کافی عرصہ ہو چکا تھا کہ میں
مطالعے سے بالکل دور تھا۔ بس آج اچانک مطالعے کی خواہش جاگ اٹھی تھی۔ تو
میری نظر الماری پر پڑی جسے تالا لگے ہوئے کافی عرصہ ہو چکا تھا۔ یقینا اب
تالے پر زنگ لگ گئے تھے۔ جس کا کھولنا بہت مشکل ہو رہا تھا ایک ہی صورت
باقی تھی کہ تالا توڑ دیا جائے۔ بس یہ خیال زہن میں آتے ہی سب سے بہتر
طریقہ تالا توڑنا ہی مناسب لگا۔ نہ جانے بچپن میں کیا خیال آیا کہ بہت سی
کتابیں ذخیرہ کر لی تھیں بس کتابیں ذخیرہ کرنے کا شوق چڑ گیا تھا اور
مطالعہ کوسوں دور تھا۔ دل چاہتا تھا کہ ساری کتابیں حفظ کر لوں لیکن جیسے
ہی کتاب پر نظر پڑ جاتی نیند آنے لگتی تھی۔ اور کتابوں کے مطالعے سے دوری
پیدا ہونے لگتی تھی لیکن کتابیں ذخیرہ کرنے کا شوق ختم ہونے کا نام نہیں لے
رہا تھا اور اسی شوق نے ایک دن مجھے اسلامک ریسرچ اکیڈمی جانے پر مجبور کیا۔
جہاں کتابیں تحفے کی صورت میں عطیہ کرنے کی گزارش کی جو منظور ہوئی اور
مجھے بے شمار کتابیں تحائف کی صورت میں ملیں۔ اور جب کبھی کالج یا
یونیورسٹی کے کتابوں کی ضرورت پڑتی۔تو اردو بازار کراچی کا رخ کرتا۔ جہاں
اچھی اچھی کتابیں ڈسکاؤنٹ کے ساتھ مل جاتی تھیں۔ کسی کتاب کا سرورق مجھے
پسند آتا تو میں ضرور خرید لیتا۔ اور دل میں تہییہ کر لیتا کہ آج یہ کتاب
ضرور پڑھوں گا۔ لیکن گھر جاکر وہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا۔ فیس بک پر
چیٹنگ، فون پر باتیں کرنا اور میسجنگ وغیرہ اور یہی وجہ تھی کہ کتابوں سے
دور بھاگنے کی کوشش کرتا اور انہیں الماری کی زیب و زینت بنا لیتا اور یہ
کتابیں مجھے اتنی پیاری ہوتیں کہ میں انہیں دوسروں کے لئے وقف کرنا مناسب
نہیں سمجھتا تھا۔جب بھی کوئی دوست مجھے الماری کھول کراسکے اندرونی منظر کے
مشاہدے کا مطالبہ کرتا تو میں اسے یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ اس میں میرے قیمتی
خزانے ہیں۔ میرے دوست میری اس بات پر خوب ہنستے۔ آج کافی عرصے بعد مجھے
مطالعے کا شوق پیدا ہواتھا۔ اﷲ اﷲ کرکے تالا توڑنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
الماری جب کھول کر دیکھا تو اندر مکھڑیوں کے جالے بنے ہوئے تھے مٹی نے ان
پر اپنا ڈھیرا ڈالا تھا۔ اور کتابیں بوسیدہ ہو چکے تھے۔ اور انکا رنگ بھی
اڑ گیا تھا۔ بہت سی کتابوں کو دیمک لگ چکی تھی اور اکثر و بیشتر کے الفاظ
صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ بہت کوشش کرنے کے باوجود مجھے میری کتابیں
درست حالت میں نہیں ملی تھیں پٹھی پرانی کتابیں اب جنکا مطالعہ کرنا بھی
مشکل ہو گیا تھا۔ اور میں نے مایوس ہو کر الماری کے دونوں دروازے بند کردیے۔
خیر اسی شوق مطالعہ نے مجھے ایک دوست کی یاد دلا دی جسکے پاس کثیر تعداد
میں کتابیں ہوا کرتی تھیں اور میں کبھی شام کے وقت اسکے گھر جا کر اسکی
کتابوں کا صرف دیدار کیا کرتا تھا اور اکثر یہ سوال کرتا تھا کہ دوست اتنی
ساری کتابیں کس طرح انکا مطالعہ کیا ہے۔ اور میں ہوں کہ مجھ سے ایک کتاب
بھی پڑھا نہیں جاتا۔ خیر آپ اسطرح کر لیں ان کتابوں کے لکھے ہوئے حروف مجھے
پڑھ کر سنا دو۔ لیکن میرا دوست تھا بھی سنانے کا انتہائی کنجوس انسان اور
وہ میری بات کو ہنس کر ٹال دیا کرتا تھا۔ میں نے اسکے گھر کا راستہ لیا اور
دروازے پر دستک دینے پر معلوم ہوا کہ جناب لمبی ٹور پر دوسرے شہر جا چکے
ہیں اور جاتے جاتے ایک بڑا تالا جسکا توڑنا ممکن ہی نہیں تھا اپنی لائبریری
پر لگا چکے تھے۔ جسکی وجہ سے کسی بھی کتاب تک رسائی ممکن ہی نہیں تھی۔ میں
بوجھل قدموں کے ساتھ واپس آرہا تھا تو سوچا کیوں نہ پبلک لائبریری کا رخ
کیا جائے۔ جہاں شاید مجھے میری ضرورت کی کوئی کتاب مل جائے۔ پبلک لائبریری
کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ اندر لائبریرین کے سوا کسی دوسرے انسان کا
نام و نشان نہیں ۔ لائبریرین مجھے دیکھ کر چونک گیا کہ کہیں کوئی بھوت تو
نہیں آیا۔ لائبریرین کو بالآخر اپنی آنکھوں پر یقین آہی گیا کہ واقعی انسان
ہے۔ کیونکہ لائبریرین کا بھی کوئی قصور نہیں تھا کئی عرصے سے اس نے کسی آدم
زاد کو اس شہر کی لائبریری کی طرف رخ کرتے نہیں دیکھا تھا۔ لائبریری کو
چھان مارا تو یہاں پر بھی کتابوں کی صورتحال وہی تھی جو میرے الماری میں
پڑے کتابوں کی ہو چکی تھی۔ یا کچھ بچی ہوئی کتابیں تھیں جو میرے کسی کام کے
نہیں تھے۔ خیر میں یہاں سے بھی دلبرداشتہ ہو کر لائبریری سے نکلا تو مجھے
بازار کا بک اسٹال یاد آیا۔ جہاں کبھی کبھی میں کتابیں خریدا کرتا تھا۔ بک
اسٹال پر جا کر کتابوں کی قیمتیں معلوم کیں تو کتابوں کی قیمتیں مہنگائی کے
آخری حد کو چھو رہی تھیں اور میرا جیب مجھے کتاب لینے کی اجازت نہیں دے رہا
تھا۔ اور میں بوجھل قدموں کے ساتھ یہ سوچ کر وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو گیا
کہ دوست کی واپسی کا انتظار کرونگا۔ اور اسکے لائبریری سے کتاب لیکر مطالعے
کے لئے بیٹھ جاؤنگا اور ساتھ میں یہ بھی دعا کرتا رہا کہ کہیں مطالعے کا
شوق دوبارہ میرے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ |