پولیس اور عوام کے درمیان دوریاں، فاصلے، نفرت ،
بداعتمادی، خوف اور ڈر کے نام کی خلیجیں عرصہ دراز سے حائل ہیں اور بدستور
بڑھتی جارہی ہیں اور ان فاصلوں کو ان نفرتوں اور اس بداعتمادی کو ختم کرنے
کی کوششیں پیہم اور منظم انداز میں ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں ہیں
بالخصوص حکومتی حلقوں میں تو اس حوالے سے بالکل جمود طاری ہے ۔ اس کی ایک
وجہ یقینا ان کی اپنی مرضی بھی یہی ہے کہ عوام جتنا زیادہ پولیس سے دور رہے
گی، پولیس سے خوف زدہ ہوگی اتنا ہی ان کو اپنے کام نکلوانے میں آسانی رہے
گی ۔اشرافیہ ،امراء اورسیاسی گرگوں کی اجارہ داری بنی رہے گی۔ 1860 میں
بنایا جانے والے پولیس کے نظام کا مقصد بھی یہی تھا کہ عوام میں حکمرانوں
کا خوف و دبدبہ قائم رکھا جائے۔ عوام کو پولیس کے خوف میں مبتلا کرکے اپنی
من مرضی کے کام کئے جاسکیں۔ انگریز نے عوام اور بالخصوص مسلم عوام کو دبانے
کیلئے پولیس کو اس حد تک فعال اور طاقت ور بنادیا کہ وہ خوف کی علامت بن
گئی۔ سندھ پولیس بھی اسی کا شاخسانہ تھی۔ پھر 1934 میں باقاعدہ طور پر
پنجاب پولیس متعارف ہوئی اور جرم اور مجرموں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے
مختلف diciplanary and administrative فنکشنز کا نفاذ ہوا۔ لیگل فریم ورک
آف پولیس میں بڑی تبدیلیوں کے بعدpower of devolution کے تحت صوبے سے ضلعی
اختیارات منتقل کر دیئے گئے۔تاکہ عوام کے دلوں میں پولیس کے خلاف خوف و
بداعتمادی کی فضا کو ختم کیا جاسکے۔ اور اسی کو بھی مزیدبہتر بنانے کیلئے
Public accountability of police کا نظام متعارف کرایاگیا۔ اور پھر پبلک
سیفٹی کمیشن کو تعارف کرایا جانا بھی پولیس کو عوام میں مقبولیت دلانا تھا
۔ان بارہابار کی تبدیلیوں اور اصلاحات کا مقصد بھی پولیس سسٹم میں بہتری
لانا اور اسے عوامی بنانا تھا ،اب بھی ہے اورشاید رہے گابھی۔
پولیس اور عوام کے درمیان تناؤ اور کھینچا تانی کو کم کرنے کے حوالے سے ملک
اور خاص طور پر پنجاب میں کہیں کہیں سیمینار منقعد کرکے اس تناؤ اور ٹینشن
کو کم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ان میں کتنا اخلاص تھا یا ہے یہ اس
کی مقبولیت اور اثر پذیری سے ثابت کیا جاسکتاہے موجودہ حالات کے پیش نظر
نتائج فی الحال صفر ہیں۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس محکمے کو سدھارنا جوئے
شیر لانا کے مترادف نظر آتا ہے لیکن اگر اس بات کو مدنظر رکھ کر کام کیا
جائے کہ’’ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں بس اخلاص اور جہد مسلسل ہونا
چاہئے‘‘ تو اس محکمے میں بھی سدھار لایا جاسکتا ہے اور عوام اور پولیس کے
درمیان حائل خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے۔اس کے لئے معاشرے میں ہر فرد کو اپنی
اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا پڑے گا کیونکہ جہاں ان کے حقوق ہیں وہاں ان
پر فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ اور ان کے حقوق بہتر انداز میں اسی وقت مل
سکتے ہیں جب وہ اپنے فرائض بھی بہتر انداز میں ادا کریں۔ یہ بات بھی سامنے
آئی کہ اگررشوت کے ساتھ ساتھ سیاسی اثر ورسوخ پولیس سے نکال دیا جائے،پولیس
کو بطور محکمہ ٹریٹ کیا جائے اسے سیاسی رکھیل نہ بنایا جائے کسی بھی معاملہ
کو میرٹ پر حل کرنے کی اجازت دی جائے ۔مظلوم کی داد رسی ہو اور ظالم کی رسی
کھینچی جائے ۔ علاوہ ازیں صحافتی سرگرمیوں کو اثر انداز نہ ہونے دیا
جائے،محکمانہ influence ختم کردیا جائے اقربا پروری ، اپنی پسند و ناپسند
کی ترجیح کو نکال دیا جائے پولیس میں زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوانوں
کو بھرتی کیا جائے ، انکی تربیت بھی جدید اور تعلیمی طریقوں پر کی جائے اور
سب سے اہم بات کہ پولیس کو سہولیات کی فراہمی بہتر کی جائے جس میں نفری میں
