عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ
میں بتایا گیا ہے کہ ہر سیکنڈ بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے ۔عالمی ادارہ صحت
کے ڈائریکٹر شیکھر سکسینا کے بیان کے مطابق سالانہ پرتشدد واقعات مین پندرہ
لاکھ افراد موت کا شکار ہوتے ہیں۔جن میں آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرنے والے
ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ خودکشی کے واقعات میں
اضافہ کا باعث معروف شخصیات کی خودکشی کو بڑے پیمانے پر میڈیا کوریج بن رہی
ہے۔
خودکشی کے واقعات پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
ان واقعات کی وجوہات میں لوگوں کی قلیل آمدن اور ضروریات زندگی کے حصول میں
ناکامی ہے۔ خودکشیاں غریب ممالک میں ہی نہیں ہورہیں ،اس بیماری اور وباء نے
ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر
ممالک بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے چشم کشا کا
درجہ رکھتی ہے۔دنیا پر اپنی حکمرانی کے قیام کے لیے کوشاں عالمی طاقتوں کی
یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سالانہ آٹھ لاکھ افراد کا کودکشی کے ذریعہ اپنی
زندگیاں ختم کرنے کے راستوں میں سپیڈ بریکر تعمیر کریں۔یہ سپیڈ بریکر کیسے
قائم کیے جا سکتے ہیں؟ یہ مجھے عالمی طاقتون کے کارپردازوں کو بتانے کی
چنداں ضرورت نہیں ہے ۔میرا انہیں بتانا تو ایسے ہی ہے جیسا سورج کو چراغ
دکھانے والی بات ہے۔
خودکشی جیسے واقعات کی روک تھام کے سلسلے میں کوئی بڑی لمبی چوڑی جدوجہد
کرنی کی ضرورت نہیں ہے ۔کہ جس سے ان عالمی طاقتوں کی اپنی حکمرانیاں خطرے
سے دوچار ہو جائیں۔یہ بس اتنا کام کریں کہ اپنی دنیا بھر پر حکمرانی قائم
کرنے کی سوچ کو دفن کردیں ،آپ بھی پوچھیں گے کہ اس سے کیا فرق پڑے گا؟ ایسا
کرنے سے فرق یہ پڑے گا کہ عالمی طاقتوں کو اپنی لمبی چوڑی فوجیں رکھنے سے
چھٹکارہ مل جائیگا۔اورپھر انہیں مہلک ہتھیاروں کی تیاری پر کھربوں ڈالر خرچ
نہیں ہوں گے۔
فوجی ہتھیاروں کو محدود کرنے کے باعث جو کھربوں ڈالر کی بچت ہوگی انہیں یہ
عالمی طاقتیں اپنے اپنے ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے عوام کوخودکشیاں
کرنے پر آمادہہونے والے عوام کے دکھ درد باٹنے اور انہیں کم کرنے پر خرچ
کرنے کی سعادت حاصل ہوگی۔ فوجی اخراجات میں کمی سے بچنے والے کھربوں ڈالر
خودکشی کا باعث بننے والے عوامل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر خرچ ہوں گے۔اس
طرح عالمی طاقتیں دنیا بھر کے غریب عوام کے دل جیت لیں گے اور انکے دلوں
میں بھی گھر کر لیں گے۔جس سے دنیا بھر کے عوام کے دلوں پر ان کا راج قائم
ہوگا۔
اکیلا بل گیٹس ہی دنیا بھر سے خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے میں
کافی حد تک معاون اور مددگار ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آج سے چند برس قبل تک دنیا
کے 43 ترقی پذیر ممالک کے بجٹ کے برابر اسکی دولت تھی۔ گو بل گیٹس آج بھی
دنیا سے پولیو کے ختم کے لیے سرگرم ہے ،اور اکیلا ہی پولیو کی ویکسین دنیا
بھر میں مفت تقسیم کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بل گیٹس کے بعد دوسرے اور
تیسرے نمبر پر آنے والے دولت مند بھی دنیا میں لوگوں کو خودکشیوں جیسے
تکلیف دہ عمل پر آمادہ کرنے والے عوامل کے خاتمے میں موثر کردار ادا کرسکتے
ہیں۔یہ تو دنیا کے امیر ترین اشخاص کی بات ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم سب
اپنے اردگر کے حالات پر نگاہ ڈال لیا کریں تو خودکشی کرنے کا رجحان ختم کیا
جاسکتا ہے۔ہمارا دین مبین کہتا ہے کہ۔رات کو سونے سے قبل اس بات کا اطمینان
حاصل کرلیا کرو کہ تمہارے ہمسائے میں کوئی انسان بھوکا تو نہیں سویا……لیکن
اس کے لیے شرط اول یہ ہے کہ ہمیں سچا مسلمان بننا ہوگا کیونکہ دو نمبر کے
مسلمان کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔
پاکستان میں سالانہ خودکشیوں کے ذریعے اپنی زندگیاں ختم کرنے والوں کی
تعداد دوہزار دس میں ایک لاکھ تھی۔ ماہرین خودکشیوں کے طرف بڑھتے ہوئے
رجحان میں اضافہ کو اقتصادی عدم استحکام سے جوڑتے ہیں۔میرے ذاتی مشاہدے کی
بات ہے کہ خودکشیاں کرنے والوں میں اکثریت نوجوان طبقہ کی ہے۔جو ایک
انتہائی خطرناک بات ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں خودکشیوں کے
اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے اور اس معاملہ میں
تاخیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی۔کیونکہ دوہزار تیرہ میں اس رجحان میں
بڑی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اور روز بروز اس میں اضافہ ہی اضافہ
ہورہا ہے۔ جو ایک خطرے کاالارم ہے۔ |