یوم آزادی………… کیسی آزادی؟

۱۴ اگست برصغیر کے انسانوں کے لیے تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے، جب عالمی استعمار انگریز نے برصغیر کو پاکستان اور ہندوستان دو ممالک میں تقسیم کرکے اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کیا۔ وہ جاتے جاتے ایسے مسائل چھوڑ گیا ، جس کو حل کرنے کے لیے مزید کئی صدیاں درکار ہیں۔ہم کشمیر ی 67 سال گزرنے کے باوجود آزادی کی منزل کے منتظر ہیں۔ کہنے کو آزادکشمیر کو آزادی مل گئی اور مقبوضہ کشمیر والے گورے انگریز کی غلامی سے نکل کر کالے ہندو کی غلامی میں پھنس گئے۔ ہمیں جو آزادی ملی وہ بھی انوکھی ہے۔

آزاد وطن کی باتیں کرتے ہوئے میری والد محترم چوہدری محمد حسین صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ 1930-35 کے زمانے کی بات ہے، پونچھ (مقبوضہ) کے ایک نوجوان مولانا ہدایت اﷲ چیچی حصول علم کے لیے پنجاب میں تھے، گھر واپس جاتے ہوئے ان کا گزر جہلم سے ہوا، جہاں ان کا ایک بیگ جس میں ایک جوڑا کپڑے اور دو روپے نقد موجود تھے، کسی نے چوری کرلیے۔ مولانا نے تھانے جاکر اس واردات کی رپورٹ درج کروائی اور اپنے وطن (پونچھ) کے لیے روانہ ہوگئے۔ جہلم سے پونچھ تک چار دنوں کا پیدل سفر تھا، وہ کئی دنوں کے مسافت کے بعد گھر پہنچے، ان کا تعلق پونچھ شہر کے نواحی گاؤں کھنیتر سے تھا۔گرمیوں کے موسم میں اہل کھنیتر اپنے مال مویشیوں سمیت ڈھوک (بلند چوٹیوں) کی طرف چلے جاتے تھے۔ مولانا بھی اپنے خاندان کے ہمراہ ڈھوک چلے گئے جو پونچھ سے مزید دو دن کی پیدل مسافت پر تھا۔ مولانا کی آمد کے ایک ماہ بعد جہلم سے ایک پولیس اہل کار مولانا کو تلاش کرتا، کرتا کھنیتر پہنچا، وہاں سے مولانا کو ملنے ڈھوک چلا گیا یوں تقریبا ایک ہفتے کی پیدل مسافت کے بعد پولیس اہل کار مولانا ہدایت اﷲ سے ملا اور انہیں ساتھ لے کر جہلم چلا گیا۔ جہلم پہنچ کر تھانیدار نے انہیں ان کا چوری شدہ بیگ، جس میں ایک جوڑا کپڑے اور دو روپے نقد تھے ، حوالے کیا۔

قانون کی حکمرانی کی اس سے عمدہ مثال کیا ہوسکتی ہے۔ کیا آج کا آزادکشمیر یا پاکستان ایسی کوئی مثال پیش کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون کہاں ہے، انصاف کس شے کا نام ہے۔کیا ہمیں آزادی کے بعد ایسا انصاف مل سکا، قانونی کی ایسی حکمرانی دیکھنے کو ملی؟ ہم تو رشوت کو عباد ت سمجھ کر قبول بھی کرتے ہیں اور ادا بھی۔جو ’’رشوت‘‘ سے انکار کرے، اس کے مسلمان اور پاکستانی ہونے پر شک کیا جاتا ہے۔ ہاں تو ہمیں ایسی آزادی کا جشن کیوں نہیں منانا چاہیے؟

