علم کی اہمیت اور افادیت کااحساس
ہر دور میں رہا ہے۔اس لیے علم کو اہمیت اور افادیت حاصل ہے۔ علم ہی سماج
میں انسان کے لیے امن وسکون کا بہتر ین ذریعہ ہے۔ انسان میں عقل اور شعور
صرف علم کی وجہ سے آتی ہے۔ بغیر علم کے انسان تمام معاملات سے بے خبر اور
گمراہ رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ پڑھو، قلم کے ذریعے علم حاصل کرو۔
ایک روایت ہے کہ علم حاصل کرنا فرض ہے اور انسان کواس کو ادا کرنا ضروری ہے
اسکے میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ اور مشعولیت نہیں چاہیے۔ یہ ایک ایسی ذمہ
داری ہے جوانسان اپنے رب کے لیے پوری کرتا ہے ۔ علم کے بغیر کوئی شخص
باشعور نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ تعلیم وتربیت انسان میں کامل معیار زندگی کی
صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ شعور اور عقل سے انسان اچھی زندگی بسر کرسکتا ہے
اخلاق فکر اورنظم وضبط پیدا ہوتا ہے ۔ ہر کام مہک دست اور دوسروں کے ساتھ
تعاون اور ہمددری کرتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے کائنات اور اسی کائنات کے رموزکو
سمجھنے کی ہدایات بھی دیں ہیں۔ رموز کائنات کو انسان اس وقت تک نہیں سمجھ
سکتا ۔ جب تک علم حاصل نہیں کرے گا۔ ایک حدیث ہے تم علم حاصل کرو اگر تم
بدصورت ہو تو صاحب جمال بن جاؤ گے اگر مفلس ہو تو مالدار ہو جاؤ گے یعنی
خوبصورتی لباس سے نہیں بلکہ علم سے ہوتی ہے علم ایک قیمتی ہیرا ہے جواُسے
حاصل کرے وہ سب کچھ پالیتا ہے ۔ علم حاصل کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔ علم کے
بغیر آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ ہماری ارباب واحنیار اس کی طرف کافی توجہ دے
رہی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ اگر ہم آزاد جموں کشمیر کی بات کرے جہاں
وہاں قدرتی حسن سے مالا مار ہے وہاں ہی تعلیم کے میدان میں بھی پاکستان سے
آگے ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح تقریباً 64 فیصد ہے ۔ لیکن اگر بات کی جائے کہ
یہ تعلیم حاصل کرنے کا حق ہر طبقہ کوحاصل ہے؟ کیا موجودہ تعلیمی پالیسی
ایسی ہے جسے کے ذریعے ہر کوئی آسانی سے تعلیم حاصل کر سکتا ہے ؟ہرگزنہیں ۔
اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہم نے اس کے بارے میں کبھی سوچا کہ
ہماری موجودہ تعلیمی پالیسی سب کے لیے ہے؟ اگر ہم سوچتے توکیوں سوچتے ۔
ہمیں اس کی فقر کہاں ہے؟ ہمارے اس خطے میں ایک طبقہ بھی موجودہے جس کے لیے
کوئی تعلیمی پالیسی موجود ہی نہیں۔ اور نہ ان کے بارے میں کوئی آواز
اُٹھاتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی ان کا سہارا کے لیے تیار نہیں۔ قارئین کرام !
