قومیت پرستی ( Nationalism) کا لفظ سب سے پہلے جرمن فلسفی
اور شاعر Johann Gottfried Herder نے اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط میں
استعمال کیا۔ اپنی تعلیمات میں Johann لکھتا ہے کہ ’’ He that has lost his
patriotic spirit has lost himself‘‘ یعنی ’’ جس کے اندر سے وطنیت پرستی کی
روح ختم ہو گئی اس نے اپنے آپ کو کھو دیا‘‘۔ ایک اور جگہ Johann لکھتا ہے
کہ ’’ In a certain sense every human perfection is national‘‘ یعنی ’’
ایک خاص معنی میں ہر انسان اس وقت مکمل ہے جب اس کے اندر قومیت کا جذبہ ہے‘‘۔
Rothi Despina اپنے مضمون؛
’’National attachment and patriotism in a European nation‘‘ میں
Nationalism کی تعریف کچھ اس طرح کرتا ہے؛
’’ Nationalism is a belief, creed or political ideology that involves an
individual identifying with, or becoming attached to, one’s nation.‘‘
یعنی ’’ قومیت پرستی ایک عقیدہ اور سیاسی نظریہ ہے جس کے باعث ایک شخص کی
شناخت اس کی قوم کے واسطے سے ہوتی ہے‘‘۔
جبکہHarvey Chisick اپنی کتاب ’’ Historical Dictionary of the
Enlightenment‘‘میں Patriotism کی تعریف کچھ اس طرح کرتا ہے؛
’’ Patriotism is generally speaking, cultural attachment to one’s
homeland or devotion to one’s country. It is a set of concepts closely
related to those of nationalism‘‘ یعنی ’’ وطنیت پرستی کسی بھی شخص کی
زمین کے ٹکڑے یا ملک کے ساتھ جذباتی یا ثقافتی لگاؤ کا نام ہے۔ یہ تصور
قومیت پرستی سے قریب تر ہے‘‘
قومیت اور وطنیت پرستی کی تاریخ ایک ساتھ یورپ سے شروع ہوتی ہے۔قرون وسطی
میں یورپ ایک ظالمانہ جاگیردارانہ نظام کے تحت زندگی گزار رہا تھا۔ یہ نظام
بادشاہت اور کلیساء کی معاونت سے قائم تھا۔ اس نظام کا بنیادی فلسفہ یہ تھا
کہ دنیا میں انسان کا مقام خدا کی طرف سے تعین کردہ ہے، لہذا لوہار کا بیٹا
لوہار ہی پیدا ہو گا اور بادشاہ کا بیٹا بادشاہ۔ ان کی قسمت طے شدہ ہے۔
کلیسا یعنی کہ Church اس ظالمانہ نظام کی حفاظت کرتا تھا۔ اس صورت حال میں
Martin Luther اور Jean Jacques Rousseau جیسے فلسفیوں نے نئے نظریات پیش
کیے۔ جن میں کلیساء کو ریاست سے علیحدہ کرنے کا نظریہ پیش کیا۔ جس نے بعد
میں Protestant Church کو تخلیق کیا۔ جاگیردارانہ نظام میں عوام کے لیے یہ
ضروری تھا کہ وہ ریاست سے وفاداری کا اعلان کرنے سے پہلے کلیساء سے اپنی
وفاداری کا اعلان کرے اور حلف دے۔ لہذا اٹھارویں صدی عیسوی میں اس نظریہ کے
متبادل ایک ایسا نظریہ پیش کیا گیا جس میں کلیساء کی بجائے صرف ریاست سے
وفاداری ضروری تھی۔ لہذا اس بات پر زور دیا گیا کہ پادریوں کو اسکولوں میں
پڑھانے سے منع کیا جائے اور انہیں صرف کلیساء تک محدود رکھا جائے کیوں کہ
ان کا مقصد صرف جنت ہے۔ ویکی پیڈیا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ان افراد نے
اس بات پر زور دیا کہ پادریوں کی تعلیم کے ذریعے جنت کی محبت تو حاصل ہو
سکتی ہے پر وطن کی محبت نہیں۔ انہیں نظریات کی ترویج نے یورپ میں صنعتی
انقلاب (Industrial Revolution ) برپا کیا۔ ویکی پیڈیا ایک جگہ لکھتا ہے کہ
’’ In Europe before the development of nationalism, people were
generally loyal to a religion or to a particular leader rather than to
their nations‘‘ یعنی کہ ’’ قومیت پرستی کے نظریے سے پہلے یورپ میں افراد
یا تو مذہب سے یا پھر کسی فرد کے ساتھ وفادار تھے‘‘۔ پر اس نظریے کی ترویج
نے ان افراد کو مذہب کی بجائے قومیت اور وطنیت کی وفاداری کی تعلیم دی۔
اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط میں اس نظریے کی ترویج خود حکومتوں نے کی۔ جس کے
بعد انگلینڈ میں خصوصی طور پر افراد نے اپنی نئی پہچان خاندان، قصبہ یا
