ضرب عضب کے بعد
(Anwar Parveen, Rawalpindi)
آپریشن ضرب عضب کی رفتہ رفتہ
کامیابی کے سبب ساری قوم کو اطمینان نصیب ہورہا ہے کہ وہ اب دہشت گردی کے
خوف اور ناسور سے آزاد ہو جائیں گے۔ فوجی کارروائیوں میں بھی بہت سوجھ
بُوجھ اور دانش مندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تاکہ دہشت گردوں کا اس طرح سے
قلع قمع کیا جائے کہ وہ دوبارہ سر نہ اُٹھا سکیں ۔ اس کے لئے ہر علاقے میں
پہنچنا اور ایک ایک انچ زمین کا جائزہ لینا شامل ہے تاکہ کوئی ایسی چیز رہ
نہ جائے جو دوبارہ پریشانی کا موجب بنے۔
ضرب عضب کی کامیابی کے بعد بھی چند مسائل ایسے ہیں جن پر ابھی سے نظر رکھنا
اور مناسب منصوبہ بندی ضروری ہے تاکہ اس آپریشن کی کامیابی برقرار رہے ۔ سب
سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وہ علاقے جن کو کلئیر کروا لیا گیا ہے وہاں پر
مکینوں کی واپسی کا کیا انتظام ہو گا۔ اس نقل مکانی سے یہ تو اندازہ ہوگیا
کہ مختلف علاقوں سے آنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ اب جب وہ دوبارہ واپس
جائیں گے تو ان کی آباد کاری میں یہ معلومات اہم ثابت ہوں گی۔ ان علاقوں
میں حکومت اور انتظام کیسا ہو گا۔ سیکورٹی کے کیا انتظامات ہوں گے ۔ تعلیم
، صحت اور روزگار کے کیا مواقع ہوں گے۔ کاروباری افراد کو کیا سہولت مہیا
ہوگی۔ ان تمام امور کی منصوبہ بندی کے بعد ہی لوگوں کو دوبارہ اپنے گھروں
میں جانے کی اجازت دی جائے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا بہت سے ایسے دہشت گرد جو فرار ہوگئے یا جو سامنے
نہیں آئے کیا وہ دوبارہ خود کو مضبوط کر سکتے ہیں اور خطرے کا موجب بن سکتے
ہیں ۔ ان کے دوبارہ اکٹھے ہونے کے امکانات اور اس کی روک تھام کے لئے
اقدامات سب کے ساتھ مل کر کرنے ہوں گے تاکہ اتحاد سے دشمن کو سر اُٹھانے کا
موقع ہی نہ دیا جائے ۔ پہلے بھی یہ دیکھا گیا کہ منفی عناصر اور دہشت گرد
زیادہ تر بچوں اور نوجوانوں کو ٹارگٹ بناتے ہیں ۔ ان کی سوچ پر اثر انداز
ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ زیادہ تر یہ اثرات مدرسوں یا مذہبی تعلیم کے دوران
وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ ان بچوں اور نوجوانوں کو ایسی باتوں سے دُور رکھنے کے
لئے کیا اقدامات ضروری ہیں کہ وہ مذہبی تعلیم تو حاصل کریں اور اسلام کو
بہتر طریقے سے سمجھیں لیکن منفی لوگوں اور ان کے جاہلانہ ، کم عقلی اور
تعصب زدہ سوچ سے بچ سکیں ۔ ان بچوں اور نوجوانوں کو بچانے کے لئے جامع حکمت
عملی کی ضرورت ہے جو علاقے کے بزرگوں کے ساتھ مل کر تشکیل دینا ضروری ہے
تاکہ عمل درآمد میں آسانی ہو۔
نقل مکانی کرنے والے افراد کی جیسے جیسے تعداد بڑھ رہی ہے حیرت بھی ہورہی
ہے اور مسائل بھی بڑھ رہے ہیں ۔ ان سب لوگوں کو ضروریات زندگی مہیا کرنا
ایک اہم قومی فریضہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ نفسیاتی طور پر ان کا
حوصلہ بلند رکھا جائے ۔ گھر بار چھوڑنے کی وجہ سے وہ جس ذہنی پریشانی سے
گزر رہے ہیں اس کا اندازہ دوسرا شخص نہیں کر سکتا ۔ اس لئے پوری کوشش ضروری
ہے کہ وہ یہ وقت اچھے طریقے سے گزارلیں اور جب واپس جائیں توان کے دل میں
حکومت ، افواج پاکستان اور لوگوں کے لئے جذبہ محبت ، اخوت ، رواداری اور
احترام ہو۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آج کیمپوں میں اور پھر واپس
جاکر دہشت گردی اور شدت پسندی کو روکنا ہے۔
نقل مکانی کرنے والے افراد کے لئے یہ خصوصی اہتمام بھی کیا جانا چاہئے کہ
وہ اسلام کے بارے میں درست معلومات حاصل کریں ۔ سوالات کریں اور اپنے علم
میں اضافہ کریں ۔ اس طرح وہ خود ذہنی طور پر مضبوط ہوں گے اور کسی کی باتوں
میں نہیں آئیں گے۔ آپریشن کی کامیابی کے بعد تعلیم کے فروغ کے لئے خصوصی
انتظامات کرنے ہوں گے تاکہ بچے اور بچیاں اس میں مصروف ہوکر اپنے اچھے
مستقبل کے بارے میں سوچیں اور آگے بڑھیں ۔ اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ،
وکیشنل سینٹر اور سب سے بڑھ کر کیڈٹ کالج بہت ضروری ہیں ۔ ان علاقوں میں
پبلک اور موبائل لابرئیری کی سہولت بھی ہونی چاہئے تاکہ پڑھنے کے شوقین
لوگوں کو کتابیں میسر ہوں ۔
صحت کی سہولت بھی بنیادی ضرورت ہے ۔ اس وقت نقل مکانی کرنے والے خواتین میں
چالیس ہزار حاملہ خواتین ہیں ۔ بین الاقوامی ادارہ برائے صحت (WHO ) کے
مطابق ان میں 30% انتہائی پیچیدگی کا سامنا کر سکتی ہیں جس کے نتیجے میں
ماں اور بچے کو کئی خطرات درپیش ہو سکتے ہیں ۔ اسی ادارے کے مطابق صورت حال
یہ ہے کہ 73% خواتین اور بچے صحت عامہ کے مسائل سے دوچار ہیں جن کو فوری
مدد کی ضرورت ہے ۔ معاشرتی رکھ رکھاؤ اور روایات کی وجہ سے ان خواتین کی
زیادہ تر تعداد پہلی بار میڈیکل کی سہولت سے آشنا ہوں گی ۔ انہیں پہلی بار
معلوم ہوگا کہ ماں اور بچے کو کیا مسائل ہوسکتے ہیں اور ان کا حل کیا ہے ۔
کس طرح غذائی ضروریات کا خیال کرکے بہت سے صحت کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں
۔ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے کہ اگر تجربہ کار ڈاکٹر ز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز
موجود ہوں تو وہ ان خواتین کو گاہے بگاہے معلومات دیتی رہیں اور بہت سے
عملی اقدامات میں معاون ثابت ہوں تو یہ خواتین واپس جاکر بھی اپنی اور بچوں
کی صحت پر توجہ دیں گی۔ صحت کے مسائل حل کر نے کے لئے ایمرجنسی وارڈز کی
ضرورت ہے تاکہ فوری مدد فراہم کی جاسکے ۔ اس کے علاوہ واپسی کے بعد ان
علاقوں میں ہسپتال اور ہیلتھ یونٹ بہت ضروری ہیں تاکہ وہ اپنے قریب ترین
ڈسپنسری یا ہیلتھ یونٹ سے فائدہ اُٹھا سکیں ۔ صحت کے بارے میں معلومات اور
تعلیم کو جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے بعد ان علاقوں میں تعلیم کی سہولت ، صحت کے بارے میں
معلومات اور فوری سہولت ، انصاف کا حصول ، مناسب روزگار اور ہر شخص کو
برابر مواقع کہ وہ ملک و قوم کی ترقی میں شامل ہو۔ اگر یہ چیزیں عملی طور
پر ہو جائیں تو دہشت گردی کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا۔ آج ہم سب کو سوچنا
ہے کہ کیا ایسی حکمرانی اور سیاست کی ضرورت نہیں ہے جہاں پر لوگوں کی فلاح
و بہبود کے بارے میں سوچا جائے اور عملی اقدامات اُٹھائے جائیں ۔ فوج کی
تمام قربانیوں کا یہی صلہ ہے کہ اب سیاست دان اور ساری قوم آگے بڑھے اور
ایک عزم کے ساتھ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات میں مدد گار
ہو۔ |
|