میں جسمانی طور پر معذور بچوں کی تعلیم کے بارے میں بات کر رہا ہوں جسمانی
طور پر وہ معذور افراد جو بول تو سکتے ہیں سُن بھی سکتے ہیں اور عقل اور
شعور بھی ہے اور دیکھنے کی صلاحیت بھی ہے۔لیکن جسمانی طور پر اُن کا کوئی
اعضاء کام نہیں کرپا رہا۔ جس کی وجہ نہ وہ چل سکتے ہیں اور نہ ہی ہاتھوں سے
کوئی کام کرسکتے ہیں۔ موجودہ تعلیمی پالیسی کی وجہ سے انہیں تعلیم حاصل
کرنے میں دشوار یں پیدا ہوتی ہیں۔
قارئین کرام گزشتہ چند مہینوں سے آزاد کشمیر میں WWOP نے ایک UK Aids اور
ILam ideal کی Coporation سے ایک ایسے ہی طبقے کی آواز اٹھائی ہے ۔ قارئین
کرام آپ کو بتاتا چلو آزاد کشمیر میں پہلی دفعہ کسی غیر سرکار ی ادارے نے
جسمانی طور پر معذور بچوں کے تعلیم کے حصول کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے۔
جس میں جسمانی طور پر معذور بچے تعلیم حاصل کرسکے اُن کی تعلیمی ضروریات
سہولیات کو آسان بنائے جائے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ عام بچوں کے ساتھ مل کر
تعلیم حاصل کرے۔ لیکن تعلیمی پالیسی کا Inclusive نہ ہونا۔ یہ ایک بہت بڑی
رکاؤٹ ہے۔
آزاد کشمیر دس اضلاع پر مشتمل ہے۔ آزاد خطے کے تعلیمی اداروں میں معذور
بچوں کی رسائی بہت مشکل ہے ایک سروئے کے مطابق آزاد کشمیر کے صرف 9.70%
سکولو ں میں معذور بچوں کی نقل وحرکت کا انتظام موجود ہے۔ صرف 31.66%
کلاسوں میں کرسیوں کی سہولت موجود ہے۔ صرف 6.5% سکولوں میں کشادہ بیت
والخلاء کی سہولت موجود ہے۔ اور صرف 16.22% سکول سڑک ہے۔ بچوں میں پہنچ میں
ہیں۔ کیا اس ساری صورت حال میں معذور بچے کیسے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ کیا
یہ ارباب اختیار کے ساتھ اور ہرطبقہ فقر کے اور ہر شہری کا قصور نہیں۔ کہ
اُن نے نہ تو اس صرف کوئی توجہ دی اور نہ ہی آواز اُٹھانے کی زحمت کی۔
اور ہمیشہ انہیں نظر انداز ہی کیا گیا ہے ہر شبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے
آدمی کی ذمہ داری ہے کہ ان کا خیال کرئے۔ اور ان بچوں کی تعلیمی حقوق کے
لیے اپنی آواز بلند اٹھائے۔
قارئین کرام اس سارے معاملے میں تعلیمی پالیسی inclusive نہ ہونا بہت بڑی
رکاؤٹ ہے۔ اور دوسری بڑی روکاٹ سکولوں کی عمارتوں میں معذور بچوں کے لیے
تمام سہولیات موجود نہیں۔ اور موجود ہ عمارتوں میں تھوڑا بہت کام کروایا
جائیں تو موجودہ تعلیمی عمارتوں میں تھوڑی سے محنت کرکے معذور بچوں کے لیے
سہولیات آسانی سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ جو کہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر ہم
اور ہماری ارباب اختیار اپنی پر توجہ دے تو اور تیسری بڑی وجہ اساتذہ
کاتربیت یافتہ نہ ہونا ۔ جس میں ایک بڑی وجہ یہ ہو اُن کے ساتھ اساتذہ کا
رویہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ بچوں کا حقارت نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری
ہے کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے
میں ٹرینگ کروائی جائیں تاکہ اساتذہ ایسے بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے
انہیں بہتر تعلیم دے سکے تاکہ وہ بھی کل ایک اچھا شہری بن سکے۔ اور والدین
کو اپنے رویوں میں بہتر ی لانی ہوگی وہ اپنے معذور بچوں کونظر انداز کرتے
ہیں۔ انھیں تعلیم نہیں دلاتے ۔ جس سے ان کی نفسیات میں گہرا اثر پڑھتا
ہے۔اور اس کے ساتھ معاشرے میں لوگوں کے رویوں میں بھی تبدیلی لانی ہوگئی۔
تاکہ وہ انھیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھے۔ انھیں معذور سمجھ کر ان پر ظلم و
زیادیتاں نہ کریں ۔ انھیں بھی وہ ہی مقام دے جو ایک عام شہری کو حاصل ہیں۔
وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔
معذور بچے بہت سے مشکلات کا شکار ہیں ہمیں ان کی روز مرہ زندگی میں پیش آنی
والی مشکلات نظر انداز کردیتے ہیں۔ ہمیں انھیں سمجھنا ہوگا ۔ اور ان کی
تعلیم پر ہمیں توجہ دینے ہوگی۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے دُعا ہمیں اس ذمہ دار ی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ عمل کرنے کی
توفیق دے ۔ آمین |