بنت حوا کھلونا نہیں!

ریاست کی طرف سے اپنے شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کی طرح اس کی عزت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی عاید ہوتی ہے۔

کسی کی طرف سے اگر کسی کا جان یامال غصب کیا جاتا ہے، تو یہ ایک سنگین جرم ہے۔ اس کے باوجود ملزم کی طرف سے اس فعل کو کسی طرح جواز دے دیا جاتا ہے، کہ اس نے شدید مجبوری یا اضطراب میں اس کا ارتکاب کیا، لیکن کسی کی آبرو پر وار کرنے والے کے پاس اس کے سوا کوئی جواز نہیں ہوتا کہ وہ انسانیت کے آخری زمرے سے بھی نکل چکا ہے۔

قوانین کے مطابق زنابالجبر کے مجرم کی سزا عمر قید ہے۔ یعنی زیادہ سے زیادہ 24 سال قید۔ یہ عرصہ دن رات ملا کر 12 سال ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس درندگی کے مرتکب شخص کو سرعام پھانسی دی جائے، تاکہ آئندہ کوئی ’’گدھ‘‘ کسی کی زندگی کو نوچنے کی ہمت نہ کر سکے۔

کچھ دن پہلے آبروریزی کے حوالے سے بنائے گئے قانون میں ترمیم کا ایک بل سینیٹ میں پیش کیا گیا، جس کے تحت جنسی زیادتی کے مقدمات میں ناقص تفتیش پر بھی سزائیں تجویز کی گئیں۔ اس تجویز کو قانون کی شکل اختیار کرنی چاہیے، مگر سزا تو آپ اس وقت تجویز کریں، جب ان پر عمل درآمد کیا جا رہا ہو، یہاں تو جرم ثابت ہی نہیں ہوتا۔

انسدادِ زنابالجبر کے ترمیمی بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ تھانے، اسپتال، دارالعلوم اور فلاحی اداروں سمیت کسی بھی جگہ کوئی سرکاری اہل کار اپنے زیر نگرانی کسی خاتون یا کسی بھی شخص کے ساتھ زنا بالجبر کا مرتکب ہو تو اسے سزائے موت کی عمرقید کی سزا دی جائے۔ اس بل میں کم عمر بچوں اور حاملہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے اہل کاروں کے لیے بھی موت یا عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ ترمیمی بل میں اجتماعی زیادتی کے مرتکب ایسے اہل کار جن کے عزائم مشترک ہوں، کے لیے بھی یہی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ یہ بل کہتا ہے کہ اس مظلوم عورت یا متاثرہ شخص کا نام ظاہر نہ کیا جائے اور نہ ہی اخبارات میں شایع کیا جائے۔ ایسا کرنے والے کو دو سال قید یا جرمانے کی سزا دی جائے۔ ساتھ ہی زنابالجبر کے مقدمے میں بطور تفتیشی افسر فرائض میں کوتاہی اور عدالت میں مقدمے کی مناسب پیروی نہ کرنے کے عمل کو جرم مانا جائے۔ ایسی کوتاہی کے مرتکب اہل کاروں کو تین سال کی سزا دی جائے اور ان پر جرمانہ عاید کیا جائے۔ ترمیمی بل کے اس مسودے کے تحت عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ مقدمے کی کارروائی مکمل کر کے چھ ماہ کے اندر فیصلہ سنائیں۔ تاخیر کی صورت میں متاثرہ شخص کو متعلقہ ہائی کورٹ میں مقدمہ جلد نمٹانے کے لیے درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا ہے۔

اس بل میں شامل تجاویز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ درندگی کا شکار خاتون قانون کی مدد لینا چاہے تو تھانوں اور تفتیش گاہوں میں بھی وہ شدید عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسی خواتین چپ سادھنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں۔ اس لیے متاثرہ خواتین کے اس خوف کے تدارک کی ضرورت ہے، تاکہ مظلوم عورت بلاخوف و بلا جھجک قانون کے دروازہ کھٹکھٹا سکے۔ ساتھ ہی ایسے مقدمات کا کم سے کم وقت میں فیصلہ بھی نہایت ضروری ہے، تاکہ متاثرہ خواتین کو خود کے تماشا بننے کا احساس نہ ہو۔

ان تجاویز کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اس مکروہ ترین فعل میں ملوث افراد کے لیے بھی سزائے موت کا قانون بنایا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں قوانین تو بہت بنائے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل کم ہی ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ قوانین بنانے اور انہیں موثر طور پر لاگو کرنے کے ساتھ کچھ اور اقدام بھی کیے جائیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد ایک فرد جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے، جب کہ ہر چار سے آٹھ دنوں میں اجتماعی زیادتی کا ایک واقعہ سامنے آتا ہے۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو درج کیے جاتے ہیں۔ واقعے کا سامنے نہ آنا یا متاثرہ خاتون کا خاموش رہنا بھی جرم کو چھپانے میں کردار ادا کرتا ہے۔

ہمارے ہاں آج بھی مرد کو عورت سے برتر سمجھا جاتا ہے۔ بالخصوص وڈیرانہ اور جاگیردارانہ ذہنیت کے لوگ جب اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں تو وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کا جرم ثابت نہیں ہو سکے گا اور ہوا بھی تو وہ اپنے اثر رسوخ کی بنا پر سزا سے بچ نکلیں گے۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر کھل کر بات نہیں ہوتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین میں اس حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے، اور انہیں اس حوالے سے باخبر کیا جائے۔ دوسری طرف ماہرین اس گمبھیر ہوتی صورت حال کی وجہ، اس جانب مائل کرنے والے ابلاغی مواد کو بھی ٹھہراتے ہیں۔ بالخصوص انٹرنیٹ اور دیگر مطبوعہ، سمعی و بصری مواد پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ نفسیات و عمرانیات ان جرائم کی طرف اُکسانے کے لیے ان چیزوں کو بھی بہت زیادہ ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں سائنسی بنیادوں پر اس امر کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ کہیں حقوق نسواں کی کوئی راہ تو بالواسطہ یا بلاواسطہ بنت حوّا کے اس استحصال کی وجہ نہیں بن رہی۔ یہ ایک سنگین ہوتا معاشرتی مسئلہ ہے۔ اس سے کسی طور نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 286553 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.