دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک
میں آپکو ایک مشترکہ خوبی بڑی نمایاں نظر آئے گی وہ یہ کہ وہاں کی خواندگی
کی شرح بہت قابل تعریف ہوتی ہے۔اور یہ بات ہی ان کی کامیابی کا راز ہے
کیونکہ تعلیم حاصل کئے بغیر انسان کبھی بھی معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔زمانہء
جاہلیت کے لوگ اس لئے ہی پسماندہ اور مشکل ذندگی گزارتے تھے کہ وہ تعلیم سے
کوسوں دور رہتے تھے۔ان میں تعلیم کی افادیت کا شعور ہی نہیں تھا ۔لیکن وقت
گزرنے کا ساتھ ساتھ جب کچھ ممالک کے لوگ بحرالعلم کے ساحل پر پہنچے اور آبِ
تعلیم سے خود کو سیر کیا ۔تو بس پھر انہوں نے فن اور صنعت کی دنیا میں ایسے
جوہر دکھائے کہ انسان کو فرش سے اٹھا کر فضاوًں تک پہنچادیا۔نئی ٹیکنالوجی
سے دنیا کو متعارف کروایا اوراپنی ذندگی کو سہل بنایا۔یعنی اس سے معلوم ہو
اکہ تعلیم ہی واحد ماسٹر چابی ہے جو انسانی شعور کے بند دریچوں پر لگے
قفلوں کو کھولتی ہے۔
"World Literacy Day" خواندگی کا عالمی دن ہر سال 8 ستمبر کو دنیا کے
تقریباً تمام ممالک میں منایا جاتا ہے۔اس کو منانے کا اعلان unesco نے
نومبر 1965 ء میں کیا تھا اور پھر یہ دن پہلی مرتبہ 1966ء میں منایا گیا ۔اس
دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں خواندگی کی اہمیت کو اجا گر کرنا
ہے۔خواندگی جو کہ پڑھنے اور لکھنے کی قابلیت کا نام ہے۔ تمام دنیا میں اس
وقت تقریبا 775 ملین افراد ایسے ہیں جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ۔اور ان میں
دو تہائی تعداد خواتین کی ہے۔لیکن آج دنیا کا ہر ملک خاص طو رپر کم ترقی
یافتہ ممالک اپنی شرح خواندگی کو بڑھانے کی ہر تئیں کوشیش میں مصروف
ہیں۔پسماندہ ممالک میں پست معیارِ ذندگی کو ناخواندگی اور تعلیمی سہولتوں
کے فقدان سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔لیکن آج تو تعلیم پر خاصی رقوم خرچ
کی جارہی ہے۔دراصل کم ترقی یافتہ ممالک میں ایک تو آبادی کا تناسب بہت
ذیادہ ہے اور دوسرا آبادی کا بڑا حصہ غربت کا شکار ہے۔اور یہ ہی چیز
ناخواندگی کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔اب پاکستان میں خواندگی کی صورتِ حال کا
جائزہ لیں توپاکستان میں خواندگی کی شرح مجموعی طور پر پچاس سے ساٹھ
فیصدہے۔Unicef کی ایک رپورٹ کے مطابق اب بھی 65 لاکھ سے بھی ذیادہ بچے صرف
پرائمری تعلیم ہی حاصل کرنے کے لئے سکول نہیں جاتے ۔یعنی پاکستان میں ہر 10
میں سے 3 بچے سکول میں داخلہ ہی نہیں لیتے۔اور سکول نہ جانے والے بچوں میں
ذیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ایک اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں38%لڑکیاں
سکول نہیں جاتیں اور لڑکوں میں یہ شرح 30% ہے۔
اب پاکستان میں تعلیم اداروں کی تعداد کا جائزہ لیں تو اس وقت پاکستان میں
سرکاری و نجی یعنی کل تعلیمی اداروں کی تعداد 270,825 دو لاکھ ستر ہزار آٹھ
سو پچیس کے قریب ہے۔اور کل اساتذہ کی تعداد 15,8000 پندرہ لاکھ آٹھ ہزار
ہے۔اور سٹوڈنٹس کی تعداد تقریبا 4 کڑوڑ ہے۔اور ان سٹوڈنٹس کا جنس کے لحاظ
