کرسی مارچ

اگر کوئی مجھ سے پوچھے یہ مارچ کیا ہے تو میں بولوں گا کرسی، بلکل اسی طرح جیسے کوئی مجھ سے کہے کہ ایک لفظ میں بتا پاکستان کیا ہے تو میں کہونگا مذہب ،تحریک کیا تھی خلافت، بٹوارہ کیا تھا کلمہ ،خطے کا نظام کیا ہے اسلام ، آئین کیا ہے قرآن، آزادی کیا تھی مٹی، جی ہاں مسلمانان بر صغیر نے صرف خاک کا مطالبہ کیا تھا اور دینے والے ہمیں خاک کا ایک ٹکڑا ہی تو نہیں دینا چاہتے تھے ۔ اگر کسی نے نسیم حجازی کو پڑھا ہے تو اسے پتا ہو گا کہ جب مجبوراــ ہمیں یہ خاک دی گئی تو اس خاک میں کتنا خون ملا ہوا تھا۔ اور یہ خون صرف ایک دشمن نے بہایا تھامگر پھر یہ روایت ہی بن گئی کہ جب جب کوئی اس خاک کی جانب بڑھا ہم نے اس پر خون بہا دیااور جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں ٹھیک اسی لمحے کئی ماؤں کے جگرگوشے اپنا کھولتا ہوا لہو اس خاک پر نچھاور کرنے کو بے تاب ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے دشمنوں کو اس مٹی میں کوئی کشش نہیں ورنہ بنگال بنگلہ دیش نہ بنتا بھارت کا کوئی صو بہ بن جاتا۔ تو پھر جھگڑا کیا ہے مٹی کیلئے اتنا خون بہاتا ہے اور مٹی لیتا بھی نہیں ہے۔ کرسی، اگر کرسی پر نظر ہوتی تواپنے ملک میں عبداسلام کو کرسی کیوں دیتا ۔ اگر ترقی اور شہرت سے جلن ہوتی تو آدھے ہندوستان کے دل شاہ رخ خان کے ساتھ نہ دھڑکتے۔ آؤ اپکو بتاؤں اصل لڑائی کیا ہے پاکستان صرف ایک خطہ ارضی نہیں ایک نظریہ ہے۔انہیں ہمارے اسلام سے خوف نہیں وہ تو مینہنٹن (نیو یارک ) کی گلیوں تک موجود ہے۔ خوف ہے تو نظریہ سے ہے اور اب کی بار دشمنوں نے مل کر ایک فیصلہ کن جنگ اس دھرتی کے خلاف نہیں بلکہ ایک نظریے کے خلاف شروع کی ہے اور ہم ایسے غافل کہ مٹی کے ٹکڑے کی حفاظت میں ڈٹے ہیں اور دشمن نے جہاں حملہ کیا ہے کامیابی کی صورت میں اسے ہماری مٹی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی تو اتنی ضرورت ہی نہیں ہے اس کیلئے تو وقت آنے پر ایوب خان کی ایک آواز ہی کافی ہوتی ۔ اس دفعہ حملہ نظریاتی سرحدوں پر ہوا اور ہم اس سے غافل ہیں اس بار یہ جنگ فوج کو نہیں علما کو لڑنی تھی ۔ اے میرے محترم پیشوا بتا تو نے جب جب فوج کو پکارا ہے لبیک کہ کر نہیں آئی تو بات کر اب جنگ تجھ پر مسلط کی گئی ہے لڑ ۔اور ہاں دشمن نے ابھی تک تیرے خلاف جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ بتاتا ہوں دشمن نے تیرا چہرہ پہن کر پوری قوم کے اسلام میں سے ایک اہم رکن جہاد چھین لیا اور تو ملوث پایا گیا۔دشمن نے میری بیٹی سے حیا کی چادر چھین لی اور تو غافل دشمن نے میرے نوجوان سے نماز چھین لی توبے فکر دشمن نے ٹیکس کی شہ دے کر زکوات چھین لی تجھے پتہ ہی نہ چلا دشمن نے تجھے ہی ملت کی وحدت کو ٹولیوں میں بانٹنے کا کام سونپا تو بانتا چلا گیابانٹتا چلا گیااور تجھے خبر ہی نہ ہوئی۔تیرا شہید میرا شہید کہ کر قوم کا درد چھین لیا اور تجھے درد ہی نہ ہوا۔ وکیل کی فیس کی آڑ میں انصاف چھین لیا اور تو بے پرواہ رہا ۔ لیکن ایک غلطی بحیثت قوم کے فرد کے میری بھی تھی میں تیری بات سننے مسجد جاتا نہیں تھا اور اگر کبھی جاتا بھی تو اس انتظار میں دیر سے جاتا کہ تو اپنی بات پہلی صف میں بیٹھے چند بوڑھوں کو سنا کر چپ ہو جائے ۔ اب دیکھ ہم دونوں کی غلطی سے ہمارے نظریئے کو خطرہ لاحق ہے وہ نظریہ جو ہمیں ہماری خاک سے زیادہ محترم ہے اس کو خطرہ لاحق ہے آج میرے جیسا بے خبر نوجوان جو میک اپ اور رقص کے نظارے میں کھوکر میوزک اور تال کی دھن میں میں مست ہو کر فساد کو کامیابی اور نطریئے سے بغاوت کو آزادی سمجھ رہا ہے دوسری طرف تیرے قبیل کا ایک محترم بزرگ اسے غلطی کا احساس تک نہیں ہونے دے رہا ۔ اسے تو کرسی چاہیے اور آزادی کے پیکر کو بھی کرسی چاہیے وہ تو لوگوں کے اس ہجوم کی معصومیت سے کھیل رہے ہیں وہ کرسی کا کھیل کھیل کر کرسی کے نذدیک تر اور باقی ہجوم آزادی کی خواہش میں غلامی کے نزدیک تر ہوتے جا رہے ہیں۔آئیں آج ایک اور حقیقت لوگوں کو کھول کر کیوں نہیں بتا دیتے کہ تم تو نیے پاکستان کی بات کرتے ہو پاکستان تو ہنوز مکمل بن ہی نہیں پایا پاکستان کے نام پر ہم نے جو مٹی کا ایک ٹکڑا حاصل کیا تھا ہم ابھی تک اس پر پاکستان بنانے سے قاصر ہیں۔وجہ یہ ہے کہ دشمن آج تک ہم سے خاک کا یہ ٹکڑا چھیننے کیلئے لڑتا رہا اور اب اس نے اس مٹی پر نافذ ہونے والے نظریئے پر نظر رکھ لی ہے۔ہم ہنوز پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ دشمن نت نئے محاظ کھول رہا ہے اور ہم غافل ہیں ہم کرسی کرسی کھیل رہے ہیں اور قوم اپنی بقا کی فکر میں تڑپ رہی ہے ۔ کسی کو اپنی کرسی بچائے رکھنے کی فکر ہے تو کسی کو کرسی پا لینے کی تڑپ دونوں کے ساتھ حواریوں کا ایک گروہ ہے اور عوام کسی معجزے کی امید لے کر بار بار ٹی وی کی سکرین کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ در اصل یہ ٹی والا ہی تو سارے فسا د کی جڑ ہے یہی تو ہماری نظریاتی سرحدوں پر حملہ کرنے والوں کا اہم مہرہ ہے اور ہم اس مہرے سے خوشخبری سننے کا خواب سجائے دن رات کو بھول کر کام کاج کو بھول کر اسے تکتے جا رہے ہیں ۔ ہماری بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتے بس اس کرب کو برداشت کیے اصل کی سلامتی کیلئے زیر لب بڑبڑائے جا رہے ہیں ۔ پاکستان ایک معجزہ ہے اور قدرت اپنے معجزے کی حفاظت کرتی رہے گی مگر ہم کہاں کھڑے ہیں آج ہمیں مڑ کر اپنے مقام کو دیکھ لینا چاہئیے ۔

شاید ہمیں خبر تک نہیں کہ اس نظام میں ہمارا مقام کیا ہے ۔ہم میں سے ہر ایک زمین والے کی زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجے گئے ہیں اس نظام میں ہم میں سے ہر ایک ملک کی کرسی سے لیکر اپنے کنبے کی کرسی تک بادشاہ ہے لیکن ہم جس نظام کی جانب بھاگ رہے ہیں وہاں صرف ایک ہی بادشاہ ہوتا ہے۔ باقی سب رعایا ہیں ان کے کنبے کا کوئی سر براہ یا بادشاہ نہیں ہوتا ۔ آپ ایک بیوی کے خاوند ہو کر سرتاج نہیں ہوتے ایک بیٹی کے باپ ہو کر اس کے لیڈر نہیں ہوتے ایک بیٹے کے ہوتے ہوئے کوئی آپکا تابعدار نہیں ہوتاتو پھر کیا وجہ ہے ہم اچھائی سے منہ موڑ کر تباہی کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ۔ایک لمحے کو سوچیئے گا ضرور
ghulam mustafa
About the Author: ghulam mustafa Read More Articles by ghulam mustafa: 7 Articles with 7584 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.