کیا ہم نے کبھی یہ ہوچا ہے کہ اکثروالدین پانچ سال کی عمر
میں اپنے لخت جگر کی تقدیر کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔جی ہاں پانچ سال کی عمر
میں ہی زندگی کا پہیہ ایک ہونہار بچے کو نہ چاہتے ہوئے بھی چپڑاسی ڈاکیا
سپاہی خاکروب وارڈ بوائے کلرک نائب قاصد مالی یاپھر مزدور بنا دیتا ہے اور
اگرکوئی بچہ اس نظام سے بغاوت کر لے اور کہے کہ میں اپنی صلاحیتوں کا قتل
عام نہیں ہونے دونگا تو وہ چور ڈاکو لٹیرا بدمعاش یا پھر دہشت گرد بن جاتا
ہے۔ اور اس اکژ میں بہت بڑی اکژیت یعنی غریب طبقے کی بات کر رہا ہوںَ۔جی
ہاں ایک بچے کے مستقبل کا فیصلہ اسی وقت ہو جاتا ہے جب وہ کسی بھی پرائمری
سکول میں اپنا پہلا قدم رکھتا ہے۔ وہ پہلا قدم اساتذہ اور والدین اس بچے کو
زبردستی اس منزل کی جانب دھکیل رہے ہوتے ہیں اور یہی دنیا کی سب سے بڑی
دھاندلی ہے۔رفتہ رفتہ اس بچے کے بچپن کے خواب بکھر جاتے ہیں اور وہ اپنی
ڈاکٹر انجینئر یا پائلٹ بننے کی حسین ترین خواہش کواپنے طبعی عمر سے بہت
پہلے بوڑھے ہوتے والد کا سہارا بننے کی خاطر قربان کر دیتا ہے۔ وہ اپنی
چھوٹی بہن کے بڑا ہونے پر پریشان ہوتا ہے اور یہی نہیں جب اس کی ماں دھیرے
سے بتاتی ہے بیٹا ہماری منی کی شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم جہیز کا انتطام
نہیں کر سکتے تب وہ اپنے کلرک بننے کی امید سے بھی دستبردار ہو کر مزدور یا
پھر اس سے نیچے والے سارے پیشے اختیار کر لیتا ہے۔ منی کی شادی کے علاوہ
والدین کی بیماری معذوری یا پھر خدانخواستہ موت بھی تقریبا وہی محرکات
ہیں۔اگر خخوشقسمتی سے کوئی مسئلہ نہ ہو تو وہ میٹرک کر کے جلد از جلد اپنے
والد کا دست بازو بننے کیلئے اپنے گاؤں کی بڑی دکانوں پر اتوار کا فوجی
بھرتی ہونے کا اشتہار دیکھتا ہے ا ور پھر اس کے امتہان کی تیاری کے ساتھ
ساتھ ایک مناسب سفارش تلاش کرتا ہے۔ باقی کی سب نوکریوں کیلئے اسے ان کاموں
کے ساتھ ساتھ ایک تکڑی رقم بطور رشوت بھی مہیا کرنے ہوتی ہے۔بعض اوقات ایک
نوکری کے ساتھ ایک نوکری فری کا چانس بھی ہوتا ہے وہ صرف اسی صورت میں کہ
اگر آپ نے غلطی سے سفارش مقامی سیاسی رہنما سے کروائی تو بیٹے کی کسی محکمے
میں اور باپ کی اس رہنما کے گھر نوکری مفت مفت کا مطلب بغیر رشوت کے نہیں
بلکہ بغیر معاوضے کے۔
اس نوکری کے حصول کے بعد ایک اور بڑا مسئلہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ غریب
لوگوں کے قابل بچے امیر لوگوں کے نالائق بچوں کے تابع یا اسسٹنٹ ہوتے ہیں ۔
بے شک ڈگریاں ان کے پاس ہوتی ہیں مگر کام تو ڈگریاں نہیں انسان خود کرتا ہے
یہ لوگ اپنی ذہانت سے انکو قابو میں لے کر عملی طور پر خود صاحب بن جاتے
ہیں اور سٹیٹس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے فراڈ اور کرپشن کرتے ہیں وہ اپنی
قابلیت کی بنیا د پر اتنے پرفیکٹ فراڈی بنتے ہیں کہ ان کا سراغ تک لگانا
مشکل ہوتا ہے۔اصلی صاحب بہادر کو اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو اسے اپنا
