پاکستان میں گزشتہ دنوں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک بیوی
نے اپنے آشنا سے ملکر اپنے شوہر کو خودکش حملہ ٓاور بنا ڈالا ۔ مسقط سے آنے
والے اس شخص سے جان چھڑانے کیلئے اس کی بیوی نے اپنی تئیں فول پروف منصوبہ
بنایا تھا ، لیکن ایسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اسکا بچا را شوہر تین سال
دیار غیر میں اپنی بیوی و گھر والوں کے سنہرے مستقبل کیلئے دن رات محنت و
مشقت میں مصروف تھالیکن ایسے نا پسند کرنے والی بیوی نے ، قانونی راستے سے
علیحدگی کے بجائے انتہائی افسوس ناک رویہ اختیار کرکے پوری دنیامیں
پاکستانی معاشرے کو جگ ہنسائی کا سبب بنادیا اور باوفا عورت کے مشرقی تصور
کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
زمبابوے سے تعلق رکھنے والی ایک شخص نے اپنی سابقہ محبوبہ کے 62سالہ محبوب
کا دل نکالنے کے بعد کانٹے اور چھری سے کھالیا۔جنوبی افریقہ میں پیش آنے
والے اس واقعے میں اس شخص کو کیپ ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا۔خبر کے مطابق حاسد
عاشق نے اپنے انتقام کی آگ میں اپنے رقیب کو مارنے کے باوجود اس کا دل نکال
کر چبا ڈالا۔اسی طرح کی ایک خبر اور بھی نظروں سے گزری کہ سوئس خاتون معذور
شوہر کو سیر و تفریح کے بہانے بھارت چھوڑ آئی جہاں ناکافی سہولیات کی بناء
پر شوہر کی مو ت ہوگئی ۔ عدالت نے خاتون کو بیگم گردی دکھانے پر چار سال کی
قید کی سزا سنائی ہے۔
کہاوت ہے کہ ایک شخص پادری کے پاس گیا اور اعتراف گناہ والے ڈبے کے پاس
بیٹھ کر بولا ، پادری صاحب میری بیوی مجھے زہر دینا چاہتی ہے بتائیں
کیاکروں ۔ وہ بولے میں آپ کی بیوی سے بات کرتا ہوں کل آنا۔اگلے دن وہ گئے
اور بولے کیا حکم ہے پادری صاحب ؟۔ پادری صاحب نے فرمایا کہ کل میں نے دو
گھنٹے آپ کی بیوی سے بات کی ہے ، بہتر ہے کہ آپ زہر ہی کھالیں ۔
بچپن میں ایک قوالی سنا کرتے تھے ، جس میں ماں اور بیٹے کے ساتھ اس کی
محبوبہ کا تذکرہ تھا کہ محبوبہ نے اپنے عاشق کو کہا کہ اگر تم مجھ سے دنیا
میں سب سے زیادہ پیار کرتے ہو تو جاؤ اپنا ماں کا دل نکال کر لے آؤ ۔ وہ یہ
سن کر اپنی ماں کے پاس آتا ہے، اُسے قتل کرتا ہے اور اس کا دل چیر کر اپنی
محبوبہ کے پاس لے جاتا ہے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے وہ گر جاتا ہے ، ماں
کا دل اس کے گرنے پر تڑپ اٹھتا ہے کہ بیٹا تمھیں چوٹ تو نہیں آئی ، بیٹا
اسے سنی ان سنی کرکے اپنی محبوبہ کے پاس لے جاتا ہے ، محبوبہ یہ دیکھ کر
بولتی ہے کہ جو اپنی ماں کا نہ ہوا، وہ میرا کیا ہوگا ۔
اس حاسد قاتل عاشق کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے لیکن سوئس شہری خاتون کی ہمت
کی بھی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے اپنے شوہر کو موت کے منہ میں جانے کیلئے
ایسے ملک بھارت کا انتخاب کیا جیسے پورے دنیا میں عصمتیں لوٹنے والا دنیا
کا دارالحکومت کہاجاتا ہے۔لیکن اس مسئلے پر بھارت کے بجائے اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں عصمت دری کے بڑھتے واقعات پر بھی سخت تشویش ہے ۔
غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں خواتین کے
خلاف تشدد بشمول جنسی زیادتی کے واقعات میں نمایاں اضافہ پایا گیا ہے ۔
عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے میں رواں سال یک جنوری سے
31مارچ تک خواتین پر تشدد کے 1400واقعات رپورٹ ہوئے جن میں قتل ، اغوا ،
خودکشی اور جنسی زیادتی کے واقعات شامل ہیں ۔
خواتین کیخلاف تشدد و زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز ضلع فیصل آباد میں ہوئے
جن کی تعداد 282رہی۔ جبکہ خواتین کے اغوا کے کیس تین ماہ کے دوران 378رپورٹ
ہوئے۔جنسی زیادتی کے265، قتل کے207، خودکسی کے110غیرت کے نام پر قتل
کے67کیسز جبکہ خواتین کو ونی کرنے کے سات اور تیزاب سے ان پر حملہ کرنے
کے16واقعات پہلے تین ماہ میں رپورٹ ہوئے۔جبکہ چھ کسیز میں خواتین کو اپنے
رشتے داروں نے ہی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔
جب خواتین پر تشدد کے واقعات کے حوالے سے رپورٹس دیکھتے ہیں تو مرد" ظالم
سماج "کے طور پر سامنے آتا ہے ، جو اپنی جسمانی برتری کی وجہ سے خواتین پر
جبر کا مرتکب ٹھہرتا ہے ، لیکن کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو خواتین کی جانب سے
