پاکستان میں تقریباً 4کروڑ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
صوبہ سندھ میں 21 سے 23 فی صد آبادی
خوراک کی قلت کا شکار ہے۔تھرمیں غذائی قلت سے ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے
چکا ہے۔سینکڑوں بچوں کی ہلاکت کے باوجود حکومت نے کوئی لائحہ عمل نہیں
بنایا
سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران بریفنگ
دیتے ہوئے این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے بتایا کہ شدید بارشوں کے باعث سیلاب
کے نتیجے میں 274 افراد جاں بحق اور 11 لاکھ متاثر ہوئے۔وزیراعظم نواز شریف
کی زیرصدارت ایک طویل عرصے کے بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ جس میں جانی
مالی نقصانات کے جائزے سے زیادہ سیاسی معاملات پر بحث ہوئی۔ابتدائی تخمینے
کے مطابق سیلاب کے باعث پنجاب کے 10 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے،جب کہ جھنگ،
چنیوٹ اور حافظ آباد میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ۔ سیلابی ریلوں کے باعث 3
ہزار دیہات متاثر ہوئے اور 45 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا۔ لیکن یہ سب
ابتدائی تخمینے ہیں اصل صورتحال تو بہت بعد میں سامنے آئے گی۔سیلاب کی تباہ
کاریوں کے ساتھ ہی ملک میں غذائی خوراک میں کمی کے مسائل بھی جنم لے رہے
ہیں۔جس کے اثرات غربت کے مارے عوام پرمرتب ہورہے ہیں۔اقوام متحدہ کی خوراک
اور زراعت کی عالمی تنظیم نے دنیا بھر میں غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے اپنی
سالانہ رپورٹ میں بتایاہے کہ ’’ 1990سے پاکستان میں غذائی قلت میں مسلسل
اضافہ ہی ہو رہا ہے، یوں تو دنیا میں ہر 9میں سے ایک شخص کو خوراک کی کمی
کا سامنا ہے،لیکن پاکستان میں تقریباً 4کروڑ افراد کو غذائی قلت کا سامنا
ہے۔ سنگین صورت حال کے باعث پاکستان اقوام متحدہ کے وضع کردہ ترقی کے اہداف
میں سے ایک، بھوک میں کمی کو پورا نہیں کرپا رہا ہے۔ پاکستان میں 2012سے
2014تک کے اعداد و شمار کے مطابق 3کروڑ 96لاکھ افراد کو غذائی قلت کا سامنا
رہا ، پاکستان میں غذائی ضروریات کو بہتر بنانے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں
ہوئی نہ ہی اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ بلکہ اس میں مزید بگاڑ پیدا
ہو رہا ہے، اس سنگین صورت حال کے باعث پاکستان ملینیم ڈویلپمنٹ گولز ، یعنی
اقوام متحدہ کے وضع کردہ ترقی کے اہداف میں سے ایک بھوک میں کمی کو پورا
نہیں کر سکے گا۔اس وقت توانائی کے بحران اوراجناس کی قیمتوں میں اضافے کے
باعث پاکستانی عوام تین سال پہلے کے مقابلے میں گندم کی دوگنی قیمتیں ادا
کر رہے ہیں اور غربا کے لئے غذائی سلامتی کی صورت حال دشوار ہے۔ جنیوا میں
انسانی امداد سے متعلق اجلاسوں کے موقع پر عالمی ادارہ خوراک کے ملکی
ڈائریکٹر برائے پاکستان وولف گینگ ہربنگر نے بھی اس کی تصدیق کی کہ پاکستان
میں غریب عوام کے لئے خوراک کی قیمتیں حد سے زیادہ ہیں جس سے خوراک کی قلت
کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے مطابق، صوبہ سندھ میں 21
سے 23 فی صد آبادی خوراک کی قلت کا شکار ہے۔ ہربنگر نے کہا کہ 15 فی صد
آبادی کے متاثر ہونے کو ہنگامی صورت حال قرار دیا جاتاہے۔ اس تباہ کن
صورتحال کے باوجود سندھ میں حکومت کے کان پر کوئی جوں رینگتی نظر نہیں آتی۔
لوگ گندم کے بڑھتے نرخ اور آٹے کی قیمت میں اضافے سے پریشان ہیں ۔ روٹی کی
قیمت میں اضافہ اور اس کے سائز اور وزن میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے
معاشرے میں جہاں غریب طبقہ کے لوگ دودھ، گوشت اور پھل خریدنے کے متحمل نہیں،
غذا کا بڑا حصہ گندم کے آٹے ہی سے پورا کرتے ہیں۔ گویا غریب طبقہ کو اپنی
غذا کی واحد شے بھی پوری مقدارمیں میسر نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وطن
عزیز میں اشیائے ضروریہ اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں
کہ عام صارف اْنہیں صرف دیکھ سکتا ہے، خرید نہیں سکتا۔ اشیائے ضروریہ اور
اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں بے قابو اضافے کی بنیادی وجہ بلدیاتی سطح پر
حکومتوں کا نہ ہونا۔ اور ذمہ داران کا تساہل ہے۔ جس سے گرانفروشوں، ذخیرہ
اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کی چاندی ہے۔ قیمتوں پر چیک نہ ہونے کی وجہ
سے ناجائز منافع خور جب چاہتے ہیں اْن کے نرخ بڑھا دیتے ہیں اور اْنہیں
کوئی پوچھنے والا نہیں۔جب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بلا روک ٹوک اضافہ
ہوتا ہے تو عام شہریوں کی قوت خرید دم توڑ دیتی ہے۔ نتیجتاً غریب اور محروم
طبقات سے تعلق رکھنے والے شہری غذائی قلت کا شکار ہوکر بیماریوں کا شکار
ہورہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ قابل کاشت زرعی
اراضی بیکار پڑی ہے اور اسے کسی مصرف میں نہیں لایا جا رہا۔ سندھ میں زمین
کا سب سے زیادہ حصہ استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے صحرائی علاقے
تھر اور دیگر علاقوں میں میں چرند اور پرند کے بعد اب انسانوں پر بھی غذائی
قلت کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔تھرمیں غذائی قلت سے ایک بڑا انسانی المیہ جنم
لے چکا ہے۔ غذائی قلت کا سب سے پہلا شکار بچے بنتے ہیں ۔صحرائے تھر میں
بھوک اور غذائی قلت سے سینکڑوں بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ عالمی اداروں کی ایک
رپورٹ کے مطابق دنیا کے 65 فیصد بھوک میں مبتلا افراد کا تعلق بھارت، چین،
کانگو، بنگلہ دیش، ایتھوپیا، انڈونیشیا اور پاکستان سے ہے۔ مناسب خوراک کی
عدم فراہمی اور ناقص غذا کھانے کی وجہ سے ان ممالک کے بچے عالمی معیار سے
کم وزن رکھتے ہیں۔پاکستان جہاں بظاہر غذائی قلت کے کوئی اسباب نہیں ہیں۔ یہ
سوال کیا جاتا ہے کہ دنیا کا وہ ملک غذائی بحران کا کیوں شکار ہے، جو گندم
کی پیداوار میں ایشیا کا تیسرا بڑا، گنا پیدا کرنے والا چوتھا بڑا، کپاس
پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے اور دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں بھی
اس کا شمار چوتھے بڑے ملک میں ہوتا ہے۔ پھل ، سبزیاں، بڑا گوشت، چھوٹا گوشت
اور انڈوں کی پیداوار میں بھی پاکستان کا نمایاں مقام ہے۔ اجناس خوردنی کی
پیداوار میں خود کفالت کے باوجود شہریوں کو یہ اجناس مہنگے داموں کیوں
خریدنا پڑتی ہیں۔قومی غذائی سروے 2011 میں بھی یہ بتایا گیا کہ پاکستان کا
شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں عورتوں اور بچوں پر مشتمل
آبادی کانصف حصہ غذائی کمی کا شکار ہے۔
اس سروے کے مطابق پاکستان میں صرف تین فیصد بچوں کو وہ خوراک میسر ہے جو
صحتمند غذا کے کم سے کم معیار پر پورا اترتی ہے۔ 51 فیصد حاملہ جبکہ 50
فیصد غیر حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ بالغ آبادی کا تقریبا
54 فیصد کا وزن نارمل نہیں ہے51 فیصد حاملہ جبکہ 50 فیصد غیر حاملہ خواتین
خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ بالغ آبادی کا تقریبا? 54 فیصد کا وزن نارمل
نہیں ہے۔اس رپورٹ کے مطابق 51 فیصد حاملہ جبکہ 50 فیصد غیر حاملہ خواتین
خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ بالغ آبادی کا تقریبا? 54 فیصد کا وزن نارمل
نہیں ہے۔قومی غذائی سروے کے مطابق ملک میں غذائی کمی کی بڑی وجوہات میں
غربت ،ماؤں میں ناخواندگی کی شرح اور غذائی عدم تحفظ شامل ہے۔دودھ جو بچوں
کی غذا کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اس کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئی
ہے۔ماہرین اس بارے میں کہتے ہیں کہ پاکستان میں صرف غربت، مہنگائی اور
خوراک کی عدم دستیابی غذائی کمی کا سبب نہیں بلکہ مختلف حکومتوں کی عدم
توجہی کے سبب اس مسئلے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ہمارا ملک ،ایک زرعی ملک ہے۔
لیکن ہم کبھی گندم،کبھی چاول، کبھی آلو، کبھی ٹماٹر درآمد کرتے ہیں۔ دودھ
پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے،لیکن پھر
بھی عام آدمی کو سستا دودھ میئسر نہیں۔ یہ گورننس کا مسئلہ ہے اور اس میں
