سرکاری سکول: تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں ۔ ۔ ۔

دنیا کی دیگر اقوام کی طرح پاکستانیوں میں بھی بحثیت قوم جہاں بے شمار خوبیاں ہیں وہیں چند ایک ایسی کمزوریاں ہیں جن کی بدولت ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ’’ تحقیق کا فقدان‘‘ انہی خامیوں میں سے ایک اہم ہے۔ ریسرچ یا تحقیق کا فقدان ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جب ہم من گھڑت اور سنی سنائی باتوں پر محض اس لئے یقین کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں تحقیق کی عادت نہیں۔ماضی میں ہمارے ہاں یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ سرکاری سکولوں کی حالت بہت تشویشناک ہے ان میں اساتذہ کی کمی ، عمارت کی بد حالی، نامناسب تعلیمی ماحول اور طالبعلموں کے لئے سہولتوں کی عدم دستیابی کا دور دورہ ہے معاشرے میں ایک خاص ذہنیت کے لوگوں کی جانب سے سرکاری اداروں خصوصا تعلیمی اداروں کے بارے میں منفی تاثر کو اجاگر کیا جاتا رہا ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی سرکاری سکولوں کے حوالے سے ان موضوعات کی تشہیر کی جاتی ہے جس سے سرکاری تعلیمی اداروں کے بارے میں منفی رویہ قائم ہونے میں آسانی ہو لیکن ہم نے آج تک یہ نہیں سوچا کہ ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں اب تعمیری پہلووں سے صرف نظر کرنا اور منفی پہلووں کو اجاگر کرنا یقیناًناانصافی ہے تصویر کے دونوں کے رخ دیکھ کر اپنی رائے قائم کی جائے تو یہ زیادہ مفید ہو گا۔درج ذیل سطور میں ہم سرکاری سکولوں کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش کریں گے

صوبہ پنجاب میں سرکاری سکولوں کی کل تعداد چھ لاکھ کے قریب ہے جن سے متعلق مصدقہ معلومات یہ ہیں۔
ہایر سکینڈری سکول : سا ڑھے چھ لاکھ طلبا ( بیس ہزار سے زائد اساتذہ)
ہائی سکول : چھتیس لاکھ طلبا ، گیارہ لاکھ اساتذہ
سکینڈری سکول : بایئس لاکھ طلبا پچھہتر ہزار اساتذہ
پرائمری سکول : ا رٹیتیس لاکھ طلبا پچانوے ہزار اساتذہ
مسجد مکتب سکول : پچہتر ہزار طلبا پندرہ سو سے زائد اساتذہ

دوسری طرف اگر صوبائی دارالحکومت لاہور اور راجن پور جو نہایت کم ترقی یافتہ اور پسماندہ ضلع گردانا جاتا ہے ،کے سرکاری سکولوں کا موازنہ کیا جائے تو لاہور میں سکولوں کی کل تعداد ۱۲۵۲ ہے جن میں سولہ ہزار اساتذہ پانچ لاکھ سے زائد طلبہ ، جبکہ راجن پور کے ۱۲۶۲ سرکاری سکولوں میں پانچ ہزار سے زائد اساتذہ دو لاکھ کے لگ بھگ طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ان اعدادو شمار سے واضح ہوتا ہے کہ راجن پور جیسے دور افتادہ ضلع میں بھی حکومت فروغ تعلیم کے لئے کس حد تک کوشاں ہے۔ صوبہ پنجاب میں چودھری پرویز الہی کے دور حکومت میں فروغ تعلیم کے لئے کئی قابل قدر اقدامات اٹھائے ۔’’ پڑھا لکھا پنجاب‘‘ کے نام سے مہم شروع کی گئی جس کے تحت میٹرک تک تعلیم اور کتابیں مفت کر دی گئیں اور پہلی مرتبہ اعلی ٰ تعلیم یافتہ نوجوان ایجوکیٹرز بھرتی کئے گئے اسی دور میں اساتذہ کی تربیت کے ادارے قائم ہوئے۔ یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے چند ایک کے اضافے کے ساتھ انہی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں تیس ہزار ایجوکیٹرز ، جن میں اسی فیصد سے زائد سائنس گریجویٹ ہیں، کی بھرتی کو نہایت شفاف انداز میں مکمل کیا ہے ان پر عزم نوجوانوں سے حکومت کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ اینول سٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ میں کہ گیا ہے کہ ضلع لاہور کے دیہی علاقوں کے ۶۔۵۰ فیصد بچے سرکاری سکول جبکہ باقی نجی سکولوں یا مدازس وغیرہ میں پڑھتے ہیں سرکاری سکول میں چھپن فیصد لڑکیاں پڑھنے کے لئے جاتی ہیں اس سروے میں اساتذہ کی قابلیت کو بھی جانچا گیا ہے جس کے مطابق سرکاری سکول کے ۷۳ فیصد اساتذہ نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے جبکہ دوسری طرف نجی شعبہ تعلیم میں بی اے قابلیت رکھنے والے اساتذہ کی تعداد ۶۳ فیصد ہے۔ نجی شعبہ میں پڑھانے والے اساتذہ کی تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ ٹیوشن کا رجحان بھی سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت نجی اداروں میں زیادہ ہے جس کی وجہ وہ سکول انتظامیہ ہے جو اپنے ہی بچوں کو سکول ٹائم کے بعد ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتی ہے جبکہ گورنمنٹ سیکٹر کے بچوں کو ایسی صورتحال کا سامنا نہیں۔کثیر الجماعت معلمی کے حوالے سے بھی نجی شعبہ آگے ہے جس کی وجہ ان کے پاس کلاس رومز کی کمی ہے اس وجہ سے انہیں ایک ہی وقت میں ایک ہی کمرے میں ایک سے زائد کلاسوں کو بٹھا کر پڑھانا پڑتا ہے گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں بلڈنگ (کشادہ کمرے) مفت کتابیں و تعلیم، کھیل کا میدان اور تربیت یافتہ عملہ موجود جبکہ نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت میں یہ تمام سہولیات ناپید ہیں۔ چند عشرے پہلے گورنمنٹ کے سکولوں میں اجارہ داری قائم تھی، بچوں کی تعداد بھی کم تھی اور اساتذہ بھی پڑھانے سے جی چراتے تھے لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں تمام سرکاری سکول ٹیچرز کی ہر تین ماہ بعد ٹرینگ ہوتی ہے جس میں اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں سے ہم آہنگ کیاجاتا ہے۔ اب سرکاری سکولوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا تقرر کیا جا رہا ہے جن میں سے اکثریت یونیورسٹیوں کی فارغ التحصیل ہیں ان کی انڈکشن ٹریننگ پر بڑی تعداد میں رقم خرچ کی جاتی ہے اساتذہ کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے بجٹ کے علاوہ تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے جس کی بدولت نوجوان طبقے میں اس شعبہ کو اختیار کرنے کا خاص جذبہ نظر آتا ہے۔ اساتذہ اور طلبہ کی سو فیصد حاضری کو یقینی بنانے کے لئے مانیٹرنگ کا نظام سخت کیا کا رہا ہے۔ معروف ماہر تعلیم اور استاد قوی احمد علوی کا کہنا ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ عملے کی بدولت معاشرے میں موجود اس اثر کو زائل کیا جا سکتا ہے کہ سرکاری سکولوں کی حالت نا گفتہ بہ ہونے کی وجہ سے ان میں پڑھائی نہیں ہوتی اور لوگ بھاری فیسیں ادا کر کے اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کا سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ صوبے میں تعلیمی نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ڈھالنے میں مصروف عمل ہے سکولوں میں آئی ٹی لیبزاور ای بکس کا اجراء اس کی واضح مثالیں ہیں۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں کے عوام بھی زیادہ خوش حال نہیں لیکن نا مساعد حالات کے باوجود حکومت نے سرکاری سطح پر اعلی ٰ تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جن میں عام آدمی کے بچے بھی داخلہ لیکر اپنے مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں دوسری طرف ایسے تمام عناصر کی بیج کی جانی چاہیے جو محض اپنے کاروباری مقاصد کے حصول کے لئے گورنمنٹ سکولوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔اگرچہ حکومت نظام تعلیم اور ملک میں خواندگی کی شرح کو بہتر بنانے کے لئے نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تعلیم کے نام پر پیسے بٹورنے کے عمل کو جاری رکھا جائے۔ یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں بات کرنے کا مقصد خدانخواستہ نجی شعبہ کی تحقیر نہیں بلکہ سرکاری سکولوں میں پائے جانے والے مثبت پہلووں کے بارے میں عوام میں موجود ابہام کو دور کرنا ہے۔ لیکن ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ من گھڑت اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے سرکاری سکولوں کے بارے میں خود سے تحقیق کر لی جائے کیونکہ اب وہاں کے حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں تعلیمی شعبہ میں حکومت اربوں روپے کے فنڈز لگا کر عوام کا سرکاری سکولوں سے اٹھا ہوا اعتماد بحال کروا کے چاہتی ہے کہ وہ سکولوں میںآ ئیں اور دیکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہم فروغ تعلیم کے لئے کس حد تک کوشاں ہیں ؟ لیکن بدقسمتی کہ ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔!!!!
 
وقاص شاہد
About the Author: وقاص شاہدCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.