بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی امداد کی اپیل کرنے پر وسطی بھارت میں انتہا
پسند ہندوؤں نے ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر پر حملہ کر کے شدید زخمی کر
دیا۔بھارتی شہر اوجین میں وکرم یونیورسٹی میں ہندو انتہا پسندوں کے ایک
مشتعل ہجوم نے یونیورسٹی کیمپس میں توڑ پھوڑ شروع کر دی‘ کھڑکیوں کے شیشے
توڑے اور میزیں و کرسیاں اٹھا کر پھینکنا شروع کردیں۔ یہ سارے مناظر ٹی وی
چینلوں پر نشر کیے گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق جواہر لعل کول نے کہا کہ حملہ
یونیورسٹی کی طرف سے سیلاب سے متاثرہ کشمیری طالب علموں کی مدد کرنے کی
اپیل کے رد عمل میں ہواہے۔ مضروب وائس چانسلر نے میڈیا کو بتایا کہ
یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کی مدد کی اپیل کی گئی تھی جس پر حملہ
کیا گیا۔ انہوں نے بتایاکہ حملہ آورہندو انتہا پسندوں کا تعلق وشوا ہندو
پریشد اور بجرنگ دل سے تھا۔ادھر بھارتی وزیر اعظم کی نام نہاد خصوصی سکالر
شپ سکیم کے تحت مقبوضہ کشمیر سے اعلیٰ تعلیم دلوانے کی غرض سے آل انڈیا
کونسل آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف سے منتخب کئے گئے بہت سے کشمیری طلبا کو
متعلقہ کالجوں نے داخلہ دینے سے انکار کر دیا ہے اور متاثرہ طلباء اپنے
داخلے کے بارے میں جاننے کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
ہندوؤں کی مسلمانوں سے نفرت آج سے شروع نہیں ہوئی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو
سمیت سب ہندوؤں کے ذہنوں میں یہی لاوا پکتا رہا ہے اور وہ کسی طور مسلمانوں
کوبنیادی حقوق فراہم کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست، معیشت
و معاشرت ہو یا صحت کا میدان بھارتی معاشرے میں مسلمانوں کو کبھی بھی اہم
مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ ہندو مسلمانوں کو خود سے انتہائی کم تر خیال کرتے
ہیں۔ان کے ذہنوں میں یہ بات بچپن سے ہی پختہ کر دی جاتی ہے کہ مسلمان یہاں
کے مقامی نہیں ہیں بلکہ باہر سے آئے ہیں اور دھرتی ماتا کو پلید کر رہے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے چونکہ اس خطہ میں کئی سو سال تک حکومت کی ہے
اس لئے انہیں ہر صورت مسلمانوں سے بدلہ لینا ہے۔ہندوؤں کومسلمانوں کا وجود
کبھی برداشت نہیں رہا۔ ان کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا اورا س بنیاد پر بدترین
فسادات ہوتے رہے ہیں کہ یا تو مسلمان ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں یا پھر
ہندو مذہب قبول کر لیں۔ ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کو زبردستی
ہندو بنانے کیلئے شنگھٹن اور شدھی جیسی تحریکیں بھی چلائی جاتی رہی ہیں جو
کہ متعصب ہندو زہنیت کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔یہی وہ بنیاد ی وجوہات تھیں جس
کی بنیادپر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور مسلمانوں نے
دوقومی نظریہ کا علم تھام کر لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کئے اورایک الگ
خطہ حاصل کیا گیا جسے آج دنیا پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔ قیام پاکستان
کوچھیاسٹھ برس گزر گئے ہیں لیکن ہندوؤں کی مسلمانوں سے نفرت میں کوئی کمی
واقع نہیں ہوئی۔بھارتی جیلیں مسلمانوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد
میں پڑھے لکھے ہندوستانی مسلمان کئی کئی برسوں سے بغیر کسی جرم کے جیلوں
میں پڑے ہوئے ہیں کوئی انہیں رہائی دلوانے والا نہیں ہے۔بھارت میں مسلمان
اقلیت میں ہیں لیکن جیلیں وہ واحد جگہ ہیں جہاں آبادی کے تناسب کے حساب سے
مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارتی مسلمان چوری، ڈکیتی، تخریب
کاری و دہشت گردی اور ا س نوع کی دیگر وارداتوں میں بہت زیادہ ماہر ہیں
بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف ان کا مسلمان ہونا اور پولیس، آئی بی اور خفیہ
ایجنسیوں میں ہندو انتہا پسندوں کی موجودگی ہے جنہوں نے حیلوں بہانوں سے
اٹھارہ سے تیس سال تک کے مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالنا اپنا مشغلہ بنا
رکھا ہے۔مکہ مسجد، مالیگاؤں بم دھماکے ہوں یا سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس ‘
دہشت گردی کے ان تمام واقعات میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کا ملوث ہونا
ریکارڈ پر آچکا ہے تاہم اس کے باوجود جب کبھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہو فورا
مسلمانوں کے گرد شکنجہ کس دیا جاتا ہے اور اگر کوئی وکیل ان کا کیس لڑنے
کیلئے تیار ہو جائے تو اسے بیوی بچوں سمیت قتل کرنے اور اس کا گھر جلانے کی
دھمکیاں دی جاتی ہیں۔یہ بات بھی ساری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے کہ کانگریس کی
حکومت ہو یا بی جے پی کی ‘ مسلمانوں کی عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے کسی نے
عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ ہندوؤں کی نفرت کا عالم یہ ہے کہ بھارتی مسلمان
اداکار بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں ہیں۔ وہ جتنامرضی خود کو لبرل ثابت کرنے
کی کوششیں کر تے رہیں انہیں ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہندو انتہا
پسند تنظیمیں خود پورے بھارت میں سرکاری دفاتر، چوکوں و چوراہوں اور دیگر
پبلک مقامات پر بھی ڈنکے کی چوٹ پر مندر بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں مگر
مسلمانوں کو نئی مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دینا تو درکنارپرانی تاریخی
مساجد میں انہیں نمازوں کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جاتی۔ سینکڑوں مساجد و
مدارس محض تعصب کی بنا پر شہید کئے جا چکے ہیں اور بیسیوں مساجد کے بارے
میں یہ باتیں مشہور کر دی گئی ہیں کہ یہاں پہلے مندر ہوا کرتے تھے لہٰذا اس
بنیاد پر آئے دن فسادات بھڑکانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کبھی گائے ذبح کرنے
یاکسی مندر کی مورتی توڑنے کا شوشہ چھوڑ کر حالات خراب کئے جاتے ہیں تو
کبھی مسلمان نوجوانوں پر ہندو لڑکیوں کو شادی کیلئے ورغلانے کے بہانے
مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا جاتا ہے۔ ممبئی جیسے شہر میں کسی اچھی
رہائشی کالونی میں اگر کوئی مسلمان اپنے لئے گھر خریدنا یا کرایہ پر لینا
چاہے تو اس کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک
نابینا کھلاڑی کو محض اس لئے تیزا ب پلا دیا گیا کہ وہ بھارتی ٹیم سے میچ
جیتنے میں اہم کردار اد انہ کر سکے۔ پچھلے سال جنوری میں بھارتی ریاست
مہاراشٹر کے دھولیہ ٹاؤن میں بھی پاکستان کے ون ڈے سیریز جیتنے پر بدترین
مسلم کش فسادات ہوئے تھے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارتی پولیس بھی ا س دوران
فسادات کنٹرول کرنے کی بجائے ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے
گھروں میں گھس کر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کر تی رہی۔کئی مسلمان شہید سینکڑوں
زخمی ہوئے،ہزاروں مسلمانوں کو علاقہ سے ہجرت کرنا پڑی، مسلمانوں کا کروڑوں
روپے مالیت کا نقصان کیا گیا مگر آج تک کسی نے ان کے زخموں پر مرہم نہیں
رکھی۔کچھ عرصہ قبل بھارتی ریاست اترپردیش کی سوامی وویکا نند یونیورسٹی میں
زیر تعلیم ایک سو پچاس سے زائد کشمیری طلباء کو بھی محض پاکستان کے جیتنے
پر خوشی کا اظہا رکرنے کے جرم میں یونیورسٹی سے مار مار کر نکال دیا گیا
اور جب طلباء نے میرٹھ یونیورسٹی کی انتظامیہ سے شکایت کی تو الٹا انہیں ہی
قصور وار ٹھہرایا گیا۔ انہیں پانچ ہزار روپے فی کس کے حساب سے جرمانہ عائد
کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اگر انہیں پاکستان کے میچ جیتنے کی اتنی ہی خوشی
ہے تو وہ پاکستان چلے جائیں۔بھارتی میڈیا میں یہ خبریں شہ سرخیوں سے شائع
ہو ئی ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ آج کے حالات میں جب پورا
مقبوضہ کشمیر سیلاب سے بدترین تباہی سے دوچار ہوا ہے۔ ہزاروں کشمیری طلباء
اور تاجر وں کا ابھی تک اپنے گھر والوں سے رابطہ نہیں ہو پارہا ۔ بھارتی
وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے سیلاب
متاثرین کیلئے امدادکی اپیلیں کی جارہی ہیں اور دعوے کئے جارہے ہیں کہ
بھارتی فوج کشمیریوں کی بھرپور امداد کر رہی ہے لیکن دوسری جانب انہی ہندو
انتہا پسندتنظیموں کے اہلکار سرکاری سرپرستی میں سیلاب میں ڈوبے ہوئے
کشمیریوں کیلئے اپیل کرنیو الوں پر بھی بدترین تشدد کر رہے ہیں جس سے ان کی
ذہنیت کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ بہرحا ل یہ بات طے شدہ ہے کہ بھارت
سرکار اور ہندو انتہا پسندوں سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی اپیل پر
لبیک کہتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کی مددوحمایت کا فریضہ سرانجام دے۔ |