خیردین تین بھائیوں میں سب بڑا تھا ،کھیتی باڑی اُس کا
پیشہ بھی تھا اور جنون بھی ،وہ اپنے والد کے ساتھ بچپن ہی سے کھیتوں میں
کام کیا کرتا تھا ،گاؤں کے پرائمری سکول سے پانچ جماعتیں پاس کرنے کے بعد
والدین نے خیردین کو وسائل کمی کی وجہ سے مستقل کام میں لگا لیا،اُسے کام
کے ساتھ سچی لگن کے ساتھ پڑھائی لکھائی کا بھی شوق تھا،بھایؤں میں سب سے
بڑا ہونے کی وجہ سے تعلیم کی قربانی دینا پڑی تو اُس نے سوچا کہ چھوٹے
بھایؤں کو ضرور پڑھائے گا،ایسا ہی ہوا خیردین نے والد کے ساتھ مل کر کھیتی
باڑی میں خوب محنت کی ،خیردین بھایؤں کے تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ گھر
کی ہر ضرورت پوری کرتااور بھایؤں کو کبھی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتا ۔اُس
کے خیال میں تھاکہ بھائی اُس کے ساتھ کام کروانے لگ گئے تو وہ لالچی ہوکر
اُن کی تعلیم چھڑوا دے گا۔وقت گزرتا گیا خیردین کے دونوں بھائی گاؤں کے مڈل
سکول سے آٹھویں جماعت پاس کرکے اگلی پڑھائی کیلئے شہر چلے گئے،والدین کی
خواہش پر خیردین نے اپنی پھوپھی زاد کزن آمنہ سے شادی کرلی،آمنہ نیک سیرت
اچھی بیوی ثابت ہوئی اور اُس نے کبھی خیردین کوبھایؤں سے دور کرنے کوشش نہ
کی،اﷲ تعالیٰ نے خیردین کوتین سال میں دو خوبصورت بیٹوں سے نواز دیا ،خیردین
بھایؤں کو ہر مہینے اُن کے تما م اخراجات کیلئے رقم بھیجتا رہا حتیٰ کہ
دونوں بھائی گریجویشن کے بعد اچھی سرکاری نوکریوں پر فائز ہوگئے ۔انہوں نے
اپنے لئے شہر میں الگ الگ گھر خرید لئے ایک دن خیردین کو اپنے بھائی کی
شادی کی تقریب میں شامل ہونے کا دعوت نامہ ملا تو اُس کے پاؤں تلے سے زمین
نکل گئی ۔اُس نے سوچ رکھا تھا کہ اپنے بھایؤں کی شادیاں خوب دھوم دھام سے
کرے گا جس کیلئے اُس نے خاصی رقم بھی جمع کررکھی تھی ، خیردین اپنے والدین
اوربیوی بچوں سمیت پوری تیاری کے ساتھ شادی کی تاریخ سے دو دن پہلے ہی اپنے
بھائی کے گھر پہنچ گیا ۔اُس کے بھائی کا گھر خوبصورت پر گاؤں کے ماحول کے
مطابق بڑا نہ تھا ،ایک بیڈ روم ،ڈرائنگ روم اٹیچ ،کچن اورباتھ روم والے گھر
میں خیردین کے والدین ،بیوی دو بچوں سمیت ٹھہرنے کیلئے ناکافی تھا جس پر
اُس کا بھائی سوچ میں پڑگیا،جیسے تیسے کرکے رات گزر گئی ،صبح ناشتے کے بعد
خیردین کے بھائی نے اپنی والدہ سے مخاطب ہوکر کہا امی یہاں اتنی جگہ نہیں
کہ آپ سب رہ سکیں اور پھر آج مہندی کی رسم ہے میرے دوست آئیں گے تو وہ آپ
لوگوں کو پینڈو کہیں گے اس لئے آپ لوگ واپس گاؤں چلے جائیں میں شادی کے بعد
آپ کی بہو کو لے کر آؤں گا۔خیردین اور اُس کے والدین خون کے آنسوں روتے
اپنی حسرتوں کا جنازہ اُٹھائے گاؤں لوٹ گئے۔خیردین کو معلوم تھا کہ اُن کا
گناہ یہی تھا کہ وہ پینڈو تھے جبکہ اُس کا بھائی پڑھ لکھ کر شہری بابو بن
چکا تھا۔اُس دن سے خیردین احساس کمتری کا شکار ہوگیا دو سال بیمار رہنے کے
بعد خالق حقیقی سے جاملا۔قارئین محترم اس طرح کی کئی کہانیاں آپ کے ارد گرد
بھی موجود ہوں ،یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی ہڈ بیتی ہے ۔ہم
شہر میں بسنے والے خود کواﷲ کی اعلیٰ اور گاؤں والوں(پینڈو) کوکمتر مخلوق