جو بھی حکومت ہے وہ خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے براہ راست ذمہ دار
ہے۔اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر ایک
ہزار میں سے 86 بچے ہر سال ایسی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو
جاتے ہیں جو قابل علاج ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال(یونیسیف)
کے مطابق ان اموات میں سے 35 فیصد کی وجہ غذائی قلت ہے۔ یونیسف کے اعدادو
شمار کے مطابق پاکستان میں 44 فیصد بچے غذائی کمی جب کہ 15 فیصد شدید غذائی
قلت کا شکار ہیں۔ اس سروے کے مطابق پاکستان مین صرف تین فیصد بچوں کو وہ
خوراک میسر ہے جو صحتمند غذا کے کم سے کم معیار پر پورا اترتی ہے۔دیگر
حکومتوں کی طرح مسلم لیگ(ن)کی موجودہ حکومت بھی غذائی کمی کی صورتحال میں
بہتری لانے کی دعویدار ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال
اس علاج ملک میں غذائی ایمرجنسی نافذ کرنے میں ڈھونڈتے ہیں۔ لیکن اس پرعمل
نہیں کرتے۔ حکومت کو صورتحال کی بہتری کے لیے عملی اقدامات اٹھانا
چاہیئے۔تاکہ اس کی سنجیدگی کا اندازہ ہوسکے۔بجٹ میں غذائی تحفظ کے پروگرام
کو خصوصی جگہ دینا چاہیئے۔ ہم سب کچھ بیرونی قرضوں کی ادائیگی، دفاعی
اخراجات،اور اللے تھللے میں خرچ کر رہے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ پینے کے صاف پانی،
صحت کی سہولیات اور گورننس کی بہتری پر خرچ ہورہا ہے۔ پاکستان کے عدم
استحکام میں جہاں عسکریت پسندوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں، امریکی ڈرونز،
بھارت کے ساتھ مسلسل کشیدگی، خوراک اور توانائی کی قلت، دھرنے شامل ہیں۔
وہاں موسمیاتی تبدیلیاں بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔پاکستان کی تقریباً 190
ملین کی آبادی میں زراعت سے جڑے لوگوں میں سے زیادہ تر کا انحصار دریائی
پانی پر ہوتا ہے۔یہ دریا پاکستان میں اْگنے والی فصلوں کے 90 فیصد کے لیے
پانی مہیا کرتا ہے۔ ملک میں بجلی کی پیدوار کا 50 فیصد بھی اسی دریا پر
لگائے گئے ہائیڈرو پاور منصوبوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ 2010 سے 2014 تک مون
سون بارشوں میں شدت کا سامنا رہا، جس کی وجہ سے پاکستان میں شدید سیلاب
آئے‘یو این ڈی پی پاکستان کے ڈائریکٹر مارک اینڈرے فرانکے کے مطابق
موسمیاتی تبدیلیوں کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے سب سے متاثرہ ملکوں میں سے
ایک ہے۔ ’’یہاں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے، جو سرسبز ہو اور ماحول سے
مطابقت رکھتا ہو تاکہ پائیدار ترقی اور نمو تک پہنچا جا سکے۔پاکستانی
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے اور قومی پالیسی کی
کامیابی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، جن مں زیادہ درجہ حرارت
برداشت کرنے کی صلاحیت کی حامل فصلیں، سیلاب سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام
اور شمال کی جانب دریائے سندھ پر پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے اور زیادہ منصوبے
شامل ہیں۔ تاہم ان منصوبوں کے لیے سرمایے کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان کو شدید سمندری طوفانوں اور ساحلی علاقوں میں سمندری پانی چڑھ آنے
کی وجہ سے سیم اور تھور جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ انڈس
ڈیلٹا کے قریب گندم اور کیلے کی فصلوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔درجہء
حرارت میں اضافے کی وجہ سے مقامی علاقے کے رہائشیوں کو صحت کے مسائل کا
سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں مقامی کسان اپنے کھیتوں اور
کھلیانوں کو چھوڑ چھوڑ کر شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔جس
سے شہری علاقوں میں آبادی کا دباوء بڑھ رہاہے۔ جب تک حکومت سنجیدگی سے ان
مسائل اور اس کے سدباب کے لئے کوشش نہیں کرے گی۔ ملک میں عدم استحکام رہے
گا اور عوام کے بے چینی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ |
|