انسان پیدائشی طور پر کچھ نہیں
سیکھتا۔ بلکہ گزرتے وقت اور حالات اسے سب کچھ سکھا دیتی ہیں۔ یہ ہم اپنے
بزرگوں سے سنتے چلے آرہے ہیں اور خود اس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ بچپن سے
کتابیں پڑھ پڑھ کر اور رٹہ لگا کر یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں بھلا ہو ہمارے
ٹیچر حضرات کو جو ڈنڈے کے زور پر زہن میں بہت کچھ گھسا دیتے ہیں۔ ہم اپنے
ابتدائی تعلیمی ادوار میں اداروں میں رہتے ہوئے بہت سی چیزیں جان جاتے ہیں۔
فرض کریں پولیس فرض شناس ہوتی ہے۔ اساتذہ کا احترام کرنا چاہئے۔ حکومتیں
عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی ہیں۔ عدلیہ لوگوں کو انصاف فراہم
کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایک ہوتا ہے بچپن کا دور اس دور میں انسان زمینی
حقائق سے بالکل ناواقف ہوتی ہے جو کچھ اسے پڑھا یا اور لکھایا جاتا ہے اسی
پر عمل کرتا ہے۔ لیکن جونہی وہ بچپن کے عمل سے گزر کر بڑا ہو جاتا ہے تو
حقائق کی اصل روح سے واقف ہونا شروع کر دیتا ہے۔ جو کچھ اس نے پڑھا تھا اور
لکھا تھا یہاں تو اسکے برعکس ہو رہا ہے۔ کتابوں میں پڑھا تھا کہ پولیس فرض
شناس ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ پولیس رشوت لیتے ہوئے شرم محسوس
نہیں کرتی۔ بڑے بڑے قاتل پولیس کے سامنے آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں پولیس کی
پکڑ سے آزاد ہیں۔ مجرموں کو سزا دینے کے بجائے انہیں فرار راستہ فراہم کرنے
میں اپنا کردار ادا کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ ہم نے پڑھا تھا کہ استاد کا
احترام کرنا چاہئے۔ موجودہ دور میں استاد اور شاگرد ایک ہی تالی کھانا
کھاتے ہیں۔ استاد کا سگار شاگردکے ہاتھوں سے جلتا ہے۔ کلاسوں میں استاد اور
شاگرد اکھٹے بیٹھے قہقہے لگانے اور ہنسی مذاق کرنے میں گزار دیتے ہیں وغیرہ
وغیرہ۔ حکومتیں عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی ہیں۔ یہاں تو حکومتیں
عوامی ووٹوں کے ذریعے سے نہیں بلکہ مقتدر حلقوں کی جانب سے منتخب ہو جاتی
ہیں۔ حکومتیں خدمت کرنے کے بجائے عوام پر اپنا حکم چلاتی ہیں۔ عوام کی
رسائی نمائندوں تک نہیں تو آواز کیسے ان تک پہنچ جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
کتابوں میں جگہ جگہ اس آیات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ دین کی رسی کو مضبوطی سے
پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ لیکن یہاں تو دین کی رسی کب کی ڈھیلی ہو
چکی ہے۔ نفرتیں دلوں میں بھر دی گئی ہیں فرقوں کا ایک دوسرے کے خلاف فتوے
اور قتل و غارت گری کا بازار گرم وغیرہ۔ عدلیہ لوگوں کو انصاف فراہم کرتی
ہے۔ یہاں تو عمر بھر عدالتوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ زندگی بیت جاتی ہے۔
پوری کمائی وکیل صاحبان کی خاطر تواضع اور سفری اخراجات میں خرچ ہو جاتے
ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔ وغیرہ وغیرہ۔کتابوں میں لکھا ہے کہ حلال کی روزی
کماؤ۔ یہاں پر ہر کوئی مہنگائی کا رونا روتی ہے۔ اگر حرام کی کمائی نہ
کھائیں تو گھر کا چولہا کیسے جلائیں ۔ اگر پولیس حرام کی کمائی نہ کھائے تو
اپنا پیٹ کیسے بڑھائے وغیرہ وغیرہ۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ رشوت لینے اور
دینے والے دونوں جہنمی ہیں۔ بھلا وہ کونسا ادارہ ہے جہاں رشوت نہیں چلتی۔
اور خاص کر ملازمت کے حصول کے لئے درخواست دینے والے اور انٹریو لینے والے
بھلا اس کار خیر سے کیسے دور رہیں۔ بھلا ایک جہاز کا کیپٹن جو جعلی سند
لیکر لوگوں کی زندگی کا سودا کیوں نہ کر لے رشوت ہی وہ ذریعہ ہے جو وہ اس
مقام تک جا پہنچا ہو۔ پرانےCNGسلنڈر ہی کیوں گاڑیوں میں نہ ڈالے جائیں آخر
انکی لائسنس ادارے ہی دیتے ہیں جس سے اب تک نہ جانے کتنی قیمتی جانیں ضائع
ہو گئی ہیں۔ہم نے پڑھا تھا اسلامی ملک ہے یہاں پر اسلامی اصولوں کی پاسداری
کی جائیگی۔ لیکن اسکے برعکس دیکھنا پڑ رہا۔ آج جس صورتحال سے ہماری قوم گزر
رہی ہے یقینا کتابوں کا لکھا ہوا ہر جملہ مجھے غلط محسوس ہو رہا ہے۔ کیوں
نہ ہم سلیبس ہی کو تبدیل کردیں جہاں پرانے مضامین کے بجائے نئے مضامین شامل
کریں تاکہ ہمارے بچے بچپن سے بہت سے اصول سے واقف ہو سکیں کہ پولیس تحفظ
دینے کے بجائے لوٹنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ پولیس چوروں اور ڈاکوؤں کا ساتھ
دینے والا ایک اہم ادارہ ہے۔ ہماری عدالتیں ناانصافی فراہم کرتی ہیں۔ہماری
حکومتیں کرپشن اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ فلاحی
ادارے اعلیٰ آفیسران کے فلاح کے لئے کام کرنے والے اہم ادارے ہیں۔ کسی بھی
ادارے میں بھرتی ہونے کے لئے آپکی قابلیت نہیں بلکہ آپکا جیب اہم کردار ادا
کر سکتا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔ضرورت اس امر کی ہے یا تو اداروں کی کارکردگی کو
جانچیں ان میں اصلاحات لائیں۔ بصورت دیگر تعلیمی نصاب کو تبدیل کیا جائے
اور اس میں نئے موضوعات اور عنوانات شامل کئے جائیں۔ تاکہ ہماری آنیوالی
نسلیں ہر شعبے کو بہتر طریقے سے مطالعہ کرکے اس پر عمل کرنے کے لئے تیاری
کر سکیں۔ |