سے جائزہ لیں تو 58%فیصد میل سٹوڈنٹس اور 42% فی میل سٹوڈنٹس ہیں۔
اور تعلیمی اداروں میں72% سرکاری اور 28% پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں۔اور 26
ملین سٹوڈنٹس سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 14 ملین
سٹوڈنٹس پرائیویٹ میں۔اور اب اگر اساتذہ کی تعداد کے لحاظ سے تعلیمی اداروں
کا موازنہ کیا جائے تو 58%اساتذہ سرکاری اور 42% اساتذہ پرائیویٹ اداروں
میں تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ان کل اساتذہ میں 45% مرد اور 55%
عورت اساتذہ ہیں۔پاکستان میں کل سرکاری و نجی 135 یونیورسٹیاں ہیں۔ان میں
76 سرکاری اور 59 پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔اور ٹیکنیکل یا پیشہ وارانہ
تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں اس وقت ٹوٹل3224 تکنیکی تعلیمی
ادارے ہیں جن میں 976یعنی 30% سرکاری اور2257 (70%)پرائیویٹ ادارے ہیں۔
پاکستان میں ناخواندگی اس لئے بھی ہے کہ بچے سکول میں داخلہ تو لے لیتے ہیں
لیکن اپنا تعلیمی کیرئیر جاری نہیں رکھ پاتے۔ان میں پڑھنے کا شوق نہیں ہوتا
چنانچہ فیل ہو جاتے ہیں۔اور یوں ان کے والدین بچپن میں ہی انہیں کسی کام
کاج پر چھوڑ آتے ہیں۔ شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح دیہی علاقوں کی
نسبت بہت ذیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں کئی بچے اس لئے بھی تعلیم حاصل نہیں کر
پاتے کہ سکول وغیرہ ان کے گھروں سے کافی دور پڑتے ہیں ۔اور اس کے علاوہ ان
کے گھر والے بھی پڑھے لکھے نہیں ہوتے اس لئے وہ اپنے بچوں کو بھی ذیادہ زور
نہیں دیتے۔ غربت بھی اس کی بڑی وجہ بن رہی ہے۔ لیکن اب دوسروں کو دیکھتے
دیکھتے کافی شعور آتا جا رہا ہے اور دیہی علاقوں میں بھی تعلیم حاصل کرنے
والوں کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔حکومت پاکستان خواندگی کی شرح بڑھانے اور
تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہے۔اور سالانہ بجٹ میں تعلیم
کے لئے خاصہ حصہ رکھا جا تا ہے۔لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عملی طور پر
انتظامیہ کام کرنے میں کوتاہی برتتی ہے۔جیسا کہ سکولوں کے لئے جاری کئے گئے
8 ارب روپے کا سکینڈل آج کل منظر عام پر ہے۔دیکھے پیسہ تو پڑا ہے لیکن کام
کروانے کے لئے کوئی سر درد لینے کو تیار نہیں۔سرکاری لیول پر ہر بندہ کہتا
ہے کہ بس ٹھیک ہے جیسا نظام چل رہاہے اسے چلنے دیا جائے۔ہمارے ہاں تعلیم
اور اساتذہ کے امیج کو متاثر کرنے والی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ اگر کسی پڑھے
لکھے کو نوکری نہیں ملتی تو وہ بچوں کو پڑھانا شروع کر دیتا ہے۔ہمارا
تعلیمی نصاب بھی جدید نہیں ہے۔ہمارے تعلیمی نصاب اور نظام کو ماڈرنائز کرنے
کی ضرورت ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا اساتذہ کو بھی جدید ٹیچنگ سکلز
سکھانے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ بچوں کو پیشہ وارانہ تعلیم دلانے کی اشد
ضرورت ہے۔تا کہ حاصل کی جانے والی تعلیم ان کو عملی ذندگی میں خاطر خواہ
فائدہ پہنچائے۔ |