یوم آزادی مبارک ہو

 ملکی قوانین پر عمل دراصل اﷲ کے حکم کی فرمانبرداری ہی ہے،
اور ان پر عمل پر ثواب بھی ملے گا اور دنیا بھی جنت بن جائے گی۔
اس بات کا ثبوت یہ مضمون مہیا کر رہا ہے۔ پڑھئے اورثواب کمائیے۔

ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہے کہ ہم آزاد بالکل نہیں ہیں، کسی نہ کسی سسٹم کی اتھارٹی کے پابند ہوتے ہیں جیسے گھر میں والدین، سکول میں پرنسپل۔ ،فیکٹری میں مالک یا مینیجر کے ، سروس،حکومت ، سڑک پر ٹریفک رولز کے۔ مسجد میں اﷲ کے رولز کے ۔ ہر سسٹم کے اپنے DOs AONTs ہوتے ہیں۔ DONTs پر عمل کرانے کے لئے احتساب اور سزا کا سسٹم ہوتا ہے۔اس کے بغیر دنیا کا کوئی سسٹم چل نہیں سکتا۔۔ان کی تعلیم دی جاتی ہے اس کے بعد عمل کے لئے کہا جاتا ہے اور ہر ایک سے امید کی جاتی ہے کہ وہ فرمانبرداری کرے گا اور نافرمانی نہیں کرے گا۔ یعنیobedience ہر سسٹم کی پہلی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔۔ ان پر عمل کرنا یا نہ کرناہر آدمی کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ مگر سمجھدار لوگ ان پر عمل کرتے ہیں اور سزا سے بچے رہتے ہیں ۔اور سسٹم میں ایسے ہی لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے جیسے کہ گھر میں فرمانردار بچہ ہی سب کا پسندیدہ ہوتا ہے اور اس کی ہر جگہ تعریف بھی کی جاتی ہے۔

اس پوری کائنات کا بھی ایک سسٹم ہے اور اس کے بھی اپنے DOs ، DONTs ہوتے ہیں۔ DONTs پر عمل کرانے کے لئے احتساب اور سزا کا سسٹم ہوتا ہے۔ اس کی بھی ایک اتھارٹی ہے جس کا نام اﷲ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں جب تک لوگوں کو سسٹم کی ٹریننگ نہ دے لوں تو میں کسی کو سزا نہیں دیتا۔And We never punish until We have sent a Messenger (to give warning)((17-15۔ اس دنیا کی زندگی کو امن اور سکون کی جگہ بنا کر جنت بنانے کے لئے اﷲ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ہدایات دی ہیں اور قوانین بنائے ہیں۔

اﷲ تعالی کا فرمان ہے؛۔ اے ایمان والو؛ حکم مانو اﷲ کا،اور حکم مانو رسول کا،اورجو اختیار والے ہیں تم میں۔: اور اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو اﷲ کے اور رسول کو،اگر تم ایمان رکھتے ہو اﷲ پر اور پچھلے دن پر؛ اور یہ خوب ہے اور بہتر تحقیق کرنا ہے۔)احسن تاویلا(۔نساء۔5

ہم نے چونکہ ا سلام کے ہر نظرئیے کو غلط کر دیا ہے اور سمجھتے ہیں کلام پاک کی آیات اور ہدایات صرف آخرت کے لئے ہیں اس لئے حاکم وقت یا ملکی قوانین پر عمل کرنے سے کوئی ثواب نہیں ہو گا کیونکہ اس کا تعلق دنیا سے ہے آخرت سے نہیں۔ اسی لئے ہماری دنیا خراب ہو گئی ہے۔جبکہ ہمیں حکم ہے کہ دنیا کی بھلائی اور آخرت دونوں کی بھلائی مانگو۔ دنیا کے افعال پر ٹھیک طرح سے عمل کریں گے تو تبھی آخرت ٹھیک ہو گی ورنہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک، میں حاکم وقت ہی نے اس دنیا کی زندگی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ وہی قوانین بناتا ہے وہی عمل کرواتا ہے۔ ا ور اختلاف رائے میں فیصلے کرتا ہے ۔اسی طرح ملکی قوانین کے تحت ہی دوسرے ادارے قوانین بناتے ہیں۔جو کہ لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت اور آسانیوں کے لئے ہوتے ہیں۔

حکم ماننے کے بارے اﷲ کا فرمانبرداری کا سٹینڈرڈ یہ ہے کہ سنا اور عمل شروع کر دیا۔

سورہ بقرہ۔۲۔۲۸۴۔ پیغمبر اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی طرف بھیجا گیا ہے اور ان کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی۔ان میں سے ہر ایک اﷲ کی موجودگی پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان پیغمبروں میں ایکدوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں ڈالتے۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔( یعنی حکم سنتے ہی خوشی سے مان لیا اورعمل شروع کر دیا۔ بہانے تلاش شروع نہیں کر دئے)۔ اور ہم آپ سے اے اﷲ مغفرت مانگتے ہیں( اگر کسی قسم کی کوتاہی ہو جائے احکام پر عمل کرنے میں ) اور آپ ہی کی طرف پھر ہم نے واپس جانا ہے۔

اﷲ کا چونکہ دوسرا حکم یہ ہے کہ سمعنا و اطعنا یعنی سنو اور سنتے ہی دل سے اس کی اطاعت شروع کر دو تو یہ حکم اﷲ، اس کے رسول ﷺ اور حاکم وقت سب کے احکام کے لئے ہے۔ ( فرمانبرداری کا سٹینڈرڈ یہ ہے کہ سنا اور عمل شروع کر دیا)

فوج میں صوبیدار ساحب نئے ریکروٹ کو بھی یہی سکھاتے ہیں۔اور ان کا مشہور قول یہ ہے ، کہ پہلے آرڈر پر عمل کرو پھر عرض کرو۔ گھر میں بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر پہلی دفعہ کہنے پر بچے کچھ نے کریں تو عموما دوسری دفعہ بتانے کے ساتھ کہا جاتا کہ تم نے سنا نہیں۔ یعنی پہلی بار ہی عمل کیوں نہیں کیا۔

ہمارے برعکس مغربی ممالک نے قرآن سے صرف دنیا کی بھلائی سیکھنی چاہی تو اس لئے اﷲ نے انہیں اس آیت کے ایک حصے پر عمل کرنے کی وجہ سے دنیا کی اچھی زندگی دے دی ہے۔مغربی ممالک میں یہی ہوتا ہے۔ کہ پہلے تو قانون بنانے کے لئے بڑا غورو فکر اور تحقیق کرتے ہیں لوگوں کی رائے لیتے ہیں۔ اس لئے جب یہ پارلیمنٹ یا کسی سٹی کونسل سے قانون نافذ کیا جاتا ہے تو لوگ اس پر فورا عمل شروع کر دیتے ہیں۔
مثلا ٹریفک کے احکام پر وہ عمل ضرور کرتے ہیں، چاہے پولیس والا کھڑا ہو یا نہ ہو، چاہے دن ہو یا رات ہو۔چاہے ٹریفک بہت ہو یا بالکل نہ ہو تو سرخ لائٹ ہو تو رک جاؤ۔ ہم ہر جگہ خود فیصلے کرنے لگتے ہیں کہ ٹریفک نہیں ہے رید لائٹ کے باوجود نکل جاؤ۔ ہم ہر وقت جلدی میں ہوتے ہیں۔۔ اگر مغربی ممالک کے لوگ یہ کرتے ہیں تو وہ بے وقوف تو نہیں ، وہ عقل مند ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے عادت توڑی تو انہیں قانون توڑنے کی عادت پڑ جائے گی۔ اسلام آباد ائر پورٹ پر برٹش ائر ویز کی فلائٹ پر میں نے ایک بوڑھے انگرایز سے کہا کہ اس لائین میں صرف پاکستانی پاسپورٹ والوں کے ویزے کی چیکنگ ہو رہی ہے تو آپ بورڈنگ کے لئے چلے جائیں تو وہ کہنے لگا کہ میں نے یہ کیا تو میری لائن بنانے کی عادت ٹوٹ جائے گی اور میں انگلینڈ میں بھی شاید لائین توڑ دوں ۔اس لئے میں نہیں جاؤنگا۔

ہم نے ثواب کا نظریہ بھی غلط کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہم ملکی قوانین پر عمل کرنے میں ثواب ملنا نہیں سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے دراصل ہمیں ٹسٹ صرف فرمانبرداری پر کرنا ہے اور خوش ہو کر شاباش دینی ہے۔well done کہنا ہے ۔ اور اس انعام دینا ہے۔ اسی طرح نا فرمانی پر ناراض اورغصہ ہونا ہے اور سزا دینی ہے۔ یا معاف کر کے چانس دینا ہے کہ آئیندہ ٹھیک کام کرنا۔ اﷲ تعالی نے کتنا انعام دینا ہے یا سزا دینی ہے یہ اس کی مرضی پر ہے اور وہ اس کا فیصلہ بندے کے جذبے یا نیت پر کرے گا۔۔ یہی ثواب اور سزا کا نظریہ ہے۔

