کسی ملک میں سمندری طوفان
آگیا،ملک کی فوج اور ریسکیو ادارے اس طوفان سے عوام کو نکال رہے تھے حکومت
کی تمام مشینری حرکت میں تھی کوشش یہ کی جارہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں
کو بچایا جائے،لوگوں کو پانی سے نکالنے کے لئے تمام تر وسائل کو استعمال
کیا جا رہا تھا، کشتیوں،ٹیوپ،کے ذریعے لوگوں کو حفاظتی مکامات تک پہنچایا
جا رہا تھا، جو بہت مشکل میں تھے یا جن تک کشتی نہیں پہنچ سکتی تھی ان کو
ہیلی کاپٹر سے نکالا جا رہا تھا۔حکومت کی مشینری نے ہر ممکن لوگوں کو
بچایا،مگر ایک شخص طوفان میں پھنسا تھا اس کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا
اس کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہ تھا،اسے تیرنا بھی نہیں آتا تھا جب اس کو
ریسکیو والوں نے دیکھا تو اسے بچانے کے لئے گئے تو اس نے انکار کر دیا کہ
مجھے آپ کی مدد نہیں چاہیے مجھے اﷲ بچائے گا،مدد کرنے والی ٹیم نے بہت
سمجھایا مگر وہ نہیں مانا،وہ واپس آگئے،اسے بچانے ایک اور ٹیم کشتی لیکر
گئی اس شخص نے انہیں بھی انکار کر دیا کہ مجھے آپ کی مدد نہیں چاہیے مجھے
اﷲ بچائے گا،وہ بھی بے بس ہو کے واپس آگئے، جب طوفان زیادہ خطرناک ہو گیا
تو حکومت نے اسے بچانے کے لئے ہیلی کاپٹر بھیجا ،ہیلی کاپٹر سے رسی کے
ذریعے بندہ نیچے اترا اسے کہا جلدی کرو میرے ساتھ بیٹھ جاومیں تمہیں بچانے
آیا ہوں،اس شخص نے اسے بھی انکار کر دیا کہ نہیں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت
نہیں مجھے اﷲ خود بچائے گابہت اصرار، تکرار، کے بعد، وہ شخص بھی مجبور ہو
کر واپس چلا گیا ،سمندر کی ایک لہر آئی اور اسے بہا کر لے گئی وہ شخص چند
لمحوں میں اﷲ کے پاس پہنچ گیا،اور اﷲ سے شکوہ کرتا ہے کہ میں نے اپ پر
بھروسہ کیا،آپ کی مدد کی امید رکھی مگر آپ نے میری مدد نہیں کی،اس پر اﷲ نے
جواب دیا کہ اے بندے وہ جو پہلا شخص تجھے بچانے آیا تھا وہ میں نے بھیجا
تھا، تم نے انکار کر دیا، پھر دوسرا ،تیسرا،چوتھا، یہ سب تیری مدد کو جو
آئے تھے ان کو میں ہی بھیجتا تھا مگر تم نے کسی کی نہیں سنی اور اس کا
انجام یہی ہونا تھا جو ہوا۔یہ بات بالکل ہمارے لوگوں پر فٹ آتی ہے کہ جب
مشکل میں ہوتے ہیں یا ان کے ساتھ نا انصافی ،زیادتی، ظلم ہوتا ہے تو یہ
پیٹتے رہتے ہیں اور جب ان کی مدد کو جاو ،یا ان کی مدد کی بات کرو تو اﷲ
مالک ہے کا جواب دے کر انکار کر دیتے ہیں،اس کی ایک زندہ مثال میں آپ کو
بتاتا ہوں ،عید کے دوران یہ عوام پیٹ پیٹ کے مر جاتی ہے کہ گاڑیوں والے ہم
سے کرایہ زیادہ لیتے ہیں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں،اور اکثر اخبارات میں
بھی خبریں لگی ہوتی ہیں کہ قانون کے سامنے ٹرانسپورٹر اپنی مرضی کا کرایہ
لیتے ہیں ،اس دفعہ عید پر میں نے باغ ٹریفک پولیس سے رابطہ کیا اور ان کو
ساری صورت حال سے اگاہ کیا ،ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس کا بندوبست کیا ہوا
ہے مگر پھر بھی اگر کوئی کمی راہ گئی تو ہم اس کو بھی پورا کرنے کی کوشش
کریں گے ،اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے میں بھی تمام ان لوگوں سے رابطے میں
تھا جو پنڈی سے باغ آرہے تھے اور مسلسل ارجہ ،ہاڑی گل، اور نعمان پورہ
ٹریفک چوکی سے بھی رابطے میں تھا، عید کے دوران باغ ٹریفک پولیس کے
اہلکار،دن بھر گرمی میں بھی عوام کی خدمت کی خاطر کھڑے رہے جو گاڑی بھی
گزرتی اس کو روکتے مسافروں سے پوچھتے کہ کرایہ زیادہ لیا گیا تو
بتاو،درجنوں گاڑیاں، دن میں روکی جاتی ان میں سے چند لوگ تو یہ شکایت کرتے
کہ ہم سے کرایہ زیادہ وصول کیا گیا ان کو واپس لے کر دیا جاتا اور
اکثرمسافر یہ کہہ کر قانون کا ساتھ نہ دیتے کہ کوئی بات نہیں کرایہ زیادہ
لیا گیا تو ہم نے خود دیا ،باغ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں سے جب بات ہوتی تو
وہ یہ شکوہ کرتے کہ عوام ہمارہ ساتھ نہیں دے رہی ہاں جس گاڑی کے مسافر ہمیں
بتاتے ہیں ہم اس کا کرایہ واپس کر وا دیتے ہیں اور جو لوگ ہمارے ساتھ تعاون
نہیں کرتے خود ظلم سہنے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کا ساتھ دیتے ہیں
ہم ان کا کیا کر سکتے ہیں، باغ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کا یہ بھی کہنا تھا
کہ ہم نے اس دوران درجنوں گاڑیوں کے کرایہ زیادہ لینے پر قانونی چلان کئے
اور سینکڑوں مسافروں کو کرایہ واپس لے کر دیا،تین تین جگہ پر گاڑیوں کا روک
کر ہم پوچھتے ہیں مگر پھر بھی عوام خود اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا اظہار
نہیں کرتی ہم کیا کر سکتے ہیں۔اس عید کے دوران باغ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں
نے جس طرح اپنے فرائض دیانت داری کے ساتھ سر انجام دیے یقیناََ وہ قابل
تعریف ہیں ،مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا غلط نہیں کہ جو قوم خود ہی اپنے ساتھ
انصاف نہیں کرتی اس کا انصاف اﷲ بھی نہیں کر سکتا ، جو قوم اپنے ساتھ ہونے
والے ظلم کو ظلم نہیں کہتی اس کا انجام یہی ہوتا ہے کہ سو جوتے بھی مارو
اور سو پیاز بھی کھاو، اس قوم کی تو یہ مثال ہے کہ سر پر جوتیاں مارنے والے
کم ہیں ان کی تعداد زیادہ کی جائے مگر جوتیاں کیوں ماری جاتی ہیں اس کا نہ
پوچھا جائے۔یہی وہ لوگ ہیں وہ عوام ہے جو اپنے منہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے
ساتھ ظلم ہو رہا ہے قانون ہمارا ساتھ نہیں دے رہا ،ہم بے بس ہیں مگر جب
قانون ان کا ساتھ دینے سامنے آتا ہے تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نہیں اﷲ زمین پر
اتر کر ہمیں انصاف دلائے گا،یہ کہانی ،یہ مثال ،یہ المیہ صرف ایک محکمہ
ٹرانسپورٹ میں نہیں بلکہ اس خطے میں تمام شعبہ زندگی میں جو عوام کے ساتھ
ظلم ہوتا ہے وہ اس کے اپنے ہاتھوں ،اپنے کئے کی وجہ سے ہوتا ہے ،لوگوں کا
خیال ہوتا ہے کہ ہمارا نام بھی نہ لیا جائے اور ہمیں انصاف بھی مل جائے یہ
ممکن نہیں،عوام کے ساتھ یہ ظلم کوئی ایک سال کی یا ایک دن کی بات نہیں بلکہ
ازل سے چلتا آرہا ہے ،اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عوام سوئی رہے گی
،جب تک عوام کا شعور سویا رہے گا۔دنیا میں کوئی قانون ایسا نہیں جو کسی
مظلوم کو اس کے گھر جا کر تھالی میں رکھ کر اسے انصاف دلائے گا،جب تک مظلوم
اپنی فریاد لے کر منصف کے پاس نہیں جاتا سوائے ظلم کے کچھ نہیں ہو سکتا،
ظلم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے ،جو لوگ قانون کا ساتھ نہیں دہتے
وہ قانون توڑنے والے کے برابر ہوتے ہیں۔میں ٹریفک پولیس کے تمام اعلیٰ
عہدیداران اور اہلکاروں سہراتا ہوں ،یہ سچ ہے کہ اس معاشرے، ملک میں کبھی
تبدیلی نہیں آسکتی ،کیونکہ تبدیلی کے لیے سچ اور حق کا ساتھ دینا پڑتا ہے ،جو
ان لوگوں میں جرت نہیں، جس قوم کے لوگ قانون کا ساتھ نہیں دیتے وہ قوم کبھی
ترقی نہیں کر سکتی ۔ |