بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ اب ائس
کریم کی قیمتوں میں ایک نہ دو پورے دس روپے کا یک مشت اضافہ ہو گیا بھلا
بتائیں کہ اب پینتیس روپے والی ائس کریم ایک نہ دو پورے دس روپے کے اضافے
کے ساتھ بڑی دیدہ دلیری سے پنتالیس روپے میں فروخت کی جا رہی ہے اور خریدنے
والے خرید بھی رہے ہیں ہاں بھئی مہنگائی کا دور ہے ہر چیز کی قیمتوں میں دن
بدن اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے دودھ مہنگا چینی مہنگی تو پھر ظاہری سی
بات ہے دودھ چینی سے بنائی جانے والی اشیا بھی مہنگی ہوں گی
پہلے بجلی پانی اور گیس کی کمی کے مسائل اور پھر آٹے اور چاول کے بعد اب
چینی کا بحران اور ان تمام مسائل اور بحرانوں سے سب سے زیادہ غریب عوام کی
زندگی متاثر ہوتی ہے کہ امیر تو خود کو ان بحرانوں کی زد سے نکالنے کی کوئی
نہ کوئی تدبیر نکال ہی لیتا ہے لیکن یہ غریب عوام، نامساعد حالات میں یہ
غریب عوام کہاں جائے ؟
ایک طرف تو غریب کی چائے اور غریب کے بچے کے دودھ میں ڈالنے کے لئے چینی
میسر نہیں جبکہ دوسری طرف طرف آیس کریم چاکلیٹ بسکٹس اور دیگر ہر قسم کی
مٹھائیاں بسرعت تیار بھی ہو رہی ہیں اور ان کی خرید و فروخت بھی بدستور
جاری ہے کہ امیروں کے بچے پنتالیس چھوڑ ان کی من پسند چیز پچپن میں بھی ملے
تو کھا سکتے ہیں جبکہ غریب کیا کرے صرف حسرت سے امیروں کے بچوں کو دیکھتا
رہے اور غریب اس حسرت پر اپنے بچوں کو دیکھ کر اپنا دل مسوستا رہے
آخر یہ تضاد کیوں اور کب تک جاری رہے گا کہ امیر زندگی کے ہر رنگ سے ہر
نعمت سے لطف اندوز ہوتا رہے اور غریب کئی کئی گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے
باوجود بھی اپنی بنیادی ضروریات کے بر وقت حصول سے محروم رہے آخر یہ غریب
کہاں جائیں کہاں سے انتا پیسہ لائیں کیسے اپنی جائز ضروریات کو پورا کریں
اور کہاں سے کھائیں
دوکانوں کے باہر بڑے نمایاں الفاظ میں لکھا ہوتا ہے کہ ‘چینی : چالیس روپے
فی کلو گرام‘ لیکن جب دوکان کے اندر جا کر چینی طلب کی جائے تو یہ جواب
ملتا ہے ‘چینی ندارد‘ کہ چینی ختم ہو گئی ہے غریب کے گھر میں عام اسعمال کے
لئے چینی دستیاب نہیں لیکن دیگر ہر قسم کی چینی کے استعمال سے بنائی جانے
والی اشیاء بنانے والی کمپنیوں کو اپنی مرضی کی قیمت پر چینی کی خریدوفروخت
کا عمل باقاعدگی سے جاری ہے
اور دیکھنے والا نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی کچھ کرنے والا نہیں کہ جب
صاحب ارباب اختیار کی اپنی تمام جائز و ناجائز ضروریات پوری ہو رہی ہیں تو
پھر انہیں کیا ضرورت ہے کہ اس مسئلے کا جلد سے جلد حل تلاش کر کے غریب عوام
کے لئے بھی اپنی جائز اور بنیادی ضروریات تک رسائی کے عمل کو سہل تر بنایا
جائے کہ غریب کی زندگی میں پہلے کم تلخیاں ہوتی ہیں جو اب چینی کی مصنوعی
قلت پیدا کر کے غریب کی زبان کو مٹھاس کے ذائقے سے بھی محروم کیا جائے
ان غریبوں کے بارے میں کون سوچے گا ان غریبوں کے بچوں کی حسرتیں کیسے پوری
ہوں گی آخر ہمارے معاشرے سے یہ تضاد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے
اختلافات کی فضا کب بدلے گی ہمارے وطن میں کب اسلامی نظام معیشت کا دستور
رائج ہو گا تاکہ سب کو یکساں طور پر اپنی بنیادی ضروریات باآسانی دستیاب ہو
سکیں گی آخر ہمارے معاشرے میں کب عدل و مساوات کی فضا قائم ہو گی وہ انقلاب
کب آئے گا کہ کسی کے دل میں ایک دوسرے کے لئے حسد بغض عداوت کینہ اور نفرت
جیسے جذبات باقی نہ رہیں بلکہ عدل و مساوات کے باعث امن و محبت کی ایسی فضا
قائم ہو جائے کہ جسے دیکھ کر یہ جہان تو کیا آسمان بھی رشک کرے
اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے ہمیں نیکی و انصاف کی ہدایت دے ہمارے
دل کو نور ایمان سے معمور فرمائے ہماری درست سمت میں رہنمائی فرمائے ہمیں
شیطان کے شر سے محفوظ و مامون رکھے اور پیروی رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم
کی سعادت نصیب فرمائے کہ اطاعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں ہمارے
تمام مسائل کا حل ہے اللہ تعالیٰ ہما رے پیارے وطن کو امن و محبت اخوت و
بھائی چارے اور عدل و مساوات کا گہوارہ بنائے (آمین) |