بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کاشف دین دار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، اسکول میں ہمیشہ اول آتا، جب کاشف
آٹھویں جماعت میں پہنچا تو کلاس ٹیچر نے نوٹس تیار کرنے کے لئے انٹر نیٹ کے
استعمال پر زور دیا ، کاشف نے اپنے والدین سے اس کا تذکرہ کیا تو کاشف کے
والد اگلے دن کمپیوٹر لے آئے ، اب کاشف انٹر نیٹ کا سہارا لے کر اچھے نوٹس
بنانے لگا۔ کاشف کے دوست ایاز نے کاشف کو ایک ویب سائٹ بتائی ، کاشف نے گھر
جا کر اس ویب سائٹ کو کھولاتو دیکھ کر فوراً بند کر دیا کہ اس قدر بے ہودگی،
چند دن کے بعد کاشف کے دل میں شیطان نے ڈالا کہ ذرا دیکھوں کہ ہے کیا؟
کھولا اور پھر اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے بند کر دیا، اگلے دن پھر دیکھنے
کا داعیہ پیدا ہوا ، اس طرح رفتہ رفتہ کاشف روز اس ویب سائٹ پر فحاشی و
عریانی دیکھنے لگا،پڑھائی متاثر ہونے لگی اور صحت گرنے لگی، آنکھ میں اکثر
درد رہتا ، آنکھوں کے قطرے ڈالنے سے وقتی آرام آ جاتا لیکن دوائی کا اثر
ختم ہوتے ہی دوبارہ درد شروع ہو جاتا، کاشف کے دوست نے مشورہ دیا کے کسی
آنکھوں کے ماہر سے علاج کرائے کاشف ٹال مٹول کرتا لیکن جب تکلیف زیادہ ہوئی
تو لا محالہ ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا ، ڈاکٹر نے جدید آلات سے چیک کیا
اور کہا کہ آنکھ میں زخم ہے اور اس زخم کی نوعیت جاننے کے لئے مزید ٹیسٹ
کروانے پڑیں گے۔ ٹیسٹ کروانے پر آنکھ میں کنسیر کی تشخیص ہوئی ، کاشف اور
اس کے گھر والے بہت پریشان ہوئے اور ان کی پریشانی اس وقت اور بڑھ گئی جب
اس بات کا علم ہوا کہ اس کا علاج ہمارے ملک میں نہیں ہے بلکہ اس کے لئے
بیرون ملک جانا پڑئے گا۔ بیرون ملک کے متعلق معلومات حاصل کیں اور جن ممالک
میں علاج ممکن تھا وہاں ای میل کے ذریعہ اپنی رپورٹس بھجیں ۔ رپورٹس دیکھ
کر صرف ایک ملک کی طرف سے مثبت جواب آیا۔اس ملک کے بارے میں معلومات حاصل
کیں تو پتہ چلا کہ اس ملک کے سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے ویزا ملنا
مشکل بلکہ ناممکن نظر آرہا تھاکہ اس ملک نے ہمارے ملک کے باشندوں کے لئے
ویزا نہ دینے کی پالیسی کا اعلان کیا ہوا تھا ۔ اب کاشف کے گھر والوں نے
راستے،واسطے تلاش کرنے شروع کیے ، سرکاری عہدداروں سے ملاقات کی دوست ملک
سے سفارش کرای اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بڑی مشکل سے آمادہ کیا ، پہلے
پالیسی میں تبدیلی لائی گئی پھر جا کر ویزے کا حصول ممکن ہو سکا۔ کاشف اور
انکے والد نے رخت سفر باندھا براہ راست فلائٹ کوئی نہیں تھی اس لئے دو جگہ
رک کر چوبیس گھنٹوں میں منزل تک پہنچے ، پردیش میں زبان کا مسئلہ درپیش رہا
جس سے بڑی دقت کا سامنا رہا ۔ یہاں ڈاکٹروں نے مزید ٹیسٹ کیے اور آپریشن کی
کامیابی کے ۵۰ فیصد امکان کا اظہار کیا ، بصورت دیگر آنکھ کے ضائع ہونے کا
خطرہ تھا ،مرتا کیا نہ کرتا، کاشف اور انکے والد نے رضامندی کا اظہار کیا ۔
آپریشن والے دن والد صاحب نے پردیس میں اور والدہ محترمہ نے اپنے گھر میں
مصلی سنبھال لیا خوب دعائیں کیں صدقے خیرات کیے منتیں مانی ،آخر کار اﷲ اﷲ
کر کے یہ گھڑی گزری ڈاکٹر باہر آّئے ،
کاشف کے والد ڈاکٹر کی جانب بے تابی سے بڑھے ، ڈاکٹر نے خوش خبری سنائی کہ
آپریشن کامیاب رہا ، والدین سجدے میں گر گئے اب کاشف کے ہوش میں آنے کا
انتظار ہو رہا تھا، کاشف کو ہوس آنے پر جب پتہ چلا کی اس کی آنکھ ضائع ہونے
سے بچ گئی تو وہ بہت خوش ہوا اور اﷲ تعالی بہت شکر ادا کیا اور عہد کیا کہ
اس آنکھ کو اب بد نظری سے بچائے گا ، اتنی مشقت اور پیسہ خرچ کرنے کے بعد
آنکھ بچ جانے پر کاشف کس قدر شکر ادا کررہا ہے ۔
ہمیں اﷲ تعالی نے بلا مشقت اور بالکل مفت یہ دولت عطاء کی ہوئی ہے غور کریں
کے ہم کتنا شکر ادا کرتے ہیں اور اﷲ تعالی کی نافرمانی سے بچنے کے کتنے عہد
و پیماں کرتے ہیں ۔ صحت مند جب شکر کرتا ہے اور اﷲ تعالی کی مان کر چلتا ہے
تو اﷲ تعالی بہت خوش ہوتے ہیں ، اور اسی شکر اور فرمانبرداری میں نعمت کی
بقاء ہے۔ |