سعید اجمل کا ’’دوسرا‘‘ گیند کیا ہے ؟
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
دوسرا آف سپنر کی وہ گیند ہے جو
آف سپن یعنی آف سٹمپ سے لیگ سٹمپ آنے کی بجائے اس کے دوسری سمت یعنی لیگ
سٹمپ سے آف سٹمپ کی طرف جائے ۔ ایک طرح سے یہ ایسا لیگ بریک ہے جو آف
سپنر اپنی روایتی آف سپن گیندوں کے ساتھ کراتا ہے۔اسے پڑھنا اور سمجھنا
بہت مشکل ہوتا ہے ، اسی لئے اکثر بلے باز اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ’’دوسرا‘‘
ایک اعتبار سے لیگ سپنر کی گگلی سمجھ لیں ۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ آف
سپنر روایتی طور پر صرف آف سپن گیندیں ہی کراتے تھے، کرکٹ کی تاریخ میں
ایک دو بائولر ایسے ضرور گزرے جو دوسرا کرانے کے دعوے دار ہیں، مگر انہوں
نے اس حوالے سے شہرت نہیں پائی۔ جدید کرکٹ یعنی پچھلے تیس پینتیس سال کے
دوران آف سپنر صرف آف سپن ہی کراتے تھے، ان کے پاس ورائٹی کم ہونے کی وجہ
سے وہ زیادہ خطرناک نہیں تھے، عام طور پر وہ اچھی لائن ولینتھ پر گیند کرا
کر رنز روکنے کی کوشش کرتے ، کبھی کبھار کسی ٹرننگ وکٹ پر زیادہ وکٹیں لینے
میں بھی کامیاب ہوجاتے۔ پاکستانی آف سپنر ثقلین مشتاق کو یہ کریڈٹ حاصل ہے
کہ انہوںنے اپنے روایتی آف سپن ایکشن ہی میں دوسرا کرانے کی صلاحیت حاصل
کرلی۔ ان کی اس گیند نے کرکٹ میں تہلکہ مچا دیا۔ شروع میں تو بلے بازوں کو
سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کیا ہور ہا ہے ، گیند اندر آنے کے بجائے باہر
کیسے گھوم جاتی ہے؟ اسے دوسرا نام اس وقت کے وکٹ کیپر معین خان کی وجہ سے
دیا گیا۔ معین وکٹ کے پیچھے سے پکار کر کہتے کہ ثقی دوسرا کرائو۔ مشہور
کرکٹ کمنٹیٹر ٹونی گریک نے اسی مناسبت سے اپنے مضامین میں اس گیند کو دوسرا
کا نام دیا۔ یوں یہ اصطلاح مستعمل ہوگئی۔ اس کے بعد دوسرے مشہور آف سپنرز
نے دوسرا سیکھنے کی کوشش شروع کر دی۔ مرلی دھرن نے جلد ہی یہ ورائٹی سیکھ
لی، وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگئے۔ مرلی کے بائولنگ ایکشن پر بھی اعتراضات
ہوئے،مگر وہ کلئیر ہوگئے۔ بھارتی آف سپنر ہربھجن سنگھ پر بھی یہی اعتراض
ہوا، ان کے دوسرا گیند کرانے پر کچھ عرصہ پابندی بھی لگی،پھر وہ کلئیر
ہوگئے۔ پاکستانی آف سپنر شعیب ملک بھی اس اعتراض کی زد میں آئے، انہوں نے
پھر دوسرا کرانا ہی ختم کر دیا۔ جنوبی افریقہ کے مشہور کھلاڑی بوتھا پر بھی
یہی اعتراض لگا، ان کے دوسرا پر پابندی لگا دی، بوتھا اس کے بعد صرف روایتی
آف سپن ہی کراتے رہے۔ سعیدا جمل پر پانچ سال پہلے یہ الزام لگا ،مگر بعد
میں بائیومکینک معائنے میں وہ کلئیر ہوگئے۔ سعید اجمل کو یہ کریڈٹ جاتا ہے
کہ انہوں نے دوسرا گیند کو اپنے عروج پر پہنچا دیا تھا۔ ان سے بہتر دوسرا
گیند کوئی اور بائولر نہیں کرا سکا۔ وہ اس قدر مہارت سے یہ گیند کراتے کہ
بڑے بڑے بلے باز نہیں سمجھ سکتے تھے۔ سعیدا جمل دوسرا اس قدر زیادہ کرانے
لگے تھے کہ ان کی آف سپن گیندیں زیادہ موثر نہیں رہی تھیں۔ سعید اجمل نے’’
تیسرا ‘‘ بھی متعارف کرایا، یہ رائونڈ آرم گیند ہے جو سیدھا رہتا ہے مگر
بلے باز اسے آف سپن یا دوسرا سمجھ کر کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ پچھلے کچھ
عرصے میں آئی سی سی نے سپنرز کے مشکوک ایکشن کے حوالے سے بہت سخت رویہ
اپنایا۔ ویسٹ انڈین سپنر شلنگفورڈ پر پابندی لگی، بنگلہ دیشی سپنر سہاگ
غازی بھی اس کی زد میں آئے، نیوزی لینڈ کے ایک سپنر پر بھی اعتراض ہوا۔ یہ
ایک دلچسپ امر ہے کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے سپنرز نے دوسرا کرانے کی
زیادہ کوشش نہیں کی۔ آسٹریلیا میں تو باقاعدہ اس کی حوصلہ شکنی کی گئی،
پانچ سال پہلے وہاں مشہور سپنرشین وارن، میکگل اور بعض دوسرے بائولروں کو
بلایا گیا، مشاورت کے بعد طے ہوا کہ نوجوان آسٹریلوی بائولرز کو دوسرا
سیکھنے کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ یہ مشکوک ایکشن ہے اور کسی بھی وقت آئی
سی سی سے اس پر پابندی لگ سکتی ہے۔ انگلینڈ میں بھی کم وبیش یہی صورتحال
رہی۔ ان کے مشہور آف سپنر گریم سوان صرف روایتی آف سپن کراتے تھے، دوسرا
انہوں نے کبھی نہیں کرایا،مگر وہ اپنی آف سپن کی مدد سے ہی وکٹیں لینے میں
کامیاب رہتے۔ انگلش ٹیم میں کچھ عرصہ قبل شامل ہونے والے پاکستانی نژاد
سپنرمعین علی نے البتہ ایک دو میچوںمیں دوسرا گیندیں کرائی ہیں۔ دوسرا کے
حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت تینوں
ممالک کی ٹیموں میں کوئی بھی ایسا بائولر نہیں جو یہ گیند کراتا ہو، اس لئے
قوانین کی سختی کاانہیں کوئی نقصان نہیں۔ سب سے بڑا نقصان اور دھچکا
پاکستانی کرکٹ ٹیم کو پہنچا ہے ،سعید اجمل جس کے سٹرائیک بائولر تھے۔ پچھلے
تین چار برسوں کے دوران بیشتر فتوحات سعید اجمل ہی کی مرہون منت تھیں۔ اگر
اسے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ سے پہلے دبائو میں لانے کی سازش نہ بھی
کہا جائے تو پھر بھی یہ تو حقیقت ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آدھی قوت
ورلڈ کپ میں جانے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ
اگر بگ تھری کے کسی مین کھلاڑی کا یہ ایشو ہوتا تو ایسی سختی ورلڈ کپ سے
چند ماہ پہلے ہرگز نہ ہو پاتی۔ پاکستان ، بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کی
عالمی کرکٹ میں کوئی اہمیت نہیں۔ اس لئے جو بھی قانون منظور کر لیا جائے ،
کوئی اس کی مزاحمت نہیں کر سکتا۔ منگل کا دن پاکستانی کرکٹ ٹیم کا تاریک دن
ہے، اس روز پاکستان کے سب سے اچھے بائولر کا کرکٹ کیرئر خطر ے میں پڑ گیا۔
ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ سعید اجمل کا کیرئر بچ جائے، اسے اس وقت
