دفاع تو پرندے بھی اپنے گھونسلوں
کا کرتے ہیں وہ بھی حملہ آور سے لڑتے لڑتے لہو لہان کیوں نہ ہو جائیں۔لیکن
اپنے گھر کے دفاع کے لئے اپنی طاقت کی آخری حد اور ہر طرح کا حربہ استعمال
کر دیتے ہیں۔کیونکہ اپنا گھر اپنی دھرتی سب کو ہی پیاری ہوتی ہے۔اور چاہے
وہ انسان ہو یا چرند پرند کسی دشمن کاغاصبانہ قبضہ برداشت نہیں کرتا۔
6 ستمبر ہر سال پاکستان میں یومِ ِدفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔کیونکہ 6
ستمبر1965 ء کو بھارتی فوج نے جب پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا تو ہماری
پاک فوج نے اپنی سرزمین کا بڑی کامیابی سے دفاع کیا اور دشمن کو یادگار
شکست دی۔ دراصل اس دن بھارت کے فوجی افسران کا ناپاک ارادہ تھا کہ وہ لاہور
پر قبضہ کر کے صبح کا ناشتہ لاہور کے جم خانہء کلب میں کریں گے۔لیکن ہماری
آرمی نے ان کا یہ خواب ایک خواب ہی رہنے دیااور اپنی دھرتی کے دفاع کے لئے
بے مثال کردار ادا کیا۔ ہر سال اس دن کو اسی فتح کا جشن جوش وجذبہ سے منایا
جاتا ہے۔اور تمام دنیا کو ایک پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کی
حفاظت کرنا اور اپنی دفاعی طاقت زمانے سے منوانا جانتے ہیں۔بھارت جس نے
کبھی بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔اور آج بھی وہ کسی نہ
کسی طرح اسے نقصان پہنچانے کی طاق میں رہتا ہے۔مگر ہر دفعہ اسے اپنی جارحیت
کا منہ توڑ جواب ہی ملتا ہے۔کیونکہ مادرِوطن کے وقار،قومی سلامتی اور
سرحدوں کی حفاظت پر نہ کسی قسم کا سمجھوتہ اور نہ ہی کسی قربانی سے دریغ
کیا جائے گا ۔جنگیں ہمیشہ جذبوں کے ساتھ ہی لڑی جاتی ہیں اور ہماری قوم کا
جذبہ تو پوری دنیا میں بے مثال ہے ۔ہم تو بغیر ہتھیاروں کے بھی دلیری کے
ساتھ میداں میں اترنے والی قوم ہے۔یوں ہی تو اقبال نے نہیں کہا تھا ۔ کہ
کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ۔مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے
سپاہی۔اور اس کی مثال سن پینسٹھ کی جنگ میں ملتی ہے۔ہمارے فوجی جوان جو کہ
شجاعت کے ذندہ نشان ہیں۔اپنے سروں پر کفن باندھے ہمیشہ اس وقت کے انتظار
میں رہتے ہیں کہ جب انہیں وطن کی خاطر اپنے خون کے آخری قطرے تک کا نذرانہ
پیش کرنا پڑے گا۔کیونکہ شہادت ہی ہمارے ہر سپاہی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی
ہے۔اور ویسے بھی اس وطن کی بنیادوں میں شہدا کا لہو آج بھی تازہ دم ہے کہ
جس کی خوشبو پوری دھرتی میں مہک رہی ہے۔
پاکستان کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ یہ ایک پسماندہ ملک ہونے کے باوجود ایٹمی
صلاحیت سے مالا مال ہو گیا ہے ۔اور یوں ہماری اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت
پہلے سے دس گنا بڑھ گئی ہے۔اور ہماری اسی صلاحیت کی وجہ سے آج دنیا کے کئی
غیر مسلم ممالک ہم سے کینہ و بغض رکھتے ہیں۔پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا
سہرہ ڈاکٹر عبد القدیر کے سر ہی سجتا ہے کہ جنہوں نے اپنی قابلیت کو بروًے
کار لاتے ہوئے اس وطن عزیز کو دفاعی صلاحیت بخشی ۔اگر تا ریخی پسِ منظر
دیکھیں تو پاکستان ۸۰ء کی دہائی میں ہی ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا
تھا۔لیکن کسی حکمت ِ عملی کے تحت اس بات کو صیغہ راز میں رکھا گیا ۔لیکن
پھر ایک وقت ایسا آگیا کہ جب انڈیا کا اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا گھمنڈ آخری