ہمارے یہاں عموما صرف ثواب کے لئے کام کیا جاتا ہے یا کم از کم دوسرے سمجھتے ہیں کہ ہر کوئی اسی مقصد کے لئے کام کر رہا ہے۔ہمیں پیسوں کی طرح ثواب کی بھی کاؤنٹنگ اور جمع کرنے کی عادت پڑگئی ہے حالانکہ بات یہ نہیں۔ کام کسی مقصد کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ باقی دنیا میں بھی تمام غیر مسلم نیکیوں کا کام بھی کرتے ہیں وہ بھی آخر کسی مقصد کے لئے ہی یہ کرتے ہیں۔ ان کامقصد ہماری طرح ثواب کمانا نہیں ہو سکتا۔ہمارے اس رویے سے ہمارے اعمال میں سے اصل مقصد گم ہو جاتا ہے مثلاً ہم بغیر سوچے سمجھے کلام پاک پڑھتے رہتے ہیں ساری عمر صرف ثواب کے لئے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہر حرف پر دس نیکیاں مل رہی ہیں ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہورہی ہیں۔ میرے اپنے ایمان کے مطابق یہ واقعی ہو بھی رہا ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے یہ فرمایا ہے مگر انہوں نے جب یہ فرمایا تھا وہ عربوں سے مخاطب تھے جو ان الفاظ کا مطلب سمجھتے تھے ان کو کلام پاک پڑھنے پر مائل کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ پڑھیں گے تو سمجھیں گے اور پھر ہی اس پر عمل کریں گے، مگر ہم نے صدیوں سے کلام پاک سمجھنے کو ضروری ہی نہیں سمجھا کہ اﷲ اس کتاب میں کیا کہہ رہا ہے اور ہم سے کیا ڈیماند کر رہا ہے اور اس کتاب سے ہمیں دنیا کے بھی کیا فوائد مل سکتے ہیں۔

ہم نے ثواب کا نظریہ کیسے کر دیا ہے اس کی مثال میں ذاتی تجربے سے دونگا۔

یہ 1993 کی راولنپڈی کی بات ہے ۔ سنٹرل آرڈینینس ڈپو کے ارد گرد خاردار تاریں لگی ہوئی تھیں اور اسکے چوک پر blind corner ہونے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہوتے رہتے تھے۔ ۔ اسکے کماڈنٹ نے تار کے اندر اند یوار بنانی شروع کر دی تومیں نے ان صاحب کو خط لکھا کہ برائے مہربانی دیوار کو ایسے کر دیں تاکہ چوک کھل جائے اور صاف نظر آنے لگے تاکہ ایکسیڈنٹ بند ہو جائیں۔ مگر جب دیوار اسی مقام پر پہنچی اور چوک چوڑیانہ ہوا ،تو میں نے ان کو ٹیلی فون کر کے ملنے کی خواہش ظاہر کی تا کہ میں اپنے آئیڈیا سمجھا سکوں۔ تو فوراً کہنے لگے کہ تم نے خط ثواب کیلئے لکھا تھا ثواب تمھیں مل گیا ۔ اب تم نے کیوں کال کی ہے۔میں نے جواب دیا کہ میں نے ثواب کے لئے خط نہیں لکھا تھا۔ حیران ہو کر بولے کہ پھر کیوں لکھا تھا ۔ میں نے بتایا کہ خط لکھنے سے میرا مطلب خلق خدا کو آسانی بہم پہنچانا تھا ۔ایکسیڈنٹ بند کروانامقصد تھا ۔چوڑی سڑ ک سے اندھے موڑ کا خاتمہ ہو جاتا یہ مقصد تھا۔ثواب تو مجھے اﷲ تعالیٰ نے ضرور بطور Fringe benefit دینا تھا اس پر میرا ایمان ہے۔میں نے یہ بھی بتایاکہ میرے مطابق نیک کام کا اصل مقصد دوسرے انسانوں کی بھلائی ہے ثواب نہیں ۔ مجھے اﷲ تعالیٰ خوش ہو کر انعام دے گا۔کتنا دے گا؟ یہ میرے جذبے، دل اور نیت کے خلوص پر منحصر ہے ۔اس کے لئے کوئی فارمولا نہیں ہے ۔ تو کہنے لگے تم واقعی عجیب آدمی ہو کہ ثواب کے لئے کام نہیں کرتے۔

ہمارے پیارا ملک قانون توڑنے والوں کی جنت بن گیاہے اور عوام کے لئے درد سر اور نہ ختم ہونے والا عذاب۔ قانوں توڑنا دراصل طاقتور اور با اثر ہونے کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بڑے ہونے اور تکبر کی نشانی بن گیا ہے۔ ہمارے لیڈران ، دولت مند باہر کے ملکوں سے آکر وہاں کے سسٹم کی خوبیاں بیان کریں گے مگر خود عمل نہیں کریں گے کیونکہ یہ ان کی جھوٹی انا کی تسکین کا طریقہ بن گیا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی اب عوام بھی اس بری عادت میں گرفتار ہو گئے ہیں۔

کیا ہمیں اس یوم آزادی کے موقع پر پھر سے یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہئے؛۔

کہ ہم کلام پاک کو سمجھنے کے لئے پڑھیں گے اور اس سے زندگی کے اصول نکال کر انہیں زندگی کا حصہ بنا لیں گے۔چونکہ ہر ایک نے اﷲ کے سامنے اکیلے جا کر جواب دہی کرنی ہے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پرنا چاہئے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں۔

ثواب کا نظریہ صحیح سمجھ لیں۔ صرف ثواب کی غرض سے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔ بلکہکوئی بھی انسانی کام کسی انسانی بھلائی کے مقصد کے لئے ہی کریں۔مگر اس سے دکھاوے ، یاکسی انسان سے اجر ملنے کی بجائے اﷲ کو خوش کرنے ، اسی سے اجر کی امید کی نیت کے ساتھ کریں تو دونوں دنیاوی اور اخروی مقاصد اور فوائد مل جائیں گے۔

ملکی قوانین پر عمل اﷲ کے حکم کی تعمیل میں کریں اور یقین رکھیں کہ واقعی اﷲ تعالی کے حکم کے مطابق ملکی اور اداروں کے قوانین پر عمل کرنے سے ہمیں ثواب بھی مل جائے گا اور ہم اپنے ملک کو امن سکون کی جگہ بنانے کے لئے اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیں۔ مثال کے طور پر پہلے ٹریفک کے قوانین پر عمل شروع کر دیں تو روزانہ ٹریول کے عذاب کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈال دیں۔ اگر دوست یار، رشتہ دار کہیں بھی کہ یار کوئی ٹریفک نہیں ہے نکل جاؤ تو ان کی بات نہ مانیں اور سمجھائیں کہ آپ اپنی عادت نہیں توڑنا چاہتے۔ عادت بنانی بہت مشکل کام ہوتا ہے ۔ایک بار توڑیں گے تو دوبارہ توڑنے کی ترغیب ملے گی کہ پچھلی بار کچھ نہیں ہوا تھا تو اب کی بار توڑنے سے بھی کچھ نہیں۔ ہوگا۔ دوسری د لیل یہ دے سکتے ہیں۔کہ اﷲ دیکھ رہا ہے میں اس کے حکم کو کیسے توڑوں کہ اس نے ہی کہا ہوا ہے کہ ملکی قوانین پر عمل کرو۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ تم مجھے غلط کاری پر کیونں ابھار رہے ہو۔تم مجھے غلط کام کرنے کی عادت ڈال دو گے۔۔ یہ میرے ساتھ دوستی تو نہ ہوئی کہ میں پولیس کے سامنے میں بھی مجرم بن جاؤن جرمانہ بھی بھروں۔اور اﷲ کے یہاں بھی گناہگار، ایک اور دلیل یہ ہے کہ میں قانون توڑ کر کتنا ٹائم بچا لونگا ایک یا دو منٹ اور وہ کس مقصد کے لئے ۔ میں جلدی میں تو ہوں نہیں۔ اس کی ایک بڑی خوبصورت دلیل اﷲ نے سورہ کافروں میں دی ہے۔ کہ تمہارا دین ( یعنی طریقہ یا اصول) تمہارے لئے میرا دین میرے لئے۔

ملکی قوانین پر عمل کرنے کے ارادے کو پختہ کرنے کے لئے اپنے کو بار بار نصیحت کریں میں ٹریفک اور دوسرے قوانین کبھی نہیں توڑوں گا ۔اس میں مجھے اﷲ کی طرف سے ثواب بھی ملے گا اور میں پاکستان کو جنت بنانے میں اپنا حصہ ڈال کر ہر ایک مدد بھی کر ونگا۔ اور میں اس پر بڑا خوش بھی ہوں کہ میں نیک کام کر رہا ہوں۔

یہ پروگرامنگ ایک مہینہ کرتے رہیں اور ساتھ ہی عمل بھی شروع کر دیں اور رات کو پروگرامنگ سے پہلے اپنا محاسبہ بھی کریں کہ آپ نے کتنے قوانین پر عمل کیا اور کتنے توڑے۔ اس پر غور کر کیاپنے آپ کو سمجھائیں ۔یہ مراقبہ جاری رکھیں جب تک عادت نہ بن جائے۔
Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 37 Articles with 39358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.