نوجوانوں کا عالمی دن

 12 اگست کو پوری دنیامیں نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتاہے ،اس دن کو منانے کامقصدنوجوانوں کے مسائل اور ان کے ترقی کے مواقوں کو تلاش کرنا ہے ،اقوام متحدہ نے1998 نے پہلی مرتبہ عالمی یوم نوجوانان منانے کی منظور دی جس کے بعد ہرسال بارہ آگست کو یہ دن پوری دنیا میں جوش و خروش سے منایا جاتاہے اس دن کو ہر سال ایک مرکزی عنوان دیا جاتاہے ،روان برس عالمی یوم نوجوانان کے مرکزی خیال و موضوع" نوجوان اور ذہنی صحت" کے سلوگن کے تحت ذہنی صحت کے معاملات ہے ہر سال نوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں پروگرام ،یوتھ کانفرنس ،سیمنار منعقد کیے جاتے ہیں ۔

میر ا تعلق عرصہ دارز سے سماجیات کے شعبے سے ہے جہاں پر مختلف اداروں کے ساتھ نوجوانوں کے مسائل ،ان کی ترقی ،اوران کو درپیش چیلجز کے حوالے سے مختلف فورم ،ٹریننگ ،کانفرنس،فسٹیول ،ایونٹ و دیگر تقریباب میں شرکت کرنے کے ساتھ ان کو آرگنائز کرنے کے بھی مواقع ملتے رہے ہں جہاں پر سیکھنے وار سکھانے کے بہترین عمل سے بھی گزانا پڑا ،اس بار بھی بین الاقومی ادارے برٹش کونسل اور چانان ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے تعاون سے وانگ بلوچستان کے زیراہتمام لسبیلہ میں مختلف سرگرمیوں کے انعقاد کیا جارہاہے ۔

جومیں سمجھتا ہوں کہ لسبیلہ میں نوجونوں کے لیے ایک اہم سرگرمیاں ہونگی جس سے عالمی سطح پر منانے جانے والے ان دن کی تقریبات کا حصہ ہونگے ۔

اگر دیکھا جائے تو معاشرے افراد سے مل کر تشکیل پاتاہے اور ہر فرد کا کا اپنا مخصوص مقام و اہمیت ہوتی ہے لیکن معاشرے کی ان تمام اکائیوں میں جو سماجی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں اس سب میں اہم طبقہ نوجوانوں کا سمجھا جاتاہے ،کہتے ہیں کہ نوجوان کسی بھی سماج کے بیرومیٹر ہوتے ہیں اور نوجوان ہی سماجی کے سب سے بڑی متحرک شہری ہوتے ہیں،انقلابی سوچ کا حامل یہ حوصلہ مندطبقہ اگر درست سمت کی طرف گامزن ہوجائے تو ملک و قوم کا سرمایہ اور مضبوط معاشرے کے ممار ہوتے ہیں اگر یہ سرمایہ ہی ٹوٹ پھوٹ اور افراط و تفریط کا شکار ہوجائے تو مستحکم سے مستحکم معاشرہ بھی زوال کا شکار ہوجاتاہے الغرض کسی قوم کے نوجوان ہی اس کے مستقبل کی کامیابی و ناکامی کی ضمانت ہوتے ہیں،ماضی و حال میں میں ہمیشہ دنیا بھر میں اٹھنے والی ہر انقلابی تحریک کی روح رواں نوجوان ہی رہے ہیں یہ کیونکہ معاشرے کا ذہین طبقہ ہوتے ہیں اس لیے دنیا بھر میں بڑی پیمانے پر ہونے والی سیاسی و معاشرتی تبدیلیاں اور تیزی سے بدلتے حالات سب سے زیادہ نوجوانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں نفسیاتی الجھنیں،ذہنی دباو اور ڈپریشن وغیرہ جیسے مسائل جنم لینے لگتے ہیں-

دنیا بھر میں نوجوانوں کی ترقی کے حوالے سے اقدامات کیے جارہی ہے ،کیونکہ ان ہی نوجوانوں نے بڑے ہوکر ملک و ریاست کی لیڈرشپ بنا ہے تو لہذ ا ایسی صورتحال میں نوجوانوں کو پرسکون ماحول اور ذہنی صحت کے فروغ کی حامل سرگرمیوں کویقینی بنانا ہوگا ،بچپن سے دور بلوغت میں داخل ہونے کا وقت زندگی کا وہ آزمایشی مرحلہ ہوتاہے جس میں نوجوانوں کی جسمانی ،ذہنی اور سماجی نشوونماہوتی ہے،اور یہی وہ مرحلہ ہوتاہے کہ جہاں سے نوجوان اپنے زندگی کی رائیں چنتاہے نوجوان مثبت سرگرمیوں میں شمولیت کرکے مناسب طرز زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں اور اکثر اس مرحلے پر منفی سرگرمیوں میں شامل ہوکر بے راروہی کا شکار ہوجاتے ہیں ،اگرنوجوانی کے اس مرحلے پر گھر سطح ،خاندان ،تعلیمی ادارے اور دوست پر سطح پر اچھی گائیدئنس ملے تو وہ نوجوان خوداگہی کے عمل میں شامل ہوکر پراعتماد طریقے سے اگے بڑتے ہیں لیکن اگر گھر ،خاندان،ادارے اور اردگر د کے افراد سے اچھا ماحول نہ ملیں تو نوجوان اپنی رائیں خود متعین کرنے لگاتاہے اس دوران وہ تنہائی پسندی ،بے چینی اور ڈپریشن کا شکا ر ہوکر معاشرے اور خاندان پر بوجھ بن جاتاہے ،یا پھر یہ نوجوان غلط افراد کے ہاتھوں میں چلا جاتاہے جس سے معاشرے کے اندروہ بگاڑ کا باعث بنتاہے ۔

ذہنی صحت میں میں خوداعتمادی کا عمل ایک بنیادی عنصر ہے اگر آپ کو اپنے آپ پر اعتماد ہے تو وہ نوجوان ایک لیڈر کی صلاحیت کا مالک ہے ان کے صلاحیتوں کی استعدکاری کرنے کی ضرروت ہے اس لیے نوجوانوں کو ترغیب دینے چاہیے کہ وہ اپنے اندر قابل ذکر صلاحیتوں کا تلاش کریں اور اپنے اند ر اعتماد پیدا کریں وہ نوجوان جن کی پرورش پراعتماد انداز میں ہوتی ہے وہ پرجوش ہوتے ہیں کامیاب اور مفید زندگی بسر کرتے ہیں اس کے برعکس کم اعتمادی ،نامناسب رویے اور زبانی و جسمانی دشام منفی انداز میں نوجوانوں کی ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں -

موجودہ ملکی حالات کا جائزہ لیں نوجوانوں ملک کی آبادی کا 60 فی صد حصہ ہے ،ملک کے سیکوڑٹی حالات ،کرپشن ،بے روزگاری ،عدم استحکام ،اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے نوجوان طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے ،اس تمام تر صورتحال میں نوجوانوں کو اپنے اندر لیڈرشپ صلاحیتوں کا پیدا کرنا ہوگا اور حکومت کو بھی نوجوانوں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان طرح کی یوتھ پالیسی کو بنا نے کے ساتھ لاگو کرنا ہوگاتاکہ نوجوانون کو اس قابل بنایا جاسکے کہ وہ ملکی حالات ،معاشرتی رویوں ،اور سماجی ترقی کے عمل کو سمجھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں ،اس سلسلے میں سیکھنے کے عمل کو وسعت دینی ہوگی روایتی تعلیمی اداروں سے اگے نکل کر سیکھنے کے امکانات کو تلاش کرنا ہوگا کیونکہ دنیا بہت
اگے نکل چکی ہے اور ہم ابھی تک ہم پراعتمادی کی سیڑھی کو ہی چڑھ نہیں سکیں ہیں ،
Khalil Ronjho
About the Author: Khalil Ronjho Read More Articles by Khalil Ronjho: 12 Articles with 17661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.