یوم دفاع پاکستان 2014ء
امسال یوم دفاع پاکستان ایسے موقع پر آیا ہے جب افواج پاکستان شمالی
وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ ہم سب کو
معلوم ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے بھی زائد عرصے میں دہشت گردوں نے پاکستان کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ انہوں نے وطن عزیز کے شہری علاقوں سے لے کر
دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے مسلسل
کاربند رہے۔ قوم ان کے مذموم عزائم کے سامنے ایک فیصلہ کن کارروائی کی
متمنی تھی جو ضرب عضب آپریشن کی صورت میں دہشت گردوں کے خلاف پوری قوت سے
کی جارہی ہے۔ ضرب عضب آپریشن کا واضح ہدف پاکستان سے دہشت گردوں کا مکمل
صفایا ہے اور قوم پرامید ہے کہ گزشتہ بارہ سال سے جس عفریت نے اسے بری طرح
سے جکڑ رکھا ہے ، بالآخر اس سے نجات ملنے والی ہے۔ اب تک پاک فوج کو بہت سی
کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور طے شدہ منصوبے کے مطابق وہ اپنے اہداف حاصل
کرتی جارہی ہیں۔ آپریشن کا آغاز کیا گیا تو اِ س کی تکمیل تک چار بنیادی
مرحلوں کی تصدیق کی گئی جن میں پہلے مرحلے پر شمالی وزیرستان کے علاقوں سے
مقامی ، غیر عسکری اور حکومت حامی آبادی کے انخلاء اور نقل مکانی کے ممکنہ
راستوں اور مقامات کی نشاندہی ، دوسرے مرحلے میں زمینی آپریشن اور علاقے کی
’’فزیکل سرچ‘‘ ، تیسرے مرحلے میں از سرِ نو بحالی جب کہ چوتھے اور آخری
مرحلے میں مقامی آبادی کی واپسی اور نوآباد کاری شامل ہے۔پہلے مرحلے کا
باقاعدہ آغاز 15 جون سے ہو ا جس میں میر علی ، میران شاہ سے لاکھوں کی
تعداد میں مقامی افراد نے نقل مکانی کرتے ہوئے بنوں، لکی مروت اور ٹانک کے
علاقوں کی جانب سفر شروع کیا۔مقامی آبادی کے انخلاء کے فوراََ بعد دہشت
گردوں کے خلاف دوسرے مرحلے کا آغاز کردیا گیا۔ جس میں پاک فوج کے دستوں نے
بھرپور کارروائی کرتے ہوئے شمالی وزیرستان کے متعدد علاقوں میں دہشت گردوں
کا کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم تباہ و برباد کردیا۔ آپریشن کے آغاز سے اب تک910
دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 88کلو میٹر طویل سڑکیں کھجوری۔ میرعلی۔میران
شاہ۔دتہ خیل اور گھریوم۔جھالر روڈ کودہشت گردوں سے پاک کیا جاچکا ہے۔ میران
شاہ، میرعلی، دتہ خیل، بویا اور دگن کے بڑے قصبوں کو بھی کلیئر کروا لیا
گیا ہے۔ ان علاقوں کو دہشت گردوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے
علاوہ 27 دھماکا خیز مواد تیار کرنے والی فیکٹریاں، ایک راکٹ اور ایک
ایمونیشن فیکٹری کوبھی تباہ کیا گیا۔
شمالی وزیرستان سے اٹھنے والی دہشت گردی کی سرکش موجوں نے ملک کے کونے کونے
میں تباہی و بربادی کی انتہاء کردی تھی ۔ آئے روز پاک افواج پر حملے کئے
گئے۔ بھرے بازاروں میں عام شہریوں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں،
نشانہ بنایا گیا۔سرکاری و نجی املاک تباہ و برباد ہوگئیں۔ترقی کا پہیہ رک
گیا۔ معیشت نیم دیوالیہ ہوگئی اورعالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو شدید
نقصان پہنچا۔ خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے بہت سے علاقوں میں سول انتظامیہ
دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہوگئی۔ یہ علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گئے۔
انہوں نے اپنے زیر تسلط علاقوں کو بیس کیمپ بنا کر ایک طرف مقامی آبادی پر
ظلم وستم کی انتہاء کردی تو دوسری طرف ملک کے دوسرے حصوں تک اپنی مذموم
سرگرمیاں پھیلانے کا اعلان کردیا۔ افواج پاکستان نے گوکہ ماضی میں بھی دہشت
گردوں کے خلاف آپریشن کئے لیکن انہیں جو کامیابیاں ملتی رہیں انہیں سیاسی
مصلحتوں کے پیش نظر مستقل بنیادوں پر قائم نہ رکھا جاسکا۔ پاکستان میں نئی
سیاسی قیادت کو بھی دہشت گردوں نے یرغمال بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس پر
دباؤ بڑھانے کے لیے مختلف شہروں میں حملے کرکے ان کی ذمہ داری قبول کی
۔دہشت گردوں کی ان تمام کارروائیوں کے باوجودنئی حکومت نے انہیں مذاکرات کا
موقع دینے کااعلان کیا۔ اس دوران گو کہ دہشت گردوں نے زبانی طور پر اپنی
کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا تاہم عملی طور پرایسانہ ہوسکا۔ اسلام
آباد کچہری، راولپنڈی آر اے بازار، اسلام آباد سبزی منڈی، ترنول کے قریب
افواج پاکستان کے دوسینئر افسروں پر حملہ اورکراچی ائر پورٹ پر دہشت گردی
کے واقعات کے بعد حکومت نے مذاکرات ختم کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف بالآخر
فیصلہ کن اور بھرپور کارروائی کرنے کا اعلان کیا۔
ضرب عضب کا حتمی مقصد دہشت گردی اور دہشت گردوں کا پاک سرزمین سے مکمل
خاتمہ کرکے حکومت کی رٹ قائم کرنا ، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو مکمل طور پر
تباہ کرنا، ہتھیار نہ پھینکنے والے دہشت گردوں کا خاتمہ اور فاٹا اور ملحقہ
علاقوں میں ترقی کے نئے دور کا آغاز کرنا شامل ہیں۔پاک فوج کے سربراہ جنرل
راحیل شریف نے آپریشن کے آغاز پر واضح کردیا تھا کہ دہشت گردوں کا پیچھا
کرکے انہیں انجام تک پہنچایا جائے گا اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن
جاری رکھا جائے گا۔ آپریشن میں حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں جبکہ
دیگرتمام سیاسی جماعتیں اور حلقے بھی اس حوالے سے متفق ہیں۔ عوام اور میڈیا
میں بھی اس حوالے سے کافی جوش و جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ دہشت گردی کے
خاتمے کے لیے افواج پاکستان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
آپریشن ضرب عضب کے دوران نقل مکانی کرنے والے افراد نے بھی اپنا گھر بار
چھوڑ کر بہت بڑی قربانی دی ہے۔ شدید گرمی میں ان کا صبر و تحمل دیدنی ہے۔
آپریشن کے دائرہ کار اور اختتام کی حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی تاہم جس طرح
افواج پاکستان کامیابی سے بھرپور آپریشن کررہی ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے افراد بہت جلد اپنے علاقوں میں جاسکیں
گے۔ اس وقت آئی ڈی پیز کی تعدادساڑھے نو لاکھ کے قریب ہے جن کی دیکھ بھال
ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ جہاں ایک طرف یہ نقل مکانی کرنے والے افراد کا امتحان
ہے تو دوسری طرف حکومت اور افواج کے لیے بھی یہ ایک کڑی آزمائش سے کم
نہیں۔میر علی ، میران شاہ سے لاکھوں کی تعداد میں مقامی افراد نے نقل مکانی
کرتے ہوئے بنوں، لکی مروت اور ٹانک کے علاقوں کی جانب سفر شروع کیا۔ اِس
نقل مکانی کے دوران جہاں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی جانب
نکل جانے کی کوشش کی وہاں حکومتی اور خاص کر فوجی امداد نے سہل کاری مہیا
کی ، ایک طرف مقامی حکومتوں کے تعاون سے ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں متاثرہ
علاقوں کی جان روانہ کی گئیں۔ رجسٹریشن کے عمل کو آسان، تیز اور قابل عمل
بنانے کے لیے پاک فوج کے ساتھ، ایف سی، لیویز اور پولیس کے جوانوں کی بھی
ایک معقول تعداد شامل تھی۔ مختلف کاؤنٹرز پر پاک فوج کے ہمراہ سول حکومت جس
میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ،فاٹا ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ، سول
ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف، نادرا سٹاف کی معقول تعداد رجسٹریشن کے عمل کو
بہتر بنانے میں مصروفِ عمل رہی۔ پاک فوج نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے
ساتھ ساتھ ایک دن کی تنخواہ بھی اپنے قبائلی بھائیوں کے لیے پیش کی۔ افواج
پاکستان کے ساتھ ساتھ حکومت اور ملک کے عوام نے اس سلسلے میں جس فراخدلی کا
مظاہرہ کیا ہے وہ بھی مثالی ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں نے ملک و قوم کے بقاء
کی خاطر نامساعد حالات میں ہجرت کی ہے ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے اور جہاں
تک ہوسکے پاک فوج کی حوصلہ افزائی اورنقل مکانی کرنے والے افراد کی مدد
کرنی چاہئے۔ آزمائش میں ہی اپنے اورپرائے کی پہچان ہوتی ہے جس طرح چھ ستمبر
1965ء میں پاکستانی قوم ایثاروقربانی اور ملی یکجہتی سے ایک آزمائش میں
سرخرو ہوئی تھی، انشاء اﷲ اس آزمائش میں بھی اﷲ تعالیٰ ہمیں کامیابی اور
کامرانی سے ہمکنار کرے گا۔ |