بندر کا تماشا

کئی دہائیوں سے ہم دیکھتے آرہے ہیں بندر والا آتا ہے بندر اور بکری لاتا ہے اور ڈگڈگی بجا کر بندر اور بکری کا تماشا دکھاتا ہے۔ ہر دور میں ہر شہر میں اور ہر زبان کے بندر نچانے والے ایک سے جملے ایک سے تماشے اور ایک سے جانور رکھتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہم سب اپنے اپنے بچپن سے دیکھ رہے ہیں اس کے باوجود جب بھی مداری کسی گلی میں آتا ہے لوگوں کا ایک جم غفیر اس کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کیا بوڑھے کیا بچے اور کیا جوان سب ہی نہایت دلچسپی اور انہماک سے اس تماشے کو دیکھتے ہیں اور اتنے محو ہو جاتے ہیں کہ اگر کسی ضروری کام سے بھی جارہے ہوں اسے مؤخر کرکے پہلے اس تماشے کو دیکھتے ہیں اس کے بعد آگے بڑھتے ہیں یہاں تک کہ گھریلو خواتین بھی دروازے کھڑکی اور چھتوں سے دلچسپی سے تماشا دیکھتی ہیں اور لطف اندوز ہوتی ہیں۔

بندراپنے مالک سے وفاداری کرتا ہے اور تماشا دکھاتا ہے جس کے بدلے میں اس کو کھانا پینا وغیرہ ملتا ہے اور اس کے مالک کو پیسہ ملتا ہے۔ لیکن تماش بینوں کو کیا ملتا ہے؟ صرف ذرا سا وقتی لطف اور بس۔ باقی وقت کا بھی ضیاع، پیسے کا بھی ضیاع اور ضروری کاموں میں بھی تاخیر۔

آج ہم اپنے معاشرے کی زمام کار سنبھالے افراد کو بنظر غائر دیکھیں تو یوں محسوس ہو گا کہ بندر بھی وہی ہیں مالک بھی پرانے ہیں اور ان کے مقاصد و اہداف بھی وہی ہیں۔ بس علاقے اور شہر کی مناسبت سے تماش بین بدل رہے ہیں۔ یہ تماش بین یہ نہیں جانتے کہ تماشہ گر اور ان کے مالک اپنے مقصد کے لئے ان کا کس طرح سے استعمال کر رہے ہیں اور یہ سب بخوشی استعمال ہورہے ہیں ایک کے بعد ایک آتا ہے سب کی باریاں مقرر ہیں سب تماشہ کرتے ہیں اپنے آقاؤں سے اپنا حصہ وصولتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ تماش بین خالی ہاتھ ان کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں اورنئے آنے والے مداری کی مزین و منقش باتوں میں الجھ جاتے ہیں۔

حضور ﷺ کادور تھا دین اسلام و قرآن بظاہر داؤ پر لگا ہوا تھا نبی علیہ السلام کی زندگی خطرے میں نظر آرہی تھی کفار ومنافقین کوئی موقعہ آپ علیہ السلام پر حملے اور نقصان پہنچانے کا ضائع نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اپنے گھر بار مال دولت اہل وعیال سب چھوڑ چھوڑ کر جان ہتھیلی پر رکھ کر دایئرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اس وقت تک نہایت قلیل تعداد میں تھے۔ نبی علیہ السلام سے صحابہ و صحابیات کی محبت و عشق کا یہ عالم تھا کہ ایک خاتون کوایک غزوہ سے واپسی پر خبر ملی آپ کے شوہر اور بیٹے شہادت پا چکے ہیں فرماتی ہیں ’ان کو چھوڑو یہ بتاؤ میرے آقا محمدِ عربیﷺ تو خیریت سے ہیں ناں؟‘

اللہ اکبر!!! اس حال میں اسوقت سے زیادہ اور کونسا موقعہ ہوگا کہ خواتین بھی گھروں سے نکل پڑیں اور مردوں کے شانہ بشانہ جہادِ فی سبیل اللہ میں حصہ لے کر اپنے محبوب و یتیم نبی کی حفاظت کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر جسموں سے کفن باندھ کر فتح یا شہادت کا علان کردیں۔ اس وقت جب کہ نبی علیہ السلام کو دی جانے والی اذیتوں پر جبرئیل بھی رو پڑتے تھے اللہ سے عرض کر کے سفارش کر کے حکم لے کر آتے تھے ’اے نبی اجازت دے دیں اس قوم کو جس کے صرف کچھ افراد نے آپ پر ظلم کیا ہے اس کے تمام افراد کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر کچل دوں‘ اس وقت جب کہ ان مظالم پر شجر وحجر پھٹ پڑنے کو تیار تھے لوگوں کے دلوں کا کیا حال ہوگا؟ اس وقت بھی صحابیات نے منت کر کر کے اجازت ِ جہاد مانگی تو صرف اتنی اجازت ملی کہ لشکر ِاسلام سے کافی پیچھے رہ کر مکمل پردے میں صرف زخمیوں کی مرہم پٹی اور لشکر کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کریں گی۔

لیکن آج کیا دور آگیا کہ وہ معززو محترم خواتین جنہیں اسلام نے اپنے گھروں کی شہزادیاں بنایا جن کے لئے باپ، بھائی، شوہر اوربیٹے کے دل میں اللہ نے ایسی محبت اور نرمی ڈال دی جس محبت نے ان مردوں کو مجبور کردیا ان کی تمام ضروریات پوری کرنے اور ذمہ داریاں اٹھانے پر۔وہ خواتین اتنے دن سے سڑکوں میدانوں میں رُل رہی ہیں طبلوں اور ڈھولک کی تھاپ پر مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ ناچ رہی ہیں لیڈر کی محبت میں جان دینے کے نعرے لگا رہی ہیں تھرک تھرک کر ساتھ نبھانے کے وعدے کر رہی ہیں میڈیا پر چیخ چیخ کر قسمیں کھا رہی ہیں۔

آہ! اے مسلمان عورت! آج میں مایوس ہوگئی بیت المقدس کی آزادی سے،مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عزت کے لَوٹنے سے،اسلامی قانون کے نفاذ کی امید سے،تباہی کی طرف جاتی نسل کی واپسی کی امید سے کیونکہ جس گود میں صلاح الدین ایوبی،نورالدین زنگی اور محمد بن قاسم پیدا ہوا کرتے تھے جن صالح ماؤں کے بطن سے غازیانِ اسلام جنم لیتے تھے جن خواتین کی آواز بھی کبھی کسی نامحرم نے نہیں سنی ہوتی تھی ان ماؤں کا نام ان کے بیٹے روشن کیا کرتے تھے وہ ماں آج اپنی عزت داؤ پر لگا کر اسلام و احکامِ اسلام کو ٹھوکر مار کر قرآن و احکامِ قرآن کو پرانا اور فرسودہ جان کر اپنے لیڈر کوخوش کرنے کے لئے کئی دن و رات سے طبلہ کی تھاپ پر تھرک رہی ہے۔جس نبی ﷺ نے اپنی جان مال عزت اہل عیال سب خطرے میں پڑنے پر بھی خواتین کوگھر سے باہر نکلنے کی اجازت تک نہ دی آج اس نبی علیہ السلام کا دل تو نے پاش پاش کردیا اے ماں اے بہن اے بیٹی۔جس نبی نے اللہ کے اس پیغام پر جو جبرئیل امیں لے کر آئے تھے کہ ’اللہ آپ سے ملاقات چاہتا ہے‘ فرمایا تھا ’میں چلنے کو تیار ہوں پہلے اللہ سے میری امت پر رحم وکرم کا اس کو معاف کرنے کا وعدہ لے کر آؤ‘ اس نبی علیہ السلام کے بہتے آنسو مجھے اپنے دل پر گرتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں جو آخر تک بہتے رہے اور زبان امتی امتی پکارتی رہی۔ کاش ہم نبی ﷺ کی اس حدیث کو ہی مدِ نظر رکھ لیتے:
المرء مع من احب
آدمی قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہوگا

کاش آج ہم ان ناچنے اور نچانے والے لیڈروں سے محبت کرنے کے بجائے نبی علیہ السلام صحابہ کرام اور پھر علماء صلحاء سے محبت کرتے تو یقینا روز حشر کامیاب ہوجاتے اس دن اپنی قسمت اور ملنے والے انعام پر فخر کرتے۔جن علماء صلحاء کے بارے میں اللہ نے کہا جس نے ان سے بغض رکھا میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ان کو حقیر سمجھنے کے بجائے ان کو اپنے سر کا تاج سمجھتے تو یقینا دنیا وآخرت کی رسوائی ہمارا مقدر نا ہوتی۔

ایک طرف یہ خواتین ہیں جو دین کو مکمل طور پر پامال کر کے سڑکوں پر ہیں اور ایک وہ مقدس پاک باز بچیاں تھیں جن کے پاؤ ں کا ناخن بھی کسی نے نہیں دیکھا تھا ایک مطالبہ ان کا تھا ایک مطالبہ ان کا ہے وہ سرتاپا ملفوف و ملبوس ہو کر اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں اسلام کا نفاذ لانے کا مطالبہ کرنے نکلی تھیں ۰۰۱ فیصد جائز اور شرعی مطالبہ لے کر آئی تھیں ایک طرف یہ خواتین ہیں جن کے پاس پورے کپڑے بھی نہیں پہننے کو جن کے پاس دوپٹہ تو ہے لیکن سر پر ڈالنے کے لئے نہیں اپنے ساتھ آنے والے مردوں کے گلے میں ڈالنے کے لئے اُن کے ساتھ میڈیا اور تمام ارباب اقتدار نے کیا سلوک کیا تھا وہ بیان کرنے کی ہمت بھی میرے قلم میں نہیں اور ایک طرف یہ ہیں جن کو پورا میڈیا کوریج دینے میں اور تمام سیاست دان منانے میں کوشاں ہیں۔

اے اربابِ اقتدار! لڑو ان کے مقدمات جو تم سے محبت رکھتے ہیں تم مناؤ انہیں جو تم جیسے ہیں اور ایک کے بعد ایک آنے والے کا ساتھ دینے نکل پڑتے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم جب اسیرِ اعظم بنتا ہے تو یہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایک نیا وزیر تلاش لیتا ہے اور پرانے کے ساتھ کئے گئے ساتھ نبھانے کے وعدے قسمیں بھول کر ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

ہم نے ان معصوم باپردہ بچیوں کا مقدمہ اللہ کی عدالت میں دائر کردیا ہم نے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کیا کہ بے شک وہ منصِفِ اعلی ہے۔ہم اپنی شہید بچیوں اور غائب کی گئی پاکبازبہنوں کو مرتے دم تک نا بھولیں گے اور نا ان کا ساتھ چھوڑیں گے ان شاء اللہ۔

Latafat Naeem Shaikh
About the Author: Latafat Naeem Shaikh Read More Articles by Latafat Naeem Shaikh: 4 Articles with 5705 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.