کبھی ہمارے مقدر کے فیصلے وزارت امور کشمیر کے سیکشن آفیسر کرتے تھے اور آج یہ کام مری کے صوبیدار (بقول سردار ابراہیم) یا سندھ کے تالپور اور اگلے دنوں میں برجیس طاہر کریں گے۔ کیا یہی آزادی ہے؟آج تو گریڈ سترہ کے معاون خصوصی اور مشیر کا فیصلہ بھی تالپور ہی کرتے ہیں۔ افسروں کے تبادلے اور سٹرکوں کی تعمیر تک کا فیصلہ سندھ کے ریگستانوں میں ہوتا ہے، اس کے باوجود ہم آزاد بھی ہیں اور جمہوریت کی فیوض و برکات سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ کنٹرول لائن کی دوسری طرف انسانیت بدترین ریاستی دھشت گردی کا شکار ہے لیکن اس طرف کسی کو اس معاملے میں کوئی کنسرن نہیں، اس کے باوجود ہم ’’آزادی کا بیس کمیپ ‘‘ بھی ہیں۔ تحریک آزادی کے نام پر دنیا بھر کی سیر پر کروڑوں روپے اڑا دینے والے ہمارے حکمران ہیں اور زکواۃ فنڈ پر بچے پالنے والے ہمارے قائدین ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آزادی اور اسلام کے متوالے بھی انہی کے ہم نوا لہ اور ہم پیالہ ہیں، جیسے آزادی اور اسلامی انقلاب کی ساری راہیں انہی شیطانوں کی کھوک سے جنم لیں گی۔

کتنی بدقسمتی ہے کہ ظلم اور ناانصافی کے اس نظام کو کندھا دینے کے لیے ایسے ایسے جوکر میدان میں موجود ہیں جو عوام میں تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں۔ بچے تعلیم سے محروم لیکن بااثر اساتذہ ترقیاں اور مراعات کے درپے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ایسا پرائمری سکول بھی موجود ہے جس میں طلبہ کی تعداد آٹھ اور لیڈی ٹیچرز چار ہیں۔ زلزلے کے بعد ایراء نے خوبصورت عمارت بھی بنادی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، ہاں یہی آزادی ہے، اس کا جشن تو یقینا منانا چاہیے۔بچے تعلیم سے اور نوجوان روزگار سے محروم ہیں، عدالتیں انصاف دینے سے عاری ہیں اور منتظمہ لوٹ کھسوٹ میں آزاد اور خودمختار ہے۔ حکمران محلات اور علماء عالیشان مدارس اور مساجد کی تعمیرات میں خوش ہیں۔ عوام کو مولوی جہنم سے ڈراتے ہیں اور سیاست دان تھانے سے۔ وہ بیچارے خوف کے عالم میں کبھی زندگی کو کوستے ہیں اور کبھی موت کی تمنا کرتے ہیں۔

مولوی ہدایت اﷲ پونچھ سے آزادی کی خاطر ہجرت کرکے تراڑکھل آباد ہوئے،وہ ایک جوڑا کپڑے اور دو روپے نقد انہوں نے آخری دن تک قانونی کی حکمرانی کی آخری نشانی کے طور پر اپنے پلے باندھ رکھے، سالوں آزادکشمیر میں قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کرتے مایوسی کے عالم میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ پتہ نہیں کتنی نسلوں کو اس دن کی انتظار میں موت کو گلے لگانا پڑے گا۔ آج معاملہ حد سے گز ر گیا ہے، ظالم تو ہر دور میں موجود رہاہے ہیں لیکن اس کو للکارنے والوں سے میدان کبھی خالی نہیں رہا، آج کا دورللکار سے خالی ہے۔ ظلم کے راستے میں رکاوٹ بننے والا کوئی نہیں۔ رہبر بھی رہزوں کے ہمنوا ہیں، اﷲ ہی اس قوم کو ان رہبروں اور رہزوں سے نجات دلائے۔

آزادی تو کشمیر کی مکمل آزادی اور قرآن و سنت کی بالادستی کے بغیر ممکن ہی نہیں، یہ آزادی تو دھوکہ اور خواب ہے، جو ہمیں جیتے جاگتے دیکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ نصاب کی کتابوں میں جھوٹ گھڑ گھڑ کر ہمیں تاریخ سے کاٹا جا رہا ہے۔سچ تلاش کرنے کی ضرورت ہے، پر وہ کون کرے گا، کہیں کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ قارئین ! آپ کو کہیں نظر آجائے تو مجھے بھی اطلاع کردیں یا اس خواب کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے رہیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117145 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More