لال بتی

رات کے کسی لمحے درد کی شدت سے کراہتی ہوئی میری ماں مجھے کہتی مجھے لال بتی لے چلو، اور ہم انھیں لال بتی لے جاتے، ڈیوٹی پر موجود اسٹاف انھیں اسٹریچر پر ڈالتا، اور تیزی سے ڈیوٹی ڈاکٹر ان کے درد کی شدت کو کم ہونے کی دوائیں اور انجیکشن دیتا، صبح تک والدہ کی طبعیت بحال ہوجاتی اور اگلے دن ہم انھیں گھر لے آتے، والدہ آپریشن سے گھبراتی تھیں، اور ان کے درد کا مداوا سرجری میں تھا۔ ان دنوں حیدرآباد کا سول اسپتال لال بتی کے نام سے پہچانا جاتا تھا، اسپتال میں صفائی کی صورتحال قابل رشک تھی، اسٹاف اور ڈاکٹر مستعد، قابل، اور بے لوث تھے۔ اسپتال میں مریضوں کو تین وقت خوراک دی جاتی تھی، ناشتے میں ابلے ہوئے انڈے، مکھن لگے توس، دودھ، دوپہر میں سالن روٹی اور سوئٹ ڈش کھانے کا معیار بہت اچھا اور صفائی ستھرائی بہت زیادہ تھی۔

۰۷ اور ۰۸ کی دہائی تک سول اسپتال حیدرآباد اپنے معیار اور علاج کی سہولیات کے سبب بہت نامور تھا، اندرون سندھ سے آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد یہاں شفایاب ہوتی تھی۔ دوائیں اسپتال سے فراہم کی جاتی تھیں، آج کی طرح ہر بات کے لئے مریضوں پرچی نہیں تھما دی جاتی تھی کہ یہ دوا اسٹور سے منگا لیں، اسپتال میں آپریشن با قاعدگی سے ہوتے تھے، حیدرآباد کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، سرکاری اسکولوں میں بچوں کو دودھ اور فروٹ بن دئیے جاتے تھے۔ ان پیلے اسکولوں کی تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول حیدرآباد میں داخلے کے لئے ٹیسٹ ہوتے تھے اور میرٹ پر داخلے دئیے جاتے تھے۔ حیدرآباد میں تارا چند اسپتال بھی مشہور تھا۔ یہاں او پی ڈی کی سہولت تھی۔ اور ایک آنہ پرچی پر دوائیں اور علاج کیا جاتا تھا۔ آج یہ اسپتال حافظ مبارک علی شاہ اسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو بے ہنگم کمرشل دکانوں میں گھر کر اپنی شناخت کھو بیٹھا ہے۔ پرائیوٹ اور چیر ٹیبل اسپتال کے نام سے میمن انجمن ہسپتال موجود تھا، جو آج بھی گران قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔

سول اسپتال حیدرآباد ۱۸۸۱ میں بمبئی فیکلٹی آف میڈیسن کے اشتراک سے حیدرآباد اور اندرون سندھ کے لوگوں کو میڈیکل سہولیات کی فراہمی کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ۳۵۹۱ میں اس کا نام بدل کر سول اسپتال کردیا گیا تھا۔ بعد میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورہ کے قیام کے بعد اس کا نام بھی لیاقت میڈیکل کالج کردیا گیا۔ اور اسے کالج سے منسلک کر کے ٹیچنگ اسکول کی حیثیت دے دی گئی،۰۷۹۱ کی دہائی تک سول اسپتال کی صورتحال بہت اچھی تھی، اس کا نظم نسبق بہتر تھا، یہاں کراچی کے بعد سب سے اچھی آپریشن، سرجری کی سہولیات موجود تھیں، ایمرجنسی میں بھی یہاں اندرون سندھ سے آنے والوں کے لئے اچھے انتظامات تھے۔ حال ہی میں لیاقت میڈیکل کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لیاقت میڈیکل کا نام بڑھنے کے ساتھ اس کے معیار اور اس کے کام کی بھی شہرت ہوتی لیکن اب یہاں کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ لوگ یہاں آنے سے کتراتے ہیں اور پرائیویٹ علاج کو بہتر پاتے ہیں، اسپتال کے بڑے بڑے ڈاکٹروں اور پروفیسروں کے ماشااللہ سب کے پرائیویٹ کلینک چل رہے ہیں۔ وہ اسپتال میں ایک دو گھنٹے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ اور یہاں آنے والوں کو اپنے کلینک میں آنے کا مشورہ دے کر چلے جاتے ہیں۔ جنرل وارڈ میں مریضوں کو دیکھنے کی فرصت بھی نہیں ہوتی۔ ایک تو حکومت کی جانب سے دواﺅں کی فراہمی کے لئے مناسب فنڈ موجود نہیں ہیں تو دوسرے جانب موجود فنڈز میں بھی گھپلے، کرپشن، چور بازاری ہورہی ہے۔ اسپتال کی چوری شدہ دوائیں آس پاس کے میڈیکل اسٹور پر فروخت ہورہی ہیں، غربت کے بڑھتے ہوئے سائے اور حیدرآباد کی غریب آبادی اور مہنگے علاج کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سول اسپتال کے معیار کو بہتر کیا جائے عوام کو سستا علاج فراہم کیا جائے، بڑے ڈاکٹر کو پرائیوٹ پریکٹس سے نہیں روک سکتے تو کم از کم انھیں سرکاری وقت کی تو پابندی کرائی جاسکتی ہے۔ جس کی وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ بھٹائی اسپتال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صوبائی وزیر صحت کو چاہئے کہ وہ اس صورتحال پر توجہ دیں، کراچی کے مینڈیٹ والوں کے لئے حیدرآباد والوں کی بڑی قربانیاں ہیں
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387536 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More