ایک دفعہ ایک صاحب کو ایک الہ
دین کا چراغ ملا اور تاریخی کہانیوں کی طرح اس میں سے ایک جن نکلا اور
خواہش پوری کرنے کے بارے میں پوچھا جن کو حکم دیا گیا کہ میرے گھر سے دفتر
تک روڈ بنا دو جن نے کہا کہ کوئی اور کام بتا دو جن کو کہا گیا کہ ٹھیک ہے
کہ بیوی کی زبان ذرا چھوٹی کر دو تو جن نے کہا کہ روڈ ون وے بنانی ہے یا ٹو
وے۔
ایک ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ لوگوں میں سب سے بڑی وجہ بے چینی کی اور ناشکری
کی یہی ہے کہ وہ، وہ مانگنے کو روتے ہیں جوکہ انکو مل نہیں سکتا اور اس پر
خوش نہیں ہوتے جو مل چکا ہوتا ہے۔
ایک حکایت ہے کہ کسی ایک جانور نے نام یاد نہیں آرہا اللہ سے شکایت کی کہ
فلاں جانور کو آخر کیوں بنایا تو آگے سے جواب آیا کہ کمال بات ہے کہ ابھی
وہ بھی تیرے بارے میں یہی کہہ رہا تھا کہ اسکو کیوں بنایا ہے۔
کا جاتا ہے کہ امیر روٹی ہضم کرنے کو ترستا ہے اور غریب روٹی کھانے کو
ترستا ہے۔ جو آٹے کا تھیلا اٹھا نہیں سکتا وہ کحا سکتا ہے اور جو کمر پر
لاد سکتا ہے وہ کھا نہیں سکتا ۔
ایشیائی خطے میں گوری رنگت کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور
شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں اندسٹری میں بھی بہت سے چہرے چمڑی کے رنگ کی وجہ
سے ذیادہ قابل ترجیح سمجھے جاتے ہیں جو مغرب ہے وہاں گندمی رنگت کے لئے
اٹریکشن محسوس کی جاتی ہے۔
قریب قریب ہر ایک پلاسٹک سرجن کے مطابق ان سے جو بہت سے لوگ رابطہ کرتے ہیں
ٹھیک ٹھاک شکل میں بھی ردو بدل کروانے کے لئے وہ بے حد حسین ہوتے ہیں اور
شاید انکے جیسا حسن پانے کے لئے بہت سے لوگ تڑپتے بھی ہوں مگر بھی وہ حسین
شکل پانا چاہتے ہیں۔ بہت سوں کے مطابق شکل کی تبدیلی بھی بہت سے حسن والوں
کا مزاج اور خیال تبدیل کرنے میں ناکام ہی رہی۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ جب دماغ
نہ ہو راضی تو خالی خولی باہر تبدیل کرنے کا فائدہ زیرو ہے۔
دنیا میں انسان کو دنیا میