مسلم معاشرہ دھیرے دھیرے دلدل میں پھنس رہا ہے

مسلمان کو اس دنیا میں اس لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ ایک سماج اور معاشرہ کی تشکیل کا کام انجام دے جہاں صلاح ونیکی کا غلبہ ہو ،خدائی حاکمیت کا جذبہ موجود ہو اور وہ فرد کی اصلاح سے لے کر خاندان اور معاشرہ کی بہتری اور فلاح کے لیے مستعدہو ان رسومات کو ختم کرنے میں معاون ہو جس نے ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی کی بنیادیں ہلادیں ہیں۔ یہ پیغام عام تھا اور بغیر کسی تخصیص کے سب کو یہ ذمہ دار ی نبھانی تھی۔ پھر وہ طبقہ ہے جسے اللہ نے قرآن وحدیث کی سمجھ عطا فرمائی ہے اور دینی علوم سے نوازا ہے کہ وہ آگے آئے اور ان برائیوں کے خلا ف نبرد آزما ہو جو ہر گذرتے دن کے ساتھ ہماری تشخص ہم سے چھین رہی ہیں اور ہماری شناخت کو متاثر کررہی ہیں جس تندہی اور دورمندی کے ساتھ اس سمت میں چلنا چاہئے تھا وہ دور دور تک نظروں سے اوجھل ہے۔ گوکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے کاموں میں ایک اہم اور بنیادی کام اصلاح معاشرہ کا بھی ہے۔ دیگر تنظیمیں اور جماعتیں بھی وقتاً فوقتاً ایسے پروگرام اور کانفرنسیں کرتی رہتی ہیں مگر اس کے اثرات دیکھنے میں نہیں آتے، یہ ایک افسوسناک پہلو ہے جس پر فوری توجہ دینے اور عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

جس طرح مدرسوں کا قیام عمل میں آیا اوردینی تعلیم کے ہزاروں مراکز اور مدارس قائم ہوگئے تبلیغ دین کے لئے تبلیغی جماعتوں نے شہروں ،قصبات اور دیہاتوں میں پہنچ کر محنت کی اور برسوں سے وہ اس کام میں لگی ہوئی ہیں اب اسی طرز پر اصلاح معاشرہ کی ضرورت سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ آج مسلم معاشرہ جس سنگین صورت حال سے دوچار ہے اس سے چشم پوشی کی گنجائش قطعی ختم ہوگئی ہے۔حالات روز بگڑرتے جارہے ہیں اور رسومات نے مسلم معاشرہ کو جاں کنی میں مبتلا کردیا ہے۔ نجات کی کوئی صورت سامنے نہیں ہے۔ حالاں کہ اس کی سنگینی اور خرابی کا اعتراف سبھی کرتے ہیں مگر کوئی ایسی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے جس کے بہتر نتائج سامنے آنے کی توقع ہو۔ جو ا، سٹہ، شراب نوشی، سود جیسی بیماریاں تیزی کے ساتھ مسلم سماج کے جسم میں زہربن کر دوڑ رہی ہیں جس سے اس کی قوت فکر وعمل ہی متاثر نہیں ہوئی بلکہ بے حسی نے اسے ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں انہیں وہ اب حرام بھی نہیں سمجھتا اور مسلسل عمل نے اس کی برائی کو بھی اس کے دل سے مٹادیا ہے ۔ یہ ایک تشویشناک پہلو ہے۔

گذشتہ دنوں ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے یہ احساس دلایا کہ مسلم معاشرہ دھیرے دھیرے ایک ایسے دلدل میں پھنس رہا ہے جس سے اسے باہر نکالنا اہل علم کی زیادہ ذمہ داری ہے ۔ کئی خبریں ایسی آئیں کہ شادی کے وقت لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کے نام پر فرمائشوں کے ڈھیر لگادیئے گئے، کسی دولہا نے کار کی فرمائش کردی، کسی نے موٹر سائیکل کا مطالبہ کردیا، کوئی نقد رقم لینے پر اڑ گیا اور اب یہ سب ایسے موقعوں پر کیا جارہا ہے جب بارات لڑکی کے گھر پہنچ چکی ہوتی ہے اور نکاح کا اہم مرحلہ سامنے ہوتا ہے ۔ ایسے موقع کا استعمال شاید یہ سوچ کر کیا جارہا ہے کہ اپنی بچی کے مستقبل کو محفوظ کرنے ، معاشرہ میں رسوائی سے بچنے اور کثیر اخراجات سے ابھر نے کا لڑکی والوں کے پاس کوئی عنوان باقی نہیں رہتا اور وہ چار ونا چار لڑکے والوں کے مطالبات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے یہ کہا نی دہرائی جارہی ہے او رمسلم سماج کے مختلف طبقوں میں روز ایسے واقعات پیش آرہے ہیں مگر اب میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ کچھ ٹی وی کلچر، کچھ تعلیمی بیداری نے لڑکی اور لڑکی کے گھروالوں کو دولہا اور باراتیوں کے ساتھ وہ سلوک کرنے پر مجبور کردیا ہے جو پہلے کبھی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اب اس کی تحسین کی جانا چاہئے ۔

