دنیا میں ہر چیز بدل رہی ہے اور بدل گئی ہے مگر اس ملک
میں بہت سے لوگوں کی قمست نہ بدلی ہے اور شاید نہ ہی بدلنے کے کوئی محرکات
نظر آتے ہیں۔ روز ایک نئی داستان، روز ایک نیا قصہ سن سن کر طبیعت پریشان
ہوتی ہے مگر ایسے بھی لوگ ہیں جو بے حس ہیں۔ جو ان داستانوں کے محرک ہیں جو
ان قصوں کا حصہ ہیں مگر ان پر کوئی اثر نہیں۔
چھوٹا سا ایک بچہ کسی جگہ کام کر رہا تھا پوچھا بیٹا کہاں کے رہنے والے ہو؟
بولا یہیں رہتا ہوں۔ میں نے دوبارہ سوال کیا ،بیٹا تمہارا گھر کہاں ہے؟ ماں
باپ کہاں رہتے ہیں؟ کام چھوڑ کر میرے قریب آ گیا۔ آپ لگتا ہے بہت سے سوال
کرنے کے موڈ میں ہیں۔ میں ایک ہی دفعہ ساری باتیں بتا دیتا ہوں امید ہے
مزید سوالوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ عمر
شاید آٹھ یا نو برس ہو گی۔ لہجے میں بلا کی خود اعتمادی تھی۔ حالات نے شاید
اسے وقت سے پہلے ہی بہت کچھ سکھا دیا تھا ۔بڑی روانی سے بولنا شروع ہوا۔
جناب میں بہت چھوٹا تھا مجھے کچھ ہوش نہ تھی جب میرا باپ فوت ہو گیا۔ ہم دو
بھائی تھے۔ میں چھوٹا تھا کچھ عرصے بعد ماں نے دوسری شادی کر لی۔ نیا باپ
انتہائی ظالم تھا مجھے ،میرے بڑے بھائی اور ماں سب کو مارتا تھا۔ ایک دن
بڑا بھائی گھر سے بھاگ گیا۔ بہت ڈھونڈا اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ شروع میں
ماں اسے یاد کر کے روتی رہی پھر بظاہر ہر چیز ٹھیک ہو گئی مگر میرے سوتیلے
باپ کی مار پیٹ کی عادت نہیں بدلی۔ پھر ایک دن ماں بھی کسی کے ساتھ بھاگ
گئی۔ اب میں تھا اور میرا سوتیلا باپ۔ ایک ورکشاپ والے نے کچھ روپے دے کر
مجھے میرے باپ سے خرید لیا اور کسی دوسرے شہر لے آیا۔ وہ ورکشاپ والابھی
بہت ظالم تھا۔مجھے روز مارتا تھا۔ دو سال پہلے جب مجھے ایک دن مار پڑی تو
میں روتا ہوا ایک طرف بیٹھ گیا۔ ورکشاپ کے قریب کسی دوسرے شہر سے کوئی
بارات آئی ہوئی تھی جب وہ بارات بس میں بیٹھ کر واپس جانے لگی تو میں بھی
بس میں بیٹھ گیا۔ وہ بس مجھے اس شہر میں لے آئی۔ دو دن آوارہ پھرنے کے بعد
میں یہاں کام کرنے لگا۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں کس شہر میں پیدا ہوا،
کہاں پلا، میرے باپ کا نام کیا تھا، میری ماں اب کہاں ہے، میرا بھائی کس
حال میں ہے، وہ کبھی نظر بھی آئے تو ہم ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے۔ میں
سوچوں میں گم تھا اس نے ہنس کر مجھے آنکھ ماری۔ کوئی اور سوال؟ اس سے اب
کیا سوال۔ اس کی زندگی تو ہمارے معاشرے کے لئے ایک سوال ہے جس کا اس معاشرے
کے پاس فی الحال کوئی جواب نہیں۔
ایک بچی سے ملاقات ہوئی اس کی عمر تقریباً اٹھارہ سال ہے خاوند سے جھگڑ کر
ماں باپ کے گھر بیٹھی ہے۔ بہت اداس ہے۔ خاوند کے پاس جانا چاہتی ہے مگر جا
نہیں سکتی۔خاوند بھی اسے لے کر جانا چاہتا ہے مگر بے بس ہے۔ کمزور ہے ۔ساس
سسر گھر میں اس کی موجودگی برداشت نہیں کرتے۔ مگر کیوں؟ میں نے اس سے سوال
کیا۔ وہ کہتے ہیں ہم بے غیرت نہیں کہ تمہیں گھر لے آئیں مگر اس میں غیرت کی
کون سی بات ہے؟ میرے پوچھنے پر اس نے تفصیل سے ساری کہانی سنائی۔
وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ وہ ساتویں میں پڑھتی تھی اور سب سے بڑی تھی۔ اس کا
باپ ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی اس کے باپ
کوفیکٹری میں کام کرنے والی اپنی ایک ساتھی لڑکی سے پیار ہو گیا اور اس نے
پہلی بیوی یعنی اس کی ماں کی موجودگی میں اس لڑکی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر
لیا۔ لڑکی تیار تھی مگر اس کے ماں باپ کو لڑکی کے بدلے اپنے بیٹے کے لئے
بھی ایک لڑکی کی ضرورت تھی۔ قرعہ فال اس کے نام نکلا۔ باپ نے نئی بیگم کے
بدلے ساتویں کلاس میں پڑھنے والی بیٹی قربان کر دی۔ اب وہ سسرال میں تھی
اور اس کے باپ کے گھر میں اس کی دو بیویاں۔ ایک پرانی بوڑھی عورت اور ایک
نئی نویلی جوان لڑکی۔ دو بیویاں ہوں تو لڑائی جھگڑا معمول ہوتا ہے۔پھر جوان
بیویوں کے اپنے مسائل ہیں۔ جب بھی اس کی نئی ماں اس کے باپ سے لڑتی اور اسے
چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس پہنچ جاتی اسے بھی واپس اپنی ماں کے پاس آنا
پڑتا۔وٹے سٹے کی شادی تھی۔ کبھی ہفتہ کبھی دو ہفتے ۔یہ ایک معمول تھا۔ اس
کا خاوندکچھ بے حس بھی تھا اور کچھ ماں باپ کے ہاتھوں مجبور کہ اس کا بس
نہیں چلتاتھا۔ اس دفعہ معاملہ کچھ طول پکڑ گیا ہے۔ اس کی نند یا سوتیلی ماں
پچھلے تین ماہ سے واپس گھر آنے کو تیار نہیں ۔ اسے علیحدہ گھر کی ضرورت ہے
جو قلیل آمدن میں اس کے باپ کے بس کی بات نہیں اس لئے وہ بھی اپنے ماں باپ
کے گھر بیٹھی ہے۔ اس کے شوقین مزاج باپ کو کوئی پرواہ نہیں۔ اس کی دو سال
کی بچی باپ کے بغیر روتی ہے تو وہ اور پریشان ہو جاتی ہے مگر وٹے سٹے کی
شادیوں میں یہ کھیل تو ایک معمول ہے۔
وٹے سٹے ایک اور شادی مجھے یاد ہے۔ وہ بہت معصوم اور سادہ تھی۔ اس کا دور
کا رشتہ دارایک نوجوان کچھ ضدی اور نیم پاگل تھا۔ اسے جو چیز پسند آتی حاصل
کر لیتا یا توڑ پھوڑ دیتا۔ اتفاق کی بات اس نیم پاگل کو یہ پسند آ گئی۔ عمر
میں بیس سال کا فرق تھا۔پورا گاؤں اس پاگل کی عادت سے واقف تھا اور اس سے
بچنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس پاگل کی خواہش پر اس معصوم کی منگنی اس کے ساتھ
ہو گئی اور بدلے میں اس کے بھائی کی شادی اس کی بہن سے طے ہو گئی۔ وہ وحشی
تھا۔ جب چاہتا شادی سے بہت پہلے بھی اسے بلا لیتاتھا اور جو چاہتا سلوک
کرتاتھا۔ وہ واقعی اس سے پیار کرتا تھا مگر اسے اپنے وحشی پن پر قابو نہ
تھا۔ شادی سے دو دن پہلے کسی جھگڑے کی وجہ سے پولیس اسے پکڑنے آئی مگر وہ
فرار ہو گیا اور یوں یہ شادی وقت پر نہ ہو سکی۔ اس کا بھائی البتہ اپنی
دلہن لے آیا۔ پندرہ دن بعد اس وحشی نے کسی مخالف کو قتل کر دیا اور فرار ہو
گیا۔ اب شادی کی کوئی صورت باقی نہ تھی۔ اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ ایک
ناجائز بچے کی بہت جلد ماں بننے والی ہے۔ والدین اس کے سسرالیوں کے پاس
پہنچ کر روئے پیٹے۔وٹے سٹے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ رشتہ صرف ایک طرف سے ہو۔
سسر نے فوراً اس کی شادی اپنے بڑے بیٹے سے کر دی۔ چند دن بعدچھوٹے بھائی کا
جو وحشی بھی تھااور مفرور بھی پیغام ملا کہ وہ نئے شادی شدہ جوڑے کو مار دے
گا۔ کیونکہ وہ عورت جس نے اس کی بیوی بننا تھا وہ کسی اور کی بیوی کسی صورت
نہیں بن سکتی چاہے و ہ اس کا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ ماں باپ نے ڈر کر انہیں
شہر بھجوا دیا جہاں وہ چھپ کر رہ رہے ہیں۔ ان کا ماں باپ یا گاؤں سے کوئی
رابطہ نہیں۔ پہلی بیٹی ،جو حقیقت میں وحشی اور نیم پاگل بھائی کی اولاد ہے،
کی عادات بھی باپ پر ہیں۔ میاں بیوی کے دو اور بھی بچے ہیں۔ پہلی بیٹی
بظاہر بالکل نارمل ہے مگر چھوٹے بہن بھائیوں کو پرے ہٹانے کے لئے بالوں سے
اٹھا کر پھینک دیتی ہے۔ ان کے جسم پر پیر رکھ کر گزر جانا اس کے لئے معمولی
بات ہے۔ کیا کریں کسی کو بتا بھی نہیں سکتے اس کے علاج کے لئے گھر سے باہر
نکلیں یا گاؤں والوں سے رابطہ کریں تو نیم پاگل بھائی کے ہاتھوں قتل کا
اندیشہ ہے اور گھر میں سارا دن اس کی بیٹی انہیں پریشان رکھتی ہے۔ جوان
لڑکی جس کی عمر تقریباً سولہ سترہ سال ہو گی، اپنے بوڑھے خاوند کے ساتھ جو
اس سے پچیس سال سے زیادہ بڑا ہے، اس گھٹے ماحول میں رہنے پر مجبور ہے کہ
وٹے سٹے کی شادیوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
ایسی بہت سی داستانیں ہر روز اور ہر جگہ نظر آتی ہیں جو سراسر المیے ہیں ۔
حقوق نسواں کے علم برداروں کے لئے ایک چیلنج۔ مگر کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم نے
تعلیم کے فروغ میں جس کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں
اور شاید بہت عرصے تک بھگتتے رہیں گے۔ |