صوبہ کے بجائے بطور انگریز ( English Men) حاصل کی۔ اسی دور میں قومی
نشانات، جھنڈے اور ترانے تخلیق کئے گئے۔ 1740ء میں Thomas Arne نے ملی نغمہ
Rule Britannia تخلیق کیا۔ اسی طرح John Arbuthnot نے John Bull جیسے فرضی
کردار کو کاغذ پر تخلیق کیا جو آگے چل کر برطانیہ کا قومی نشان (National
Personification of Great Britain) بنا۔ 1801 ء میں Union Jack کو بطور
قومی جھنڈا اپنا لیا گیا۔ وطنیت اور قومیت پرستی کے ان نظریات نے آگے چل کر
فرنچ اور امریکن انقلاب ( French and American Revolution) کو جنم دیا۔ اسی
جذبے کی بنیاد پر 1821ء سے 1832ء کے درمیان یونان کی جنگ آزادی لڑی گئی۔ یہ
جنگ آزادی یونانی حریت پسند جن کی معاونت روس، برطانیہ، فرانس اور بہت سے
یورپی ممالک نے کی اور اسلامی ریاست خلافت کے مابین لڑی گئی۔ آج بھی 25
مارچ کو یونان میں اس جنگ کی فتح کو بطور قومی دن منایا جاتا ہے۔ ویکی
پیڈیا ایک جگہ پر لکھتا ہے کہ اس جنگ آزادی کے بعد سے قومیت اور وطنیت
پرستی نے سیاست اور معاشرہ میں انتہائی اہم جگہ بنا لی۔ اور آج یہ نظریہ ہر
ملک کی آزادی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
14 اگست کا دن پاکستان میں رہنے والے افراد کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ پاکستان
میں رہنے والے افراد کے لیے ایک قومی دن ہے جسے وہ بطور یوم آزادی مناتے
ہیں۔ اس دن یہ افراد دھرتی ماں کی حفاظت کی قسمیں کھاتے ہیں، وطن پر تن، من
اور دھن قربان کرنے کی قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔ اور پھر یہ دن عام دنوں
کی طرح ختم ہو جاتا ہے۔ پر میں یہ دن نہیں مناتا، میں نہ تو پاکستان کو
دھرتی ماں سمجھتا ہوں نہ اس پر تن، من اور دھن قربان کرنے پر فخر محسوس
کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں میرے یہ الفاظ وطن پرستوں کے جسم میں آگ لگا دینے
کے لیے کافی ہیں۔ مجھ پر باغی اور غدار کے فتویٰ بھی قائم ہوں گے اور انڈین
یا امریکی ایجنٹ کے القابات بھی میرے حصے میں آئیں گے۔ اسی لیے میں آج اپنے
موقف کو انتہائی تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اور یہی موقف بیان کرنے کے
لیے میں نے وطنیت اور قومیت پرستی کی تاریخ اس مضمون کے شروع میں بیان کی۔
بطور انسان میں مسلمان ہوں اور سب سے پہلے بھی اور آخر میں بھی صرف مسلمان
ہوں کیوں کہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ
اللہ نے تمھارا نام مسلمان رکھا ہے (سورۃ حج آیت نمبر 78)
لہذا بطور مسلم میں یہ سمجھتا ہوں کہ اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے میں جس
دلیل کا انتخاب کروں وہ ایسی ہستی کی جانب سے ہو جو لامحدود اور ازلی ہو۔
چونکہ اللہ رب العزت ہی خالق کُل کائنات ہے اور اس خالق کی طرف سے نازل
کردہ تمام احکامات ہی ہمارے لیے دلیل قطعی ہیں لہذا اس کے مقابل کسی بھی
منطقی دلیل کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور یہی رب مجھے حکم دیتا ہے کہ؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اللہ کے رسول کی (سورۃ
النساء 59)
یعنی وہ دلیل کے انتخاب کے لیے مجھے قرآن اور رسول کے حکم پر بھروسا کرنے
کا حکم دیتاہے۔
اور یہی رب ایک جگہ فرماتا ہے کہ
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ
(سورۃ الحشر 7)
لہذا میں اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے صرف اور صرف قرآن اور حدیث پر
بھروسہ کروں گا۔
رسول اللہ ﷺ کے دور میں اوس اور خزرج کے مابین محبت اور الفت کو دیکھتے
ہوئے یہود نے ایک سازش کا انعقاد کیا، جس میں خزرج کے مسلمانوں کو جنگ بعاث
کے واقعات کو یاد دلانے کے لیے ایک جوان شاعر کو ان کے درمیان بھیجا گیا۔
جنگ بعاث نبوت کے آٹھویں سال پیش آئی، یہ بنی اوس اور بنی خزرج کے مابین