مرد حضرات کی زندگیاں" اجیرن" کرنے کی مرتکب قرار پاتی ہیں ، خاص طور پر جن
حضرات نے دو شادیاں کیں ہوتیں ہیں ان کے بارے میں مشہور مقولہ ہے کہ"
کامیاب شخص کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور بربادی کے پیچھے دو عورتوں
کا ہاتھ ہوتا ہے"۔سندھ اسمبلی میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد جب خواتین کیخلاف
گھریلو تشدد کے حوالے سے بل منظور کیا جارہا تھا تو مردوں کے حقوق کیلئے
بھی کسی کونے سے آواز بلند ہوئی تھی کہ" مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں ان کیلئے
بھی قانون سازی ہونی چاہیے"۔
پاکستان میں آبادی سے متعلق قومی ادارے انٹیٹوٹ آف پاپولیشن سٹیڈیز کے ایک
سرکاری سروے کے مطابق پاکستانی 43فیصد خواتین اور ایک تہائی مرد کا یہ
سمجھتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کی پٹائی کرسکتے ہیں۔
برطانیہ جیسے تعلیم یافتہ ملک میں 30فیصد خواتین کو 16سال کی عمر سے گھریلو
تشدد کا سامنا ہے ، قومی اعدادو شمار کے دفتر سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق
اس بات کا انکشاف ہوا کہ برطانیہ 49لاکھ خواتین اور27 لاکھ مردوں کی مملکت
ہے۔ گزشتہ سال 7.1فیصد خواتین اور44فیصد مردوں کو گھریلو تشدد کا سامنا رہا
۔ ایک سروے کے مطابق گذشتہ بارہ ماہ کے دوران برطانیہ میں گھریلو تشدد میں
تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گھریلو تشدد میں 44فیصد مردوں کے حوالے سے رپورٹ سے
ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب میں عورتیں، مردوں پر کافی بھاری ہیں۔
سعودی عرب میں نیشنل سوسائٹی فار ہیومن رائٹس ان دنوں چار سعودی خواتین پر
مقدمہ چلانے پر غور کر رہی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے شوہروں کو تشدد
کا نشانہ بنایا۔وزارت سماجی بہبود کے انڈر سیکرٹری عبداﷲ الیوسف کے مطابق
تشدد کرنے والا شوہر ہو یا بیوی ، ایک سال تک کی قید اور پچاس ہزار ریال تک
کا جرمانہ ہوتا ہے۔ گو کہ مشرقی ماحول میں مرد حضرات کا پلڑا کچھ بھاری ہے
لیکن تحقیق کی جائے تو اس کے پیچھے عورت ہی نظر آئے گی، چونکہ معاملہ"
مردانگی" کا ہوتا ہے اس لئے مردوں کی جانب سے ایسے واقعات رپورٹ کرانا ،
اپنی جگ ہنسائی کرانا برابر ہے ، اس لئے ایسے دوسرے زاوئیے سے دیکھا جائے
تو بیشتر واقعات میں خواتین پر تشدد کے محرکات میں کسی خاتون کا ہی ہاتھ
نظر آتا ہے۔
تشدد کی کئی اقسام ہیں ، اگر تشدد میں دماغی تشدد شامل کر لیا جائے تو جو
تعداد90فیصد خواتین کے بتائی جاتی ہے وہ تعداد گھٹ جائے گی اور مردوں کی
تعداد بڑھ جانے کا خدشہ یقینی ہوجائے گا۔ساس ، بیوی کی لڑائی میں قربانی کا
بکرا مرد کو ہی بننا پڑتا ہے تو دوسری جانب اگر کوئی لڑکی" حقوق نسواں "کے
نام پر گھر سے بھاگ کر شادی کرلے تو معاشرے کے طعنے اور رشتے داروں کے طنز
پر بھی مردوں کو ہی عذاب جھیلنا پڑتا ہے ، دوسری شادی کامعاملہ ہو یا ایک
نیام میں دو تلوار رکھنے والے کی دماغی صلاحیت کو مفلوج کرنے میں بھی
خواتین کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم نے اپنے گھر میں
تربیت کن خطوط پر کی ہے ، جسمانی تشدد ہو یا دماغی تشدد ، یا بے راہ روی کی
وجہ سے معصوم لڑکیوں کی زندگی اجیرن و برباد کرنے کے معاملات ہوں ان سب میں
قدر مشترک ایک یہی ہے کہ ہم نے اپنے گھر سے معاشرے کیلئے کیابنیاد فراہم کی
ہے اگر ہماری بنیاد مضبوط اور اسلام و اخلاقی اقدارکے دئیے گئے اصولوں اور
باشعور معاشرتی دائرے کے مطابق ہونگی تو یقینی طور پر پورے معاشرے پر اس کے
مثبت نتائج مرتب ہونگے بصورت دیگر مغرب زدہ ماحول کے نام پر مر د و عورت کے
یکساں حقوق میں کسی فریق کی بالادستی کیلئے توازن کو بگاڑ دینا منفی نتائج
دیگا۔ضروری ہے کہ ہم اپنے گھر سے اپنی اولادوں کے ساتھ اپنی بھی اخلاقی
تربیت کا بھی اہتمام کریں تاکہ ہر دو قسم کے واقعات کا ازالہ ہوسکے۔لیکن اس
کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اس سماج میں عورت پر ظلم کے مرتکب نہیں ہوتے ہونگے
۔لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ آج کے جدید معاشرے میں صرف عورتیں ہی ظلم کا
شکار ہیں۔بے حس معاشرہ جب ہوجائے تو کوئی بھی ظالم بن سکتا ہے- |