اضافہ،تنخواہ اور سہولیات میں اضافہ ، 24 گھنٹے ڈیوٹی میں کمی ، جدید آلات
کا مہیا کیا جانا تو یقینا پولیس کی کارکردگی اور پولیس کا عوام سے باہمی
تعلق 75 فیصد تک خوشگوار اور بہتر ہوسکتا ہے ۔اور معاشرے سے پولیس کا خوف ،
پولیس سے نفرت اور بداعتمادی کی فضا کوختم کیا جاسکتا ہے
پولیس اور عوام کے درمیان خوشگوار تعلقات کو پروان چڑھانے کیلئے اصلاحی و
تفریحی پروگرامز کی مدد سے اس خلا کو بہترانداز میں ختم کیا جاسکتا ہے۔
عوام اور پولیس کے درمیان باہمی تعاون کے حوالے سے حکومتی سطح پر اور
پرائیویٹ طور پر ورکشاپ کا اہتمام ضروری ہے جس میں عوام اور پولیس کو ان کی
اپنی اپنی ذمہ داریوں ے کے بارے میں بریف کیا جائے۔ اور آٹھ طبقات جس میں
صحافت، آرمی، عدلیہ، وکلا، سیاستدان، ججز اور بیوروکریٹس شامل ہیں جن کے
بارے میں خصوصی ہدایات ہیں کہ ان سے بچا جائے ۔ جبکہ مذکورہ بالا تمام
ادارہ جات کو بھی چاہئے کہ وہ پولیس اور ان کے متعلقہ معاملات میں خواہ
مخواہ کی Interferene نہ کریں اور اپنی ذمہ داریاں اور فرائض کے مطابق
مداخلت کو شعار بنائیں۔ اس حوالے سے گذشتہ ادوار میں کاوشیں بھی کی گئیں۔اس
امر کوقابل عمل بنانے کیلئے ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا۔جس کا مقصدپولیس
کا ’’قبلہ درست‘‘کرنا مطلوب تھا کیونکہ اس بات کو یقیناشدت سے محسوس گیا
گیا کہ اس محکمے میں سدھار لانا از حد ضروری اور وقت کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ
کیا گیا کہ عملہ کریجویٹ ہوگا اور محرر و ڈیوٹی افسر کمپیوٹر لٹریٹ رکھے
جائیں گے ۔ ان تھانوں میں کمیونٹی پولیسنگ کا نظام رائج کیا جائے گا یعنی
روایتی انداز میں جھاڑ پلانے کی بجائے مشروبات سے عوام کی تواضع کی جائے گی
اور گالی گلوچ اور بدتمیزی کلچر کی بجائے سب کو عزت و احترام دیا جائے گا۔
گشت کا نظام موثر بنانے کیلئے دو دو گاڑیاں اور دس دس موٹر سائیکلز دی
جائیں گی۔ جناب کی سوچ اور پالیسی قابل ستائش ہے لیکن دیکھئے گا کہ ایسا نہ
ہو جائے کہ ’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ عملہ کی حدتک تو بات
دل کو لگتی ہے کہ گریجویٹ ہوگا لیکن یہ مشروبات پلائے جائیں گے تو ان کی
payment کون کریگا یہ تو یقینا حسب سابق سائل کو ہی pay کرنا ہونگے کہ ’’
جی جاندے ہوئے بوتلاں دا بل پے کرجاناتہانوں تے پتہ ای اے کہ اجکل خرچہ
بوہتا ہو جاندا اے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اتنا تو حق بھی بنتا ہے کہ سائل
عزت و آبروکے ساتھ تھانے سے واپس جارہا ہے۔ اسی طرح پولیس اور احترام یہ تو
آگ اور پانی کو اکٹھا کرنے والی بات ہوگئی۔حلق سے نہیں اتر رہی۔کیونکہ اس
سے پہلے بھی ماڈل تھانے کام کر رہے ہیں لیکن معمول سے ہٹ کر کوئی تبدیلی
محسوس نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پولیس جتنی زیادہ متحرک
دکھائی دیتی ہے کرائم کی شرح میں اضافہ بھی زیادہ ہوجاتا ہے نہ جانے یہ ایک
دوسرے کے parallel کیوں چلتے ہیں حالانکہ گراف تو معکوس ہونا چاہئے ۔ لہذا
تھانوں کو ماڈل بنانے کی بجائے ان ٹریننگ سنٹروں کو اس نہج پر establish
کیا جائے کہ جہاں سے یہ کانسٹیبل، اے ایس آئی، ایس آئی اور انسپکٹر وغیرہ
تربیت حاصل کرتے ہیں یعنی Nip the evil in the bud کے مترادف اگر تربیت گاہ
میں ہی ان کو بے گناہ اور گناہگارسے ڈیلنگ کے بارے میں روایتی انداز سے ہٹ
کر آگاہی دی جائے، تربیت دی اور تربیت دینے والے کو بھی تربیت یافتہ ہوں
روایتی حوالدار اور کمانڈر نہ ہوں تو پھر یہ ماڈل تھانے بنانے کی ضرورت
ہرگز ہرگز پیش نہیں آئے گی ۔پھر ایس ایچ او ،تفتیشی یا کسی بھی رینک کے
افسر کو جرات اور اجازت نہ ہوگی کہ کسی شریف اور بیگناہ کی پگڑی کو اچھالیں
اور گناہگاروں کو کرسی اور عزت دیں۔ بہرحال ہم دعاگو ہیں کہ آپ اپنے اس
مقصد میں کامیاب ہوجائیں۔اور پولیس کا قبلہ درست سمت اختیار کرلے۔ |