آخری لڑائی تھی، اس لڑائی میں بنی اوس کو فتح حاصل ہوئی۔ تاریخ کے صفحات اس
بات کے شاہد ہیں کہ یہ لڑائیاں صرف قبائلی برتری کے لیے لڑی جاتی تھیں۔اس
شاعر نے اپنی شاعری کے ذریعے ایسے جذبات کی تشہیر کی کہ اوس اور خزرج ایک
دوسرے پر ہتھیار تان کر کھڑے ہو گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ تک یہ خبر پہنچی تو آپ
ﷺ نے فرمایا ’’ اے مسلمانو!کیا تم نے خدا کوفراموش کر ڈالا اور جاہلیت کے
شعاربلندکرنے لگے ہو جبکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں ،خداوند متعال نے
تمھیں نور اسلام کی طرف ہدایت کرکےبلند مقام عطا کیا ،جاہلیت کے فتنوں کو
ختم کرکے تمھیں کفر سےنجات دی اور تمھارے درمیان الفت وبرادری برقرارکی
،کیا تم دوبارہ کفر کی طرف پلٹنا چاہتے ہو ؟
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس خطاب سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ایک
شیطانی سازش ہے اپنے اس عمل پر پشیمان ہوئے ،اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور
آنسو بہاتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا کر اظہار محبت کرنے لگے اور پھر
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمراہی میں اپنے اپنے گھروں کی طرف
واپس پلٹ گئے ( تفسیر در المنثور 257 ؛ مجمع البیان 432؛ فتح القدیر1368؛
تفسیر آلوسی414؛ اسد الغابہ1149) ۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں سورۃ آل عمران آیت نمبر 103 میں اوس
اور خزرج سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ؛
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا
نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ
قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ
شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ
’’اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ
ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس
نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے
اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا
لیا‘‘
اس آیت اور رسول اللہ ﷺ کی تقریر سے یہ وضاحت ہو گئی کہ اسلام میں نسلی،
لسانی، خاندانی ، قومی اور قبائلی بنیاد پر تعصب یا تعلق کی کوئی گنجائش
نہیں۔ ہر طرح کا تعلق واسطہ صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات کے واسطے سے
ہونا چاہیے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے نسل پرستی، گورے اور کالے کی
برتری اور قبائلی تعصب جس کی جدید قسم آج وطن پرستی کہلاتی ہے، اس سے
اجتناب بھی کیا اور اس کو اختیار کرنے سے منع بھی فرمایا۔ زبان، اور رنگ و
نسل کا فرق تو صرف زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے ہے ، نہ کہ جنگ و جدل کے
لیے۔وطن پرستی ایک ایسا عقیدہ ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ اتحاد
کی بات کرتا ہے پر اس کی بنیاد خاندان، قوم یا قبائل کو بناتا ہے جبکہ
دوسری جانب اسلام میں تعلقات کی بنیاد صرف اور صرف عقیدہ ہے۔ یعنی اللہ اور
اس کے رسول ﷺ پر ایمان۔ اور ہر طرح کاتعلق اور اتحاد صرف اور صرف اللہ اور
اس کے رسول ﷺ کے واسطے سے ہے۔ چونکہ اسلام ہر شے کے بارے میں حکم صادر
فرماتا ہے، لہذا معاشرتی تعلقات اور اقوام کے مابین تعلقات کی بنیاد بھی
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہی ہونا چاہیے۔
حَدَّثَنَا هُرَيْمُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ،
قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي، مِجْلَزٍ عَنْ جُنْدَبِ بْنِ
عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه
وسلم " مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً أَوْ
يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ
عبداللہ البجلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اندھا دھند
جھنڈے (بلا کسی مقصد) کے نیچے لڑ کر مارا جائے کہ وہ قومی تعصب کی طرف
بلاتا ہے یا عصبیت کی وجہ سے مدد کرتا ہے تو اس کا قتل ایسا ہو گا جیسا
جاہلیت کی موت مرا۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ)
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، - يَعْنِي ابْنَ
حَازِمٍ - حَدَّثَنَا غَيْلاَنُ بْنُ، جَرِيرٍ عَنْ أَبِي قَيْسِ بْنِ
رِيَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
أَنَّهُ قَالَ " مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ
فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ
عُمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ أَوْ يَدْعُو إِلَى عَصَبَةٍ أَوْ يَنْصُرُ
عَصَبَةً فَقُتِلَ فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلَى أُمَّتِي
يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا وَلاَ يَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِهَا وَلاَ
يَفِي لِذِي عَهْدٍ عَهْدَهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ
ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کہ جو شخص حاکم کی اطاعت سے
باہر ہو جائے اور جماعت کا ساتھ چھوڑ دے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی
اور جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے کہ غصہ ہو، عصبیت کی وجہ سے یا بلاتا
ہو عصبیت کی طرف، یا مدد کرتا ہو عصبیت کی پھر وہ مارا جائے تو اس کی موت
جاہلیت کی ہوگی اور جو میری امت پر دست درازی کرے کہ اچھے بروں کو قتل کرے
اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہے اس کا عہد بھی پورا نہ کرے تو
وہ مجھ سے تعلق نہیں رکھتا اور میں اس سے تعلق نہیں رکھتا۔ (صحیح مسلم کتاب
الامارۃ، سنن نسائی کتاب تحریم الدم)
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ
أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَكِّيِّ، -
يَعْنِي ابْنَ أَبِي لَبِيبَةَ - عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي
سُلَيْمَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله
عليه وسلم قَالَ " لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ
مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍوَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى
عَصَبِيَّةٍ
جبیر بن معطمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ؛ جس نے عصبیت کی
دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں۔ جس نے عصبیت پر لڑائی کی وہ ہم میں سے نہیں اور
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ
بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ غَيْلاَنَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ
زِيَادِ بْنِ رِيَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
ـ صلى الله عليه وسلم ـ " مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ
يَدْعُو إِلَى عَصَبِيَّةٍ أَوْ يَغْضَبُ لِعَصَبِيَّةٍ فَقِتْلَتُهُ
جَاهِلِيَّةٌ
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو اندھا دھند
جھنڈے تلے ہو کر لڑے اور عصبیت کی طرف بلاتا ہو یا عصبیت کی وجہ سے غصہ میں
آتا ہو تو اس کا مارا جانا جاہلیت کی موت ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ،
عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله
عليه وسلم " مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يُقَاتِلُ
عَصَبِيَّةًوَيَغْضَبُ لِعَصَبِيَّةٍ فَقِتْلَتُهُ جَاهِلِيَّةٌ " .
قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ
حضرت جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بے راہ جھنڈے
کے نیچے لڑے، اپنی قوم کے تعصب سے وہ غصہ کرے تو اس کی موت جاہلیت کی موت
ہو گی (سنن نسائی کتاب تحریم الدم)
یہ تمام احادیث مسلمانوں کو عصبیت کو اختیار کرنے سے منع فرما رہی ہیں۔
عصبیت عربی زبان کا لفظ ہے جس کی اصل عَصَبَ ہے۔ عَصَبَ کا معنی ہے کسی چیز
کو لپیٹنا، یعنی کسی شے کو اپنے اوپر حاوی کر لینا۔ اسی لفظ سے تَعَصَّبَ
نکلتا ہے جو کہ طرفداری کا معنی دیتا ہے۔ یعنی کسی شے یا شخص یا خاندان کو
اپنے اوپر حاوی کرے کے اس کی طرفداری کرنا۔ اردو میں تعصب اسی کو کہتے ہیں
کہ کسی کے بارے میں بُرا خیال رکھنا۔ یہ خیال اسی وقت پیدا ہو گا جب آپ ایک
مخصوص نظریہ کو اپنے اوپر حاوی کریں گے۔ اسی عَصَبَ سے عُصْبَۃ کا لفظ نکلا
جس کے معنی ہیں جماعت یا گروہ اور عَصَبِیَّۃ اور تَعَصُّب دو ایسے الفاظ
ہیں جن کا استعمال اوپر بیان کی گئی احادیث میں ہوا اور ان دونوں کے معنی
ہیں گروہ بندی کرنا۔ یہ گروہ بندی آج کے جدید دور میں مسلمانوں کے درمیان
Nation State یعنی قومی ریاستوں کی صورت میں قائم ہے۔ یہ بھی سمجھ لینا
ضروری ہے کہ عصبیت آٹھ طرح کی ہے۔ نسلی عصبیت، لسانی عصبیت، خاندانی عصبیت،
قبائلی عصبیت، مذہبی عصبیت، ذاتی عصبیت، قومی عصبیت اور وطنی عصبیت۔ یورپ
میں موجود فلسفیوں نے مذہبی عصبیت سے نجات کی ہی تحریک چلائی جو بعد میں
یورپ میں قومیت اور وطنیت پرستی کا سبب بنی۔ اور انجانے میں ایک اور نئی
عصبیت سامنے آگئی۔ جس نے بعد ازاں جنگ عظیم اول اور دوم کی صورت میں لاکھوں
انسانوں کی جان لی۔ اسلام نے ہمیں ہر طرح کی عصبیت کو اختیار کرنے سے منع
فرمایا ہے۔ اور آپس کے تعلقات اور اپنے افکار کو صرف اور صرف اسلامی عقیدہ
کی بنیاد پر استوار کرنے پر زور دیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ وطنیت کا انسان کے ساتھ یہ ربط ایک عارضی تعلق ہے، جو
انسان کی بنیادی جبلت بقاء سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف عارضی ہے بلکہ کمزور
ترین ربط بھی ہے۔انسان جب ایک جگہ رہتا ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس جگہ کے
لیے انسان میں انسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہ انسیت اس کے اندر اس جگہ سے
محبت پیدا کردیتی ہے۔ لیکن یہ محبت وقتی ہوتی ہے، انسان اپنی ضروریات کی
بنیاد پر یا سیلاب، یا زلزلہ یا کسی بھی اور وجہ کی بنیاد پر جب اس جگہ کو
چھوڑ دیتا ہے تو ایک نئی جگہ کی محبت اس کے اندر جگہ بنا لیتی ہے۔ اس کے دل
میں قلق صرف اس مالی نقصان کا ہوتا ہے جو اسے پچھلی جگہ کو چھوڑنے کی وجہ
سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اسلام میں آپس کے تعلقات اور
اپنے افکار کو صرف اور صرف اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر استوار کرنے پر زور
دیا گیا ہے، اور یہ اسلامی عقیدہ دراصل اللہ رب العزت کا حکم ہے۔ اور اسی
رب العزت نے آخری نبی محمدﷺ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ اس
ہجرت سے ایک سبق یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کا حکم تمام محبتوں
سے بالاتر ہے۔
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ
وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا
وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ
إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ
فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا
يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اے نبی کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور
تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز و اقارب اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے
ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا خوف تم کو ہے اور تمھارے
وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں
جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے
سامنے لے آئے ، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا (سورۃ التوبۃ
24)
کچھ افراد وطنیت کی محبت کی شرعی دلیل دینے کے لیے ہجرت کے موقع پر رسول
اللہ ﷺ کے یہ الفاظ بیان کرتے ہیں ’’ اے مکہ تو مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے‘‘
لیکن یہ افراد اس جملے کا صرف آدھا حصہ بیان کرتے ہیں، جبکہ پورا حصہ اس
طرح ہے کہ ’’ اے مکہ تو مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے کیوں کہ تو اللہ رب العزت
کو سب سے زیادہ عزیز تر ہے‘‘ یہ جملہ اس بات کی صراحت کر رہا ہے کہ رسول
اللہ کو مکہ اس لیے عزیز تھا کیوں کہ وہ اللہ رب العزت کو عزیز تھا۔
یہاں اس امر کی صراحت بھی ضروری ہے کہ جدید مغربی تہذیب کی بنیاد دین کے
ریاست یا زندگی سے الگ ہونے کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔ اور اسی بنیاد پر
اٹھارویں صدی عیسوی میں یورپ میں Nation States یعنی قومی ریاستیں وجود میں
آنا شروع ہوئیں۔ اس نظریہ کے برعکس اسلام تمام معاملات زندگی میں دین کو ہی
سب سے مقدم رکھتا ہے۔ اور ہر مسئلے کا حل شریعت میں فراہم کرتا ہے۔ انیسویں
صدی میں خلافت کے انہدام کی کوششوں کے وقت یورپ اور عیسائی مشنریوں نے جس
پہلو پر سب سے زیادہ کام کیا وہ مسلمانوں کے درمیان قومیت اور وطنیت پرستی
کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ مسلمانوں کے درمیان ایسی تحریکوں کو پیدا
کیا گیا جن کی بنیاد صرف اور صرف قومیت پر تھی۔ عرب اور ترک قومیت کی
تحریکیں شروع ہوئیں جن میں ایک جانب عربوں کو ترکوں پر برتر ثابت کیا جاتا
اور دوسری جانب ترکوں کو عربوں پر۔ ایسے نظریات اسلامی ثقافت میں ڈالے گئے
جو سراسر غیر اسلامی تھے، وطن کی محبت کو شرعی ثابت کرنے کے لئے جھوٹی
احادیث گھڑی گئیں جن میں سے ایک ’’ حب الوطن من الایمان‘‘ یعنی ’’ وطن کی
محبت ایمان کا جز ہے‘‘۔ بہرحال قصہ مختصر یہ کہ ان تحریکوں نے عالم اسلام
میں ایک ایسی آگ لگائی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کو مختلف
قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا (ان تمام تحریکوں کی تفصیل کسی اور
مضمون میں آپ کے سامنے لاؤں گا)۔ جن کے باعث آج کے دور کا مشرق وسطیٰ اور
افریقہ کے مسلم ممالک وجود میں آئے۔ یہی حال استعمار نے باقی مسلم ممالک
میں اختیار کیا اور Divide and Rule کی پالیسی کی تحت بیسیوں نام نہاد
اسلامی قومی ریاستیں تخلیق کر دی گئیں۔
وطنیت پرستی ایک ایسا تصور ہے جس نے امت مسلمہ کو پچھلے 100 سال سے اپنے
شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ خلافت کے انہدام کے بعد وطنیت پرستی کے ایسے بُت
تخلیق کیے گئے جن کو سجدہ کرنا اور جن کی تعظیم کرنا ہر شخص پر لازم تھا۔
ان بُتوں کی حفاظت کے لیے ایسے کاہن تیار کیے گئے جو ایسی تاویلیں پیش کرتے
تھے کہ پجاری بُتوں پر چڑھاوے چڑھانے پر مجبور ہو جاتے۔آج صورت حال یہ کہ
یہ پجاری اپنا سب کچھ بس ان بُتوں پر نچھاور کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
وطن کے نام پر تن من دھن قربان کرنے کو تیار، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ
لگانے کو تیار۔ لیکن وطنیت کے ناسور کی حقیقت کو سمجھنے سے انکار۔۔۔ایک
ایسا ناسور جس نے مسلم دنیا کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر کے الگ
کردیا۔ جس کی بنیاد پر ایک جسم اور ایک جاں کی مانند امت واحدہ پاکستانی،
افغانی، ایرانی، سعودی اور مصری قوموں میں تقسیم ہو گئی۔ اس مغربی تہذیب نے
نہ صرف مسلمانوں کو وطنیت کی بنیاد پر تقسیم کیا بلکہ ان کی اپنی قومی
ریاستوں میں قومیت کی بنیاد پر بھی تقسیم کیا۔ چونکہ قومیت اور وطنیت ،
دونوں نظریے غیر فطری ہیں لہذا ان دونوں میں ٹکراؤ ہونا بھی فطری ہے۔ وطن
کی محبت کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے پر پاکستان خود پنجابی، پشتون، بلوچی،
سندھی اور کشمیری قوموں پر تقسیم ہے۔ شاید کسی کو یاد نہ ہو پر میں یاد
کراتا چلوں کہ بنگلہ دیش کی تقسیم میں سب سے بڑا کردار نسلی، لسانی اور
قومی تعصب کا ہی تھا، جس نے آخرکار بنگلہ دیشی ریاست کو جنم دیا۔ یعنی ایک
اور وطن۔ سندھو دیش کی تحریک بھی لسانی زبان پر ظہور پذیر ہوئی اور مہاجروں
کے حقوق کی تحریک کا تعلق بھی لسانی تھا۔ بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل عام
قومی بنیاد پر کیا گیا اور سرائیکستان کی تحریک نے لسانی بنیاد پر جنم لیا
اسی طرحتحریک صوبہ ہزارہ کی بنیاد بھی قومی بنیاد پر رکھی گئی۔ سب سے پہلے
پاکستان کا نعرہ لگا تو اس کی بنیاد وطنیت پرستی تھی جس نے ہزاروں افغان
مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ چونکہ آپس کے ربط کی بنیاد وطنیت اور
قومیت بن گئی لہذا یہ فطری تھا کہ قومی، لسانی، نسلی، قبائلی اور وطنی
برتری کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جائے۔ اس نظریے نے مسلم دنیا کو
تقسیم در تقسیم کیا اور فاسد نظریہ کی برتری کے لیے مسلمان کے خون کو حلال
قرار دیا۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وطنیت کے نظریہ کا پرچار کرنے والے
یہ افراد سندھی، بلوچی، پنجابی، اور پٹھان کا نعرہ لگانے والوں کو تو غدار
وطن کہتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک یہ افراد وطن کو قومیت میں تقسیم کر رہے
ہیں جبکہ افغانی، ایرانی، بنگالی، پاکستانی، مصری، ترکی، اور سعودی ہونے پر
فخر محسوس کرتے ہیں کیوں کہ اسی کو یہ لوگ Patriotism کہتے ہیں۔
اس بات کو جان لینا اور سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ ان نظریات کا اسلام سے
کوئی تعلق نہیں لہذا ان کو اختیار کرنا اور ان کی بنیاد پر کسی دن کو منانا
مسلمانوں کی مزید تقسیم کو ممکن بنانے کے مغربی نظریے کی حمایت کے علاوہ
کچھ بھی نہیں۔ بطور مسلمان ہمیں جس چیز کی جدوجہد کرنی چاہیے ہے وہ صرف یہ
ہونی چاہیے کہ ہم ایک اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کریں، ایک ایسی اسلامی
ریاست جس کی بنیاد اسلامی عقیدہ و نظریہ ہو نہ کہ مغربی فاسد نظریہ۔ ایک
ایسی اسلامی ریاست جو قومی اور وطنی بنیاد پر وجود میں نہ آئے بلکہ بغیر
کسی تعصب کے اپنی بنیاد کو قائم کرے، جہاں انڈونیشیاء میں رہنے والا مسلمان
اور مراکش میں رہنے والا مسلمان ایک جیسی حیثیت رکھتا ہو۔ جہاں کسی گورے کو
کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہ ہو۔ جہاں صرف اسلام ہی نافذ
ہو۔ جہاں کے لوگ زمین کے ٹکڑے کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ اللہ رب العزت کے
حکم کو نافذ کرنے کی خاطر تلوار اٹھاتے ہوں۔ جہاں سب سے پہلے پاکستان، سب
سے پہلے ایران، سب سے پہلے افغانستان کی بجائے صرف اور صرف اسلام کا نعرہ
گونجتا ہو۔ جس کی فضاؤں میں انڈونیشیاء زندہ باد، مصر زندہ باد، مراکش زندہ
باد کی بجائے صرف اور صرف اللہ اکبر کی صدا گونجتی ہو۔ ایک ایسی اسلامی
ریاست جو اللہ اور اس کے رسول کے ان احکامات کو پورا کرتی ہے ؛
إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ
فَاعْبُدُونِ
”یہ تمھاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں،پس تم میری
عبادت کرو (سورۃ الانبیاء 92)
وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ
فَاتَّقُونِ
اور یہ تمھاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں،پس مجھ ہی سےتم ڈرو
(سورۃ المومنون 52)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو عَامِرٍ
الأَشْعَرِيُّ قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَأَبُو
أُسَامَةَ ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ أَبُو كُرَيْبٍ،
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَابْنُ، إِدْرِيسَ وَأَبُو أُسَامَةَ
كُلُّهُمْ عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ
كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا "
’’أبو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن، مومن کے لیے
عمارت کی طرح ہے، جیسے ایک اینٹ دوسری اینٹ کو تھامے رکھتی ہے‘‘۔ (صحیح
مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا
أَبِي، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ
بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَثَلُ
الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ
الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ
بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى "
’’ نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومنین کی مثال ان
کی دوستی اور اتحاد اور شفقت میں بدن کی طرح ہے۔ بدن میں سے جب کسی عضو کو
تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن نیند نہ آنے اور بخار چڑھ جانے میں اس کا شریک
ہوتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ
قَالاَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ
النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه
وسلم " الْمُؤْمِنُونَ كَرَجُلٍ وَاحِدٍ إِنِ اشْتَكَى رَأْسُهُ
تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمَّى وَالسَّهَرِ "
’’نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومنین ایک آدمی کی
طرح ہیں اگر اس کا سر دکھتا ہے تو باقی اعضاء بدن، بخار اور بیماری میں اس
کے شریک ہوتے ہیں‘‘۔(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب)
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا
حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنِ
النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه
وسلم " الْمُسْلِمُونَ كَرَجُلٍ وَاحِدٍ إِنِ اشْتَكَى عَيْنُهُ
اشْتَكَى كُلُّهُ وَإِنِ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ "
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام مسلمان ایک آدمی کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ
دکھتی ہے تو اس کا سارا بدن بیکار ہو جاتا ہے اور اگر سر دکھتا ہے تو سب
بدن کو تکلیف ہوتی ہے‘‘۔(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب)
میری اس تمام تحریر کا خلاصہ علامہ اقبال کی بانگ درا میں موجود نظم وطنیت
میں ہے، جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے
آذر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے |