو زبان پہاڑوں ڈھلوانوں میں پروان چڑھتی ہے ۔ اُس پر گونج ، کڑواہٹ اور سخت گیری پائی جاتی ہے ۔محلوں میں پلی ہوئی زبان اُتنی ہی نرم اور مدہم سروں والی ہوگی ۔ انگریزی زبان کے ایک سیریل Mind your Languge میں اُن احساسات کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے ۔صرف زبان ہی نہیں اشاروں ، کنایوں اور عادات کو بیان بھی کیا گیا ہے ۔

انسان کی زبان سے نکلے ہوئے چند الفاظ میں مماثلت پائی جاتی ہے ۔ بچہ تو تتلی زبان میں جب سب سے زیادہ قریب ہستی کو ماں کہہ کر پکارتا ہے تو یہ لفظ انگریزی ، فرانسیسی ، اُردو ، پشتو ، فارسی میں م سے شروع ہوتا ہے ۔ایک زبان نے مدر کہا ۔ دوسرے نے مادر۔ تیسرے نے ماں ۔ چوتھے نے مور۔ اسی طرح انگریزی میں Brother ، فارسی میں برادر، اُردو میں بھائی۔ وہ الفاظ ہیں جن میں م اور ب مشترک ہے ۔

یورپ میں لفظ پرابلم انگریزی ، سپینش ، جرمنی ،مجارستان سب میں مشترک ہے۔کوثر غوریا خیل کی کتاب ’’ د ژبو ویشنہ ‘‘ میں ان مشترک الفاظ کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔

زبانیں مختلف ماحول ، زمین ومکان اور ادوار میں پروان چڑھتی ہیں۔ جس کے اثر کی وجہ سے مختلف لہجے اور روپ دھار لیتے ہیں۔ لیکن سارے زبانوں میں کئی الفاظ کا مشترک ہونا اس بات کی ثبوت ہے کہ ابتدائی طور پر اشاروں کی زبان کے بعد سب سے پہلے نکلے ہوئے الفاظ تقریباً ایک جیسے تلفظ کے ساتھ ادا ہوتے تھے ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 4 Articles with 4319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.