تصور کرتے ہیں ۔پینڈو لفظ زبان پر آتے ہی پڑھی لکھی شہری آبادی کی اکثریت
کے ذہنوں پرغرورکا ایک غبار سا چھا جاتا ہے جس میں پینڈوہونا انتہائی
جاہل،پاگل،غلیظ،بے وقوف ،بے شعور اور کم عقل نظر آتا ہے جبکہ یہ سارے
لقابات شہریوں کیلئے استعمال ہوں توبات کسی حد تک درست لگتی ہے،فیصلہ کرنے
کیلئے آپ اس بات پر غور کریں کہ شہر ی آبادی گاؤں والوں (پینڈوں) کو کون
کون سے فوائد پہنچاتی ہے اور گاؤں والے(پینڈوں)شہروں میں پسنے والوں کیلئے
کیا کرتے ہیں ۔شہر سے گاؤں جانے والی مفید اشیاء میں ایسی چیزوں کی کثرت ہے
جو بجلی،گیس یا پیٹرول پر چلتی ہیں،بجلی اور گیس مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ
لوڈشیڈنگ کا عذاب شامل ہے جبکہ پیٹرول مہنگا ہونے کے ساتھ مضرصحت دھواں بھی
پیداکرتا ہے اور سب سے بڑھ کر شہرسے جو نقصان دہ چیز گاؤں
والوں(پینڈؤں)کوپریشان کرتی ہے وہ ہے احساس کمتری ۔شہر والے گاؤں والوں کو
پینڈوکہہ کر احساس کمتری کا شکار کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔دوسری طرف
شہر میں بسنے والے اپنے کچن میں غور کریں تو اُن کومعلوم ہوگا کہ وہاں پڑی
تمام کھانے والی صحت بخش اشیاء گاؤں سے آتی ہیں۔جن میں پھل،گندم ،سبزیاں ،گوشت،دالیں
اور دودھ بھی شامل ہیں یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر شہری آبادی زندہ نہیں
رہ سکتی،جبکہ شہر سے گاؤں جانے والی اشیاء کی اکثریت کے بغیر پینڈو زندہ رہ
سکتے ہیں ۔جو لوگ ہمارے لئے دن رات محنت مشقت کرتے ہیں ،ہمارے لئے صحت بخش
پھل،سبزیاں،دالیں ،گوشت اوردودھ کی پیداور کے ساتھ دیگر کئی چیزوں کی فصل
اُگاتے ہیں،جن میں ہمارے گھرو دفتر کو خوبصورتی کے ساتھ سجانے والی لکڑی
بھی شامل ہے، وہ کیسے کم عقل ،جاہل اور بے وقوف ہوسکتے،مٹی میں مٹی ہوکر جو
لوگ ہمارے لئے زندگی کا سامان تلاش کرتے ہیں ہم اُن کوکم تر سمجھ کر کہاں
کی عقل مندی کا ثبوت دیتے ہیں ،پینڈو کے میلے کپڑے دیکھ ہم اکثر وہ عزت اور
مقام نہیں دیتے جس کے وہ حقدار ہیں۔شیخ سعدیؓ کا قول ہے کہ رتبہ لباس سے
نہیں علم سے ہوتا ہے ،پینڈو کے علم کاپیمانہ ناپنا ہے تو پھر وہ سارے کام
کرکے دیکھیں جو پینڈوبڑی مہارت کے ساتھ کرتا ہے،بھینس پال کر صرف اپنے
خاندان کیلئے دودھ حاصل کرکے دیکھیں،اپنے کچن کیلئے سبزیاں،دالیں اور مصالہ
جات اُگا کر دیکھیں،اپنے لیے صحت بخش پھلوں کے باغات اُگاکر دیکھیں،اپنے
گھر اور دفتر کو خوبصورت بنانے کیلئے لکڑی کی پیداوار حاصل کرکے دیکھیں ،یقین
کریں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ پینڈو خود سہولیات سے دور رہ کر ہماری
زندگیوں میں کس قدر آسانیاں پیدا کرتا ہے،تپتی دوپہروں میں فصلوں کی دیکھ
بھال کرتاہے رات کے اندھیرے میں زہریلے جانوروں کی موجودگی میں فصلوں کو
پانی دیتا ہے۔آپ غور کریں کوئی جاہل بھلا کس طرح صحت بخش پھل،سبزیاں او
دالیں اُگاسکتا ہے،کوئی کم عقل کس طرح دودھ اور گوشت کی پیداور حاصل کرسکتا
ہے ،پھر بھی پینڈو کم عقل اور جاہل تصور کیا جاتا ہے توپھر راقم یہ کہنے
میں حق بجانب ہے کہ شہری لوگ میلے کچیلے،جاہل اور کم عقل پینڈوکی پیدا کردہ
کوئی چیز استعمال نہ کریں تاکہ پینڈو کی جہالت ہمارے لئے کسی خطرے کا باعث
نہ بن سکے - |