مرجائیں جب ہم تو انصاف کرو گے

جو لوگ زندگی بھر سرکاری اداروں میں کام کرتے ہیں۔ وہ آخری وقت میں اس امید پر خوش رہتے ہیں کہ انھیں آخر میں پینشن کا سہارا ہوگا۔ میرے ایک دوست جو ایک بڑے مالیاتی ادارے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر فون کر کے یاد دہانی کراتے ہیں، کہ ان کی پینشن ابھی تک ان کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی ہے۔ ایک اور دوست اکثر اس وقت آتے ہیں، جب انہیں اپنے زندہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ درکار ہوتا ہے۔ اس سرٹیفیکیٹ کی عدم موجودگی میں آپ کی پینشن رک جاتی ہے۔ میں مہینے کے شروع میں کئی بینکوں کے سامنے بوڑھوں کی قطار دیکھ کر سمجھ جاتا ہوں کہ یہ سب اپنی پینشن کے لئے آئے بیٹھے ہیں، کسی بھی سرکاری ادارے میں اپنی جوانی خرچ کردینے والے یہ پینشنر آخری دنوں میں اپنے واجبات کے لئے کیسے عذاب سے گزرتے ہیں۔ اس کا اندازہ ننھے خاں کے اس دلخراش واقعے سے ہوتا ہے۔ ننھے خان ریلوے میں اسپیشل ٹکٹ چیکر تھے۔ زندگی ریل میں گزاری۔ حیدرآباد کے باسی ننھے خان کو امید تھی کہ ریٹائرمنٹ پر ان کو اچھی خاصی رقم مل جائے گی۔ جس سے وہ اپنی زندگی آرام سے بسر کرسکیں گے۔ لیکن اربوں روپے کی زمین اور اثاثے رکھنے والے اس ادارے کو ہمارے حکمرانوں نے اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ اب اس کے پاس اپنے ملازمیں کی تنخواہوں، پینشن، کی معمول کی ادائیگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ ننھے خان اپنے واجبات کی ادائیگی کے لئے ہر جگہ مارے مارے پھرے اور آخر ننھے خان بھی انصاف کی راہداریوں میں اپنے حق کے لئے ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ جہاں سے ان کے واجبات کی ادائیگی کے لئے ریلوے حکام کو حکم دیا گیا۔ لیکن ریلوے حکام نے اسی روایتی تساہل سے کام لیا۔ اسی دوران ننھے خان کی غربت اور بیچارگی پر فالج کا حملہ ہوا اور ننھے خان بستر کے ہوکر رہ گئے۔ ان کا آٹھ لاکھ اسی ہزار کا چیک ریلوے کی فائلوں میں رہا، جب ریلوے یونین نے اسلام آباد میں فنانس کنٹرولر سے اس معاملے میں بات چیت کی تو ۳۱ اکتوبر کو ننھے خان کے واجبات کا چیک تیار ہوگیا۔ لیکن بستر پر پڑے ننھے خان یہ چیک وصول کرنے دفتر نہ جاسکتے تھے۔ ریلوے والوں نے یہ چیک ڈاک سے روانہ کردیا ۔ یہ چیک اس ان ننھے خان کے گھر پہنچا، جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوچکے تھے۔ اس سفر کے لئے انھیں اس رقم کی ضرورت نہیں تھی، ریلوے ورکرز یونین کے صدر منظور رضی اور ان کے تمام ساتھی غمزدہ ہیں، ان کا ساتھی اپنی بیماری اور غربت کے ساتھ اس دنیا سے چلا گیا۔ وہ اس کی زندگی میں اس کے واجبات نہیں دلاسکے۔ مجھے ملیر کے اس استاد ااور اس کی بیوی کا خیال آرہا ہے۔ جو اپنی زندگی میں اپنے واجبات کے لئے محکمہ تعلیم میں خوار ہوتے رہے۔ اور ایک دن بھوک اور غربت اور سفید پوشی کے مارے دونوں میاں بیوی اپنے گھر میں خاموشی سے مر گئے۔ شائد اس دن کے لئے کسی نے کہا ہے کہ مر جائیں جب ہم تو انصاف کرو گے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387552 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More