مقام تک جا پہنچا اور وہ جارحیت کی تمام حدیں پار کر گیا ۔تو پھر بلا آخر
۲۸ مئی ۱۹۹۸ء کو چاغی کے مقام پر پاکستانی سائنسدانوں نے ایٹمی دھماکے کر
کے انڈیا کے غرور کو مکمل دفن کر دیا۔پاکستان نے ان تک میزائل ٹیکنالوجی
میں بھی کافی ترقی کر لی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی والے میزائل پاکستان کے
اسلحے کی زینت بن چکے ہیں۔جو ہندوستان کے کسی بھی شہر کو مار کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔یعنی اب پورے انڈیا کا کوئی بھی شہر ہمارے شکنجے سے باہر
نہیں۔
اگر انسان کسی دوسرے ملک میں گیا ہو اور اسے وہاں رہتے چاہے زندگی کا ایک
خاصہ عرصہ ہی کیوں نہ بیت گیا ہو۔لیکن اگر اس ملک میں جنگ چھڑ جائے تو اس
بندے کی کوشیش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی سرزمیں کی طرف بھاگے
کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی دھرتی ماں اسے اپنی پر امن آغوش میں سما
لے گی۔لیکن اگر جنگ اپنے وطن میں ہو تو یہاں سے دوسرے ملکوں کو فرار ہونے
والوں کی تعداد بہت کم ہو تی ہے۔کیونکہ ہماری قوم کا ہر فرد اپنے ملک کو
اپنی جان کا تحفہ پیش کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔دراصل جو شخص اپنی ماں
بولی، اپنی دھرتی اور اپنی تہذیب کو عزت دیتا ہے حقیقت میں وہ خود کو عزت
دے رہا ہوتا ہے۔میں نے ایک جگہ یہ بہت ہی خوبصورت جملہ پڑا تھا کہ۔Love or
Leave Pakistan.۔یعنی پاکستان سے پیار کرو یا اسے چھوڑ جاوً۔اور ہونا بھی
ایسا ہی چاہیے کہ کیوں بندہ اس وقت تک اپنے وطن کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا
کہ جب تک اس کے دل میں اس کے لئے محبت نہ ہو۔اورہر بیرون ملک میں جانے والے
سے یہ مراد نہیں ہوتا کہ وہ پاکستان سے پیار نہیں رکھتا بلکہ اس کے معاشی
حالات اس کو بیرون ملک جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔کاش کہ ہمارے ملک سے تمام
خامیاں اور کمیاں ایسی دور ہو جائیں کہ کوئی کسی دوسرے ملک میں جانے کا
تصور بھی نہ کرے۔اب بھی ہزاروں ایسے لوگ ہیں کہ جن کے پاس یورپ کی نیشنلٹی
تو ہے مگر ان کے دل پاکستا ن کے لئے ہی دھرکتے ہیں۔
پاکستان اپنے دفاع کے لیے سا لانہ 700 بلین سے بھی زیادہ خرچ کر رہا ہے۔جو
کہ سالانہ بجٹ کا ایک اچھا خاصہ حصہ ہے۔ پچھلے تین چار سالوں کی نسبت اس
سال ہمارے دفاعی اخراجات ڈبل ہو چکے ہیں اور ہر سال اس میں بتدریج اضافہ
ہوتا جا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں دفاعی طور پر مظبوط ہونا اشد
ضروری ہے۔اسی طرح بھارت بھی اپنے بجٹ کا خاصہ حصہ لیکن یہ بھی مد نظر رکھیں
کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔اسے دہشتگردی اور بیرونی خطرات کے علاوہ اور
بہت سے اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔جیسے غربت،بیروزگاری ، تعلیم اور صحت کی
سہولیات کا فقدان۔اگر دفاع کے لیے بجٹ کم کر کے وہی پیسہ اگر ان مسائل کو
حل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو یقینا پاکستان جلد ہی پسماندہ ممالک کی
فہرست سے باہر نکل آئے گا۔ہمیں مزید محب وطن ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔آخر
میں ان تمام شہدا کی روح کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے جنگوں میں اس
وطن کی بقاء کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ |