موت کے سوداگر

کاروبار تو کئی قسم کے ہوتے ہیں کچھ اچھے اور کچھ بر’ے ہوتے ہیں آج میں ایک ایسے کاروبار کا ذکر کروں گا جو کہ پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔منافع بخش ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کاروبار اس قدر گندا ہے کہ میرے ہاتھ ٹوٹ کیوں نہیں گئے اس زہریلے انکشاف کو کرنے سے پہلے۔

آج ہم اپنے مذہب اسلام سے دور جا نے کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی رسم و رواج کوبھی بھول چکے ہیں اور ہم میں مغربی کلچرل آچکا ہے اس کلچرل کے نتیجے میں جب نوجوان جوڑے آپس میں دوستیاں کر لیتے ہیں پھر ان میں نام کی محبت ہو جاتی ہے پھر جسمانی رفاقت میں اتنے قریب آجاتے ہیں تو ان کو ہوش ہی نہیں رہتااور ہوش اس وقت آتا ہے جب پانی ان کے سر سے اوپر گزر جاتا ہے تو صرف ایک ہی راستہ ملتا ہے جو موت کے سوداگروں کے زینے کی پہلی سڑھی ثابت ہوتا ہے۔ یعنی کے جوان امنگوں سے کھیلتے ہیں یہ بیوپار آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کے لذت گناہ کے بعد کا حل ایک ہی ہوتا ہے کہ اسقاط حمل۔ اسقاط حمل کے اڈے پورے ملک میں بن چکے ہیں۔ یہ اڈے نوجوان نسل کو برباد کر رہے ہیں یہ اڈے بن بیہائی ماں کا اسقاط حمل کرتے ہیں بغیر کسی تصدیق کہ یہ لڑکی شادی شدہ ہے یا نہیں اس کے بچے کے باپ کا نام ہے یا نہیں ، اس لڑکی کے پاس پیسے ہیں یا نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ پیسے نہیں ہیں تو پھر بھی فری میں اسقاط حمل ہو گا۔اور تو اور یہ اڈے مکمل لڑکی کو سپورٹ کرتے ہیں کہ آپ بے فکر ہو کر اسقاط حمل کروئیں کہ آپ کی فیملی کو پتا نہیں چلے گا ایک دن صفائی کروئیں اور اگلے دن آرام کر لیں پھر سب کچھ ٹھیک۔ اس قسم کے اڈے چلانے والوں کو کسٹمر سے وصول ہونے والی رقم سے کوئی غرض نہیں ہے اور نا ہی فکر ہے کہ بچے کی ماں مرے یا پھر بچہ ان کے لیے اہم ہے تو صرف فضلہ۔ جی ہاں یہ ہے تجارت انسانی جو کبھی زندہ اور کبھی مردہ۔

یہ کاروبار خون کے لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے جس میں کولی جن ہوتا ہے۔ تین سے چھ ماہ کا نامالود بچہ جس کو فیٹس کہتے ہیں جو کہ خون کا ایک لوتھڑا ہی ہوتا ہے جوکہ بڑی بڑی کاسمیٹک کمپنیز کی ڈیمانڈ ہے ایک اندازے کے مطابق یہ فیٹس تقریباً ایک لاکھ روپے یا پھر اس سے زائد کا فروخت ہوتا ہے جبکہ پلازینٹا(غبارہ) دس سے بیس ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔اس کاروبار میں کچھ این جی اوز شامل ہیں جو لوتھڑے کی شکل میں تجارت کرتی ہیں جن کی شاخیں فی سبیل اﷲ کام کرتی ہیں یہ شاخیں پورے ملک میں موجود میٹرنٹی ہومز کی آڑ میں اسقاط حمل کا گھناونادھندہ کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی معصوم جانیں اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کی وادی میں چلی جاتی ہیں اب بن بیہائی ماں اسقاظ حمل کوئی مسلہ نہیں ہے پہلے آئیے اور پہلے قتل کروائیے آپ کے پاس پیسے ہیں یا نہیں کوئی مسلہ نہیں ۔اب بات کر لیتے ہیں کہ کاسمیٹک کمپنیز اس خون کے لوتھڑے کو کیا کرتی ہے اس خون کے لوتھڑے میں کولی جن ہوتا ہے کولی جن انسانی آپ کو رکھے سدا بہار، جو مختلف برانڈ کے شیمپو، کریموں بل خصوص عمر کم کرنے والی اینٹی ایجینگ مصنوعات اور اینٹی اورینکل مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ مصنوعات با آسانی پاکستان میں مل جاتی ہیں ۔ ان مصنوعات میں بہت بڑے بڑے ایمپورٹیڈ برانڈ بھی شامل ہیں ۔ڈاکٹرز نے تصدیق کی ہے کہ مختلف برانڈ کی کاسمیٹک مصنوعات میں کولی جن ہوتا ہے یہ کولی جن یاتو انسانی ہوتا ہے یا پھر جانور کا۔ علما اکرام اس کاروبار کو حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں ایک گناہ نہیں دو گناہ نہیں بلکہ تین گناہ شامل ہوتے ہیں پہلا گناہ ناجائز بچہ پھر ا س کا قتل اور پھر مصنوعات بنانا۔ جب انسان مر جائے تو اس کے مردہ جسم کا کوئی بھی حصہ لیاجائے اور اس کو کسی قسم کی ادویات یا مصنوعات میں شامل کیا جائے تو وہ حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔

پاکستانی قانون کے تحت جو ڈاکٹرز ایسا گھناوناجرم (اسقاط حمل)کرے تو اس کو تین سال جبکہ اس ماں کے لیے سات سال کی سزائیں موجود ہیں۔اس کے باوجود پاکستان میں یہ گھناونادھندا جاری ہے اور جاری رہے گا کیوں کہ میٹرنٹی ہومز کی آڑ میں اسقاط حمل کا گھناوناکاروبار کرنے والوں نے اپنے ضمیر بیج دیئے ہیں اور اہل اقتدار اور قانون نافظ کرنے والے ادارے سو رہے ہیں نا جانے کب بیدار ہوں گئے۔
Waseem Nazar
About the Author: Waseem Nazar Read More Articles by Waseem Nazar: 6 Articles with 23514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.