کام نہیں کرنا ہوتا اسے صرف اپنے ماتحت کی بتائی گئی جگہ دستخط کرنے ہوتے
ہیں دوسرے کرپشن میں اسے معقول حصہ ملتا ہے۔اگر غلطی سے ان لوگوں کا کسی
ایسے صاحب سے واسطہ پڑ جائے جو قابل بھی ہو اور ایماندار بھی تو وہ کام
چوری کرنے لگ جاتے ہیں ۔ لوگوں کے جائز کام بھی یہ کہ کر نہیں کرتے بھئی
صاحب بہت سخت ہے کوئی بات نہیں مانتا اور کام نہیں ہو سکتا ۔ یا پھر کام
میں ایسی قانونی گرہیں نکالنا کہ وہ آفیسر لوگوں کی نظروں میں کام نہ کرنے
والا یا بے کار نظر آتا ہے۔ یوں یہ لوگ اس کا کیریئر تباہ کر دیتے ہیں۔یہ
لوگ بہت چاپلوس اور خوشامدی بھی ہوتے ہیں اور کسی کو ان کی معصومیت پر شک
نہیں گزرتا ۔ اس کا حل بھی یقینن ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسے آدمیوں کو ان کے
مقام تک پہنچنے دیا جائے۔ ان کو اپنا مناسب مقام ملے تو کرپشن خود بخود ختم
ہو جائے گی۔
میری حکومت دعوے کرتی ہے کہ اس نے تعلیم کا بجٹ بڑھا کر اتنا کر دیا ہے
کتابیں مفت کر دی ہیں فیس معاف کر دی ہے مگر جناب یہ تو مسئلہ تھا ہی نہیں
ایسے بچے تو کتابیں پہلے بھی مفت لیتے تھے اپنے سے پہلے جماعت والے لڑکوں
سے بڑی بڑی عمارتوں کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی درختوں کے نیچے ٹاٹ پر
بیٹھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے ۔ مسئلہ یہ نہیں پڑھا ئی سے روکنے کا محرک
کہیں اور ہے اور وہ ہے گھر کا ٹھنڈا چولہا بیمار والد چپ چپ سی ماں مایوس
بہن آپ نے اس سلسلے میں کیا کیا۔ آپ بولیں گے انکم سپورٹ مگر انکم سپورٹ
دینے کے عوض تو آپ کے سیاسی وڈیرے بیگار لے رہے ہیں اور پھر کیا اتنی سی
رقم گھر چلانے کیلئے کافی ہے۔ہرگز نہہں تو پھر اس کا حل کیا ہے ۔ ایک حل ہے
والدین اپنے بچے نیلام کر دیں اور حکومت ان بچوں کو قومیا لے۔
یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے ہمارے پاس اس کا رول ماڈل پہلے سے موجود ہے۔
خیرات سے چلنے والے درس بچوں کو ضرورت کی تمام چیزیں مفت فراہم کرتے ہیں
دوسری طرف کیڈٹ کالجز یہی کام پیسے لے کر کرتے ہیں ۔ حکومت وقتی طور پر سب
بچوں کو نہیں بس ہر سکول میں پرائمری مڈل میٹرک کے طلبا میں سے قابل ترین
پانچ بچوں کو چن لے ان بچوں کا نفسیاتی تجزیہ کرایا جائے کہ وہ کیا بننا
چاہیتے ہیں پھر انہیں انکے مرضی کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کی تمام
سہولیات کے ساتھ ساتھ ایک معقول وظیفہ بطور جیب خرچ دے ۔ یہی نہیں یہ اسکول
پاکستان کے بہترین اسکول ہونے چاہییں اور ان بچوں کو یہ باور کرایا جائے کہ
انہیں پڑھ لکھ کر نوکری ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان بچوں میں یہ احساس
تفاخر اجاگر کیا جائے کہ آپ کو ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے چنا گیا ہے۔آپ ذرا
مٹی کو نم کریں ذرخیزی آپ پر خود آشکار ہو جائے گی۔
آپ ان بچوں کو تعلیمی لحاظ سے ملک میں اور ملک سے باہر کی ہر سہولت دے کر
دیکھیں یہ بچے آپ کو سرمایہ کاری بڑے منافع کے ساتھ لوٹا دیں گے- |