چینی کی خوشہ چینی

کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کے ساتھ سابق وزیر خواجہ شہاب الدین کے نام پر قائم شہاب الدین مارکیٹ اب لائینز ایریا کی نئی شاہراہ پر چھوٹی چھوٹی دکانوں میں قائم ہے۔ جہانگیر پارک کے سامنے اس وسیع و عریض پلاٹ کو خالی کراتے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ ان دکانداروں کو واپس وہاں بسایا جائے گا۔ جو تا حال پورا نہیں ہوسکا ہے۔ وعدوں کے مقابلے پر کراچی میں زمین کے پلاٹ زیادہ قیمتی ہیں۔ اس لئے وعدوں کی اس قدر پروا نہیں کی جاتی۔ یوں بھی اردو شاعری میں محبوب کے وعدے ایفاء کے لئے نہیں۔ بلکہ محبوب کو ستانے کے لئے ہوتے ہیں۔ چینی کی خوشہ چینی کے لئے میں نے گزشتہ کئی دنوں کئی کوشش کیں۔ جو کامیابی سے دوچار نہ ہوسکی۔ میرے دفتر کے نزدیک ایک یوٹیلٹی اسٹور ہے۔ جس پر چینی آنے سے پہلے ہی، چونٹیوں کی طرح لوگوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ چینی سے چونٹیوں کی رغبت نے ان کے حواس میں چینی کی بو رچا دی ہے۔ جبکہ ملک میں چینی کی کمیابی نے انسانوں میں چونٹیوں کی جبلت کو جنم دے دیا ہے۔ یوٹیلٹی اسٹور پر روز لائن لگتی ہے۔ روز جھگڑے ہوتے ہیں۔ سیکورٹی والے دھکے دیتے ہیں۔ لیکن چینی کی کشش کی طویل قطار اسی طرح قائم رہتی ہے۔ شہاب مارکیٹ میں جب دکاندار نے ایک چھوٹے کو بلا کر کہا کہ جلدی سے پانچ کلو دانہ لے آ۔ تو میں یہ سمجھا کہ قربانی کی آمد ہے۔ جانور کے لئے دانہ منگوایا جارہا ہے۔ لیکن جب ایک خاکی تھیلے میں خاموشی سے چینی لائی گئی۔ تو مجھے اندازہ ہوا کہ اب چینی کے لئے بھی مارکیٹ میں منشیات کی طرح کوڈ ورڈ استعمال کئے جانے لگے ہیں۔ ایک دن پہلے ملک میں کاروباری مسابقت کے فروغ کے ادارے نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے چینی کے بحران پیدا کرنے میں اپنی ’غلطی‘ تسلیم کر لینے کے بعد نرم برتاؤ کی درخواست غور کرنے کے لیے منظور کی تھی۔

کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان کے مطابق شوگر ملز مالکان کی جانب سے قاعدہ نمبر انتالیس کے تحت دائر کردہ نرم برتاؤ کرنے کی درخواست میں شوگر ملز نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ملک میں چینی کی فراہمی میں ان سے کوتاہی ہوئی ہے جس پر وہ معافی کے طلبگار ہیں۔ آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سکندر خان نے اپنی ’غلطی‘ تسلیم کرنے کا بیان جاری کرنے سے ا نکار کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کمیشن کے چیئرمین کے سامنے اپنا مؤقف رکھا ہے ۔ ملک میں عدالتی حکم پر عملدرآمد میں صوبائی حکومتوں کو اسقدر دلچسپی نہیں ہے۔ جتنی حکومت بچانےکے لئے لی جارہی ہے۔ شہر کے سب سے بڑے سپر اسٹور میں جو سفاری پارک کے نزدیک وسیع و عریض رقبے پر قائم ہے۔ چینی سرے سے نایاب ہے۔ اس اسٹور کا دعویٰ ہے کہ یہاں آپ سوئی سے لے کر ہاتھی تک خرید سکتے ہیں۔ لیکن چینی یہاں بھی غائب ہے۔ پریس کلب سے نکل کر سندھ سیکٹریٹ کے عقب میں ایک یوٹیلٹی اسٹور پر بھی ہر وقت لائن لگی ہوتی ہے۔ لیکن چینی یہاں بھی چند خوش نصیبوں ہی کو مل پاتی ہے۔ باقی چینی حکومت سندھ کے اہلکاروں کو خفیہ طریقے پر سپلائی کی جاتی ہے۔ چند دن پہلے صحافیوں کو منہ بند رکھنے کے لئے پریس کلب میں بھی چینی کی ایک کھیپ پہنچی تھی۔ لیکن اخباروں کے دفتر میں اطلاع پہنچنے سے پہلے ہی چینی کا اسٹاک ختم ہوگیا۔ پورے مہینے کا سودا خریدنے والے گاہکوں کہیں کہیں پانچ ہزار روپے کی خریداری پر دو کلو چینی کا’تحفہ‘ دیتے ہیں۔

عام شہریوں کو چینی کی تاریخی قلت کا سامنا ہے جس کا آغاز حکومت شوگر ملزم مالکان کے ایک تازہ ترین معاہدے سے ہوا ہے۔ عدالت عالیہ سے منظوری کے بعد نافذ ہونے والے اس معاہدے کے تحت ظاہری اور باطنی طور پر یکساں خواص والی چینی عام اور کمرشل کے ناموں سے ایک ہی مارکیٹ میں دو الگ الگ قیمتوں پر فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس معاہدے میں طے کیا گیا ہے کہ عام صارف کو چینی چالیس روپے فی کلو کے حساب فراہم کی جائے گی جو مجموعی کھپت کا صرف تیس فی صد بیان کیا گیا ہے۔ باقی ستر فی صد پر مشتمل چینی کی قیمت کے تعین کو آزاد مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا اور اسے کمرشل چینی کا نام دیا گیا۔ نتیجے کے طور پر قیمت پچاس فی صد کے اضافے کے ساتھ ساٹھ روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ کمرشل چینی کا استعمال بیکریوں میں بسکٹ، مٹھائی، ٹافی گولی، بسکٹ، مشروبات والی فیکٹریوں اور دیگر کاروباری و صنعتی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے اور عام چینی عام صارف کے لیے ہے۔ اب عام آدمی مہنگے داموں بھی چینی خرید نہیں سکتا کیونکہ پولیس چھاپے کے خوف سے کوئی پرچون فروش کمرشل چینی خرید کر کلو دو کلو کے پیکٹ میں فروخت نہیں کرسکتا جبکہ تھوک میں سو یا پچاس کلو کی بوری خریدنا ایک عام گھریلو صارف کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اب ایک دو کلو چینی کے لئے شہریوں کی شناختی پریڈ کا سلسلہ شروع ہے۔ بغیر شناختی کارڈ اور دستخط یا انگوٹھا لگائے بغیر کوئی دکانداروں آپ کو چینی نہیں دے گا۔ چینی عام صارف کے لیے اس ایک انار کی مانند ہوگئی ہے جس کے طلب گار سو بیمار ہیں۔ یہ جنس نایاب بن چکی ہے۔ بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز نے اپنی سیل بڑھانے کے لیے انعامی سکیموں کی طرح زیادہ سیل پر چینی سرکاری نرخوں پر دینے کی سکیموں کا اعلان کردیا ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں نے چینی کے بائیکاٹ کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ لیکن ایسے بائیکاٹ سے کیا ہوتا ہے۔ ہم مافیاﺅں کے چنگل میں ہیں۔ سیمنٹ، آٹا، چینی، ٹماٹر، چاول، اسٹاک ایکسچنج، سونا، پرائز بونڈ، رئیل اسٹیٹ، دالیں اور دودھ، گوشت سب کے کارٹیل موجود ہیں۔ کون ہے جو ان مافیاﺅں پر ہاتھ ڈالے۔ یہ سب حکومت میں بھی ہیں۔ اور اپوزیشن میں بھی۔ محض یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ شوگر مافیا کہلانے والے بالادست طبقے نے ایک بار پھر عوام کو پچھاڑ دیا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387262 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More