کہاں کی خوشیاں، شہر کی گلیاں لہو لہو
(Sami Ullah Malik, London)
عید پھر آئی اورچلی گئی
۔یہ توخوشی کا موقع ،اﷲ کے انعام پر شکر ادا کرنے کا دن۔لیکن جب میں اپنے
وطن کے ان بے شمار لوگوں کو دیکھتا ہوں جن کے پاس عید کے دن بھی پیٹ بھر کر
کھانے کو نہیں تھا اورنہ ہی ان کے بچوں کیلئے ،نئے تو کیا صاف ستھرے کپڑے
بھی نہیں تو نجانے یہ شعر کیوں بے ساختہ میری زبان پر آجاتا ہے ۔
ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بدلتے یہ لباس سوگواراں
اور ایسے لوگ بھی تو بے شمار ہیں جو اﷲ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں سے اگر
کچھ حصہ ان کو دے دیتے جو بے وسیلہ ہیں تو ان کے چہروں پر بھی مسکراہٹ
آجاتی،ان کی آنکھوں سے اداسی ایک دن کیلئے ہی سہی،مفقود ہو جاتی اور خوشیاں
رقص کرنے لگتیں۔مجھے مدینہ منورہ کا وہ یتیم بچہ بھی یاد آجاتا ہے جس کے سر
پر رحمت العالمین رسول اکرمﷺ نے ہاتھ رکھا تھا تو اسے دنیا کی سب سے بڑی
نعمت مل گئی تھی۔کیا اس کے امتیوں کو رحمت العالمین رسول اکرمﷺ کی یہ سنت
یاد نہیں رہی؟کیا قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیاکہ’’تم نیکی کو نہیں پہنچ
سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ) میں خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز
رکھتے ہو۔‘‘اور پھر فرمایااَرَءَ ْیتَ اُ لْذِِّیْ یُکَذِِّبُ بِاِلْدِیْنِ
فَذٰ لِکَ اِ لّذِیْ ِ یَدْعُ اَلْیتِیمْ وَلَا یُحُضّ عَلَیٰ طَعَامِ ا
لْمِسْکِینِ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟وہی
تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں
اکساتا‘‘۔یعنی نہ اپنے نفس کو اس کام پر آمادہ کرتا ہے اور نہ اپنے گھر
والوں سے کہتا ہے کہ مسکین کو کھانا دیا کریں اور نہ لوگوں کو مسکین کی مدد
پر اکساتا ہے ۔سبحان اﷲ!رب العزت نے یتیموں اور مسکینوں سے بدسلوکی کرنے
اور کھانا نہ دینے یا دوسروں کو اس کیلئے آمادہ نہ کرنے کا تعلق ’’یوم
دین‘‘کو جھٹلانے سے جوڑا ہے ۔ یعنی یتیموں اور مسکینوں کی مدد نہ کرنے والے
وہ ہیں جو یوم آخرت اور جزا و سزا پر ایمان نہیں رکھتے اور ظاہر ہے انہیں
مسلمان نہیں کہا جا سکتاتو گویامسلمان ہو نے اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے
کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ یتیموں کو گلے لگایا جائے،ان سے شفقت سے پیش آیا
جائے اور یتیموں ،نا داروں اور مسکینوں کو خود بھی کھا نا کھلایا جائے اور
دوسروں کو اس پر آمادہ کرنے کیلئے باقاعدہ مہم بھی چلائی جائے۔
ان آیات مبارکہ کی روشنی میں آج اپنے اپنے کردار اورعمل کا جائزہ
لیجئے۔بیشک بنیادی ذمہ داری تو حکمرانوں کی ہے جو عوام سے ٹیکس اسی لئے
وصول کرتے ہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔بینکوں کے ذریعے
سال پورا نہ ہو نے اور نصاب کو نہ پہنچنے والی رقم پر بھی زکوٰۃکا ٹ لی جا
تی ہے تاکہ ناداروں پر صرف کی جائے لیکن پھر بھی ناداروں غریبوں اور
مسکینوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ایسا کیوں ہے؟کیا مسلمانوں کے حکمران
یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتے یا نظام زکوٰۃصحیح طور پر نافذ نہیں کر سکے۔
اپنے طراف میں نظر ڈالئے آپ کو کتنے ہی نادار،مسکین اور یتیم بچے کوڑے پر
رزق تلاش کرتے نظر آجائیں گے ۔ معصوم سی بچے جو کچرے میں پھینکے گئے گلے
سڑے اناروں سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کر تے ہیں ،ایسے بچے ہر جگہ اور ہر
شہر میں آپ کو ملیں گے۔’’کیا تم نے دیکھا ان لوگوں کو جو جزا و سزا کو