بھرپور سپورٹ کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے ہرگز کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں اجمل کا ایکشن مشکوک ہی تھا اور ایک نہ ایک دن تو یہ
ہونا ہی تھا .اس بات میں وزن ہے .پاکستانیت اور جذباتیات کو ایک طرف رکھیں
تو نارمل آنکھ سے سعید اجمل کا ایکشن مشکوک لگتا ہے .پھر پاکستان بورڈ کو
جب اجمل کے رپورٹ ہونے کا پتہ چلا تو حکمت عملی استعمال کرنی چاہیے تھی۔
ایک رائے یہ ہے کہ جب آئی سی سی کریک ڈاون کر رہی ہے تو اجمل کو انجرڈ
کروا لیتے تا کہ ٹیسٹ میں تاخیر ہو جاتی۔ اس دوران خود اپنے ٹیسٹ کراتے اور
ایکشن میں کچھ بہتری کے ساتھ اجمل کو برسبین بھیجتے تو شاید نتائج مختلف
ہوتے ۔
سابق انٹرنیشنل کرکٹرز کی رائے : ابھی تک سوشل میڈیا پر زیادہ تر پرانے بین
الاقوامی کرکٹرز نے اجمل کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہی کیا ہے .کیون پیٹرسن
کے مطابق انہیں کوئی غرض نہیں کہ اجمل کا ایکشن ٹھیک ہے یا نہیں انہیں
تکلیف ہے کہ ایک اچھے انسان اور انکے ساتھی کرکٹر کو مشکل دور سے گزرنا پڑ
رہا ہے ."یاد رہے پیٹرسن خود بھی انتہائی مشکل دور سے ہی گزر رہے ہیں۔سابق
انگلش ون ڈے کپتان ایڈم ہولی اوک نے کہا ہے کہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ اب سو
سے زائد ایک روزہ میچ کھیلنے والے اور پینتیس ٹیسٹ کھیلنے والے کا ایکشن
غلط ہو جائے ؟آئی سی سی کو تھوڑے بہت مسائل والے بولرز کو بولنگ کی اجازت
دی دینی چاہئے .سابق آسٹریلوی بلے باز اور کمنٹیٹر ڈین جونز کے مطابق
دوسرا کرکٹ کا حسن ہے، اسکو جاری رکھنے کے لئے دوسرے کو بین نہ کیا جائے ،
رمیز راجہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ سپنر کے لئے بازو کا زاویہ اٹھارہ ڈگری
کر دینا چاہیے، دوسرا نے آف سپن بائولنگ کو پرکشش اور حسین بنایا ہے، اسے
ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اب کیا کرنا چاہئے ؟ سعید اجمل کو ثقلین مشتاق کے پاس
بھیجنا چاہئے تاکہ وہ انکے ایکشن کی درستگی پر کام کر سکیں .مرلی کی مدد
بھی لینی چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ پی سی بی کو ایک ہیومن موومنٹ سپیشلسٹ کو
ہائر کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی اجمل کو ہدایات اور مشورے دے سکے۔پی سی بی کا
تیسرا کورس آف ایکشن اجمل کی پرانی ایکسڈنٹ کی وجہ سے انجری ہے۔ان تینوں
پہلوؤں پر کام کر کے ساتھ ہی ساتھ شہریار خان اگر اپنے سفارتی روابط بھی
ٹچ کریں تو اجمل کو مستقبل قریب میں نہ سہی تو تین چار میں ماہ میں ریلیف
مل سکتا ہے،لیکن ایک بات طے ہے کہ اجمل کو اپنا ایکشن تبدیل کرنا ہو گا۔نئے
ایکشن کے ساتھ وہ کتنے موثر ثابت ہوں گے یا نہیں یہ ایک بہت بڑا سوال ہے
لیکن فی الوقت فوکس انکی واپسی پر ہی ہونا چاہئے ۔ ٭…٭…٭ |
|