دوسری ہلاکت خیز سوچ اور تباہ کن اقدام یہ ہے کہ مسلمان لڑکے غیر مسلم لڑکیوں سے شادیاں رچارہے ہیں اور مسلم لڑکوں سے ازدواجی رشتے قائم کررہی ہیں ۔ سماج اور معاشرہ میں اس طرح کی شادیوں اور ازدواجی رشتوں کی کیا اہمیت ہے اور آئین یا قانون میں اس کی کیا حیثیت ہے اس سے قطع نظر مسلم معاشرہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے، چونکہ اس طرح کی شادیوں میں جو مسلمان اور غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیا ن ہورہی ہیں کوئی مذہبی جذبہ کار فرما نہیں ہوتا اور نہ دور دور تک مذہب کی محبت اور اسلامی تعلیمات سے واقفیت نظر آتی ہے ۔ اس طرح شادیاں مذاق بن کر رہ گئی ہیں بلکہ بے وقار اور بے عزت ہونے کا سبب بن رہی ہیں۔ نفساتی خواہشات ،وقتی اور عارضی منافع کی طلب ایسے واقعات کے ظہور کا سبب ہیں ۔اس لیے ان شادیوں کو فتنہ اور فساد کی وجہ تو قرار دیا جاسکتا ہے راحت اور سکون کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ۔ ہر صورت میں یہ ازدواجی رشتے ہلاکت میں ڈالتے اور دوطبقوں کے درمیان نفرت او رعداوت کا بیج بوتے ہیں۔ گھر سے فرار ہونا، کورٹ میرج کرلینا مسلم یا ہندو رسم ورواج کے مطابق شادیاں کرلینا فریقین کیلئے ناقابل قبول ہوتا ہے اور دونوں فریق تیرو تلوار لے کر اور ہتھیار وں سے لیس ہوکر میدان میں آجاتے ہیں اور بہت بار یہ ہوا کہ زمین انسانی خون سے لال ہوجاتی ہے۔

جوانی کی نشہ میں چور ،مستقبل کے خطرات سے بے خبر ، عشق کے جنون میں مبتلا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ نہیں سوچتیں کہ ان کے بہکنے سے حالات کتنے سخت اور پر خطر ہوجاتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتے بلکہ اپنے سر پرستوں ،اہل خانہ اور خاندان والوں کا سکون اور چین بھی چھین لیتے ہیں ۔ پولس اور عدالتوں کی لمبی چوڑی کارروائی ، بیانات اور بحث ومباحثہ کا لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ ایسے جوڑے جو گھر سے فرار ہوکر نئے رشتے قائم کرتے ہیں وہ خود بھی الگ تھلگ ہوجاتے ہیں اور ماں باپ، بہن بھائیوں کی محبتوں کا بھی سودا کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے دنیا اور آخرت میں اس کا سب سے بڑا سرمایہ اس کا دین ہے اور دین کو باقی اور سلامت رکھنے کے لئے وہ کوئی بھی قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کرتا ۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی دینی اور دنیاوی نجات اس کی مذہبی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔ افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں نے مذہب کو شئی ارزاں بناکر رکھ دیا ہے اور ان کی خواہشات کی چھری مذہب ہی کے گلے پر چلتی ہے ۔ قرآن وحدیث کی نئی نئی تشریحات کرنے والے دانشور حضرات جن کے نشانے پر ہمیشہ اسلام رہتا ہے اور وہ بز عم خود اسلام کو زیادہ سمجھنے کے دعویدار ہیں وہ بھی جہیز اور اس طرح کی شادیوں کے معاملات میں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور انہیں خاموشی اس لیےبھی اختیا رکرنی چاہئے کہ نہ تو انہیں دین کا علم اور نہ مسلم سماج اورمعاشرہ سے کوئی ہمدردی ۔ وہ تو صرف اپنی دکان چمکانے اور خود کو دانشور ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کے لئے بھی سب سے آسان شکار اسلام ہم مسلم پرسنل لابورڈ ،ممتاز مسلم جماعتوں اورتنظیموں ،دردمند اور صاحب فکر افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مسلم سماج او رمعاشرہ میں پھیلنے والی برائیوں کے تدارک کی تدابیر اختیار کریں، سنجیدگی ،متانت، دینی بیداری کے تحت اسےاپنا فرضی منصبی قرار دیتے ہوئے میدان عمل میں آئیں، اس لیے کہ یہ ان کی بڑی ذمہ داری ہے اور ہماری سوچ یہ ہے کہ وہ بارگار الہٰی میں یقیناً اس سوال کے لیے جواب دہ ہوں گے -
Gulam Nabi Shazim
About the Author: Gulam Nabi Shazim Read More Articles by Gulam Nabi Shazim: 2 Articles with 1734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.