جھٹلا رہے ہیں‘‘۔کیا ہم بھی تو ان میں شامل نہیں؟ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ
ایک مسلم معاشرے میں ،ایک اسلامی ملک میں جگہ جگہ ننگے بھوکے لوگوں کی بھیڑ
نظر آئے اور معاشرہ ان سے آنکھیں چرالے؟فرمان الٰہی تو یہ ہے کہ مسلمان اس
وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ اپنی ایسی چیزیں اﷲ کی راہ میں خرچ
نہ کر دیں جو ان کو بہت عزیز و محبوب ہیں۔ہم روزے رکھ کر،نماز پڑھ کر،حج
اور عمرے کی ہر سال سعادت حاصل کر کے خود کو نیکو کاروں میں شمار تو کر تے
ہیں،پڑوسی بھوکا ہو،محلے میں یتیم،مسکین اور ناداربیوائیں بے سہارا ہوں اور
ہم عمرے کیلئے دوڑے چلے جائیں جو فرض نہیں ہے۔حج بھی زندگی میں صرف ایک
بارمخصوص شرائط کے ساتھ فرض کیا گیا ہے پھر بھی کتنے ہی لوگ فخریہ گنواتے
ہیں کہ انہوں نے کتنے حج کر لئے۔گھر کے باہر نام کی تختی پر جلی حروف میں
’’الحاج‘‘ لکھوا رکھا ہے۔ہرکسی سے ’’حاجی صاحب‘‘ سننے میں سرشاری محسوس
کرتے ہیں۔لیکن یہ تو بتائیں کہ اﷲ کی راہ میں کتنا خرچ کیا،کتنے
یتیموں،ناداروں اور مسکینوں کو سہارا دیا ،اپنی کتنی محبوب اشیاء اﷲ کی راہ
میں خرچ کر دیں،ایسا ہوتا تو آج کوڑے کے ڈھیر پریہ بچے نظر نہ آتے جنہیں
دیکھ کر یہ تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ یہ انسان کے بچے ہیں یا پھر اسی
کوڑے کرکٹ اور کچرے کا حصہ!
اﷲ کا شکر ہے کہ کئی تنظیمیں ان حالات میں بھی یتیم،مسکین اور ناداربیواؤں
کی نہ صرف خود مدد کر رہی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اکسا رہی ہیں۔شاید اسی
لئے زلزلے آآ کر پلٹ جاتے ہیں اور آسمان سے بارش بھی برس جا تی ہے کہ
کھیتیاں سوکھنے نہ پا ئیں لیکن ہر کوشش نا کافی ہے کہ غربت میں اضافے اور
یتیموں مسکینوں ناداروں کی تعدا بڑھانے کی منظم مہم اس سے کہیں زیادہ شدید
ہے۔ آگے بڑھئے آپ کو اپنے عزیزوں رشتہ داروں میں ایسے سفید پوش،نادار غریب
مل جائیں گے جو آپ کی توجہ اور مدد کے طالب ہیں۔ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی
عزت نفس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
عزت نفس کے خیال رکھنے کا بہترین طریقہ سب سے آسان کام بھی یہی ہے اور سب
سے مشکل بھی۔مشکل اس لئے ہے کہ اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کو دیتے ہوئے دل
کے کسی گوشے میں برتری کا احساس ہر نیکی برباد کر دینے کا احتمال رہتا ہے
لیکن اگر یہی کام اس طرح کیا جائے کہ اس عزیز یا رشتہ دار کو پتہ نہ چلے کہ
یہ مدد آپ کر رہے ہیں،یہی کام اپنے کسی ایسے دوست کے ذریعے کریں جو ان
کیلئے اجنبی ہوتو پھر دونوں اطراف میں خیر باقی رہتی ہے۔
ہم اپنی زیست کے پیہم مسرت خیز لمحوں سے ایک ساعت ہی سہی،انہیں صرف یاد ہی
کر لیں جوہماری سلامتی کیلئے اپنی جان ہتھیلی پررکھ کراپنی جانیں قربان
کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ شمالی وزیرستان اورگردوپیش
کے باسی اپنے اپنے گھروں میں اس امید پررہ رہے تھے کہ رمضان المبار ک کی
رحمتیں اوربرکتیں ہمارے گھروں پربھی دستک دیں گی اورہم لپک لپک کر اپنے رب
کاشکراداکرتے ہوئے اپنی اپنی عیدگاہوں میں سجدہ ریزہوں گے لیکن ان
کوکیامعلوم تھاکہ ایسی گھڑی ہمارے راہ دیکھ رہی ہے کہ اپنے وطن کی خاطراپنے
گھربارخالی کرکے اپنے معصوم بچوں ،بوڑھے اوربیماروالدین کے ہمراہ چلچلاتی
گرمی میں خیموں میں عیدکادن دیکھناپڑے گا ۔اس امیدپرآگے بڑھ کران کاہاتھ
تھام لیں کہ خدانہ کرے کہ کل کلاں اگریہ وقت ہم پرآن پڑے توہم کیاکریں گے؟
اجاڑ راستے، عجیب منظر، ویران گلیاں، بازار بند ہیں
کہاں کی خوشیاں، شہر کی گلیاں لہو لہو ہیں |
|