میڈیا میچ

آج سے چھ سال قبل ایک خبر پر نظر پڑی تھی جس میں پنجاب کے ایک دور دیہات میں ایک پنچایت نے نہایت ہی عجیب و جاہلانہ فیصلہ سناتے ہوئے بھاگ کر محبت کی شادی کرنے والے لڑکے کی بہن کے ساتھ ، اسی لڑکے ساتھ بھاگنے والی لڑکی کے خاندان کے بیس افراد رات گذار سکیں گے۔۔۔اس وقت میں نہیں جانتا کہ اس خبر کے ساتھ اس کا کیا حشر ہوا یا کیا اقدامات اٹھائے گئے تاہم بحیثیت ایک انسان اس جاہلانہ اقدام پر خود کو انسان کہنے یا ایک ایسے معاشرے میں زندگی گذارنے پر شرم آتی ہے ۔

میڈیا میں جب ایسی یا اس جیسی اوٹ پٹانگ خبریں آتی ہیں تو اس دوران الیکٹرانک میڈیا کے سپہ سالار ہر اول دستے کی طرح بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ فریضہ سمجھ کر اس میں ڈالتے ہیں ۔۔پھر کیا ؟پھر ایسی خبروں کی مذمت کیلئے 24/7میک اپ زدہ این جی اوز کے روح رواں،خبر سے بے خبر کوئی وزیر یا مشیر موجود رہتے ہیں اور میڈیا کے وقتی کنواں کو بھرنے کیلئے اپنی رائے دے کر نکل لیتے ہیں اور پھر کسی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے اس خبر کے نوٹس ،ملزمان کی گرفتاری پر پہلے میں ،سب سے پہلے میں کا ڈھنڈورا پیٹتا یہی میڈیا خاموشی سے چھپ سادھ لیتا ہے،اور جب ایسے ملزمان کو سرے عام سزا دینے یا سبق سکھانے کی بات آتی ہے تو انسانی حقوق کی علمبردار کوئی اور میک زدہ این جی او اسے عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انصاف کا تقاضہ کرتی ہے ۔۔مجرم کی اگر کسی وزیر ،مشیریا کسی ایم این یا ایم پی اے تک رسائی ہو تو خاموشی سے معاملے کو دبا دیا جاتا ہے اور ہوتا وہی ہے جو روز ہوتا ہے ۔

اگلے دن پھر کوئی معصوم پری جنسی زیادتی کی بھینٹ چڑھتی ہے،پھر کوئی معصوم بچہ زمیندار کے ظلم سے ہمیشہ کیلئے معذور ہوجاتا ہے ،اور پھر ایک گھریلو ملازمہ کسی مالک یا مالکن کے ظلم سے موت کے گھاٹ اتار لی جاتی ہے اورپھر میڈیا اس خبر کو پہلے بریک کرنے کے چکر میں اچھلتا ،کودتا دکھائی دیتا ہے۔
کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا میں خبر کا آنا بھی ایسا ہی جیسے کسی کھیل میں دو ٹیموں کا مدمقابل ہونا ہو۔بس کھیل اور میڈیا میچ میں فرق یہ ہے کہ کھیل کے دوران شروعات سے قبل دونوں ٹیموں کے درمیان ٹاس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ ٹاس جیتنے والی ٹیم پہلے بیٹنگ کرے گی یا بالنگ جبکہ میڈیا میں اس کے برعکس کوئی ٹاس واس نہیں کیا جاتا بلکہ 24/7دونوں جانب سے میچ جاری رہتا ہے اور فریقین اسکرین پر پہلے میں ،پہلے میں کے دعوے وقفے وقفے سے بریک کئے گئے وقت اور نمائندگان کی تصاویر کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں ۔اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کے عوام کو اس خبر سے کوئی دلچسپی بھی ہے یا نہیں،اس خبر کے نشر ہونے سے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان،صدمہ ہوگا یا خوشی ۔کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے درمیان اس آپسی میچ میں میڈیا ادارے بجائے معاشرے سے برائی ختم کرنے کے ان برائیوں کو مزید پروان چڑھانے میں ہی اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور یہ میچ اسی طرح جاری و ساری رہے گا کیونکہ میڈیا کوشتہارات کیلئے اپنی ریٹنگ بھی تو دیکھنی ہے۔
Amjad Buledi Baloch
About the Author: Amjad Buledi Baloch Read More Articles by Amjad Buledi Baloch: 13 Articles with 11453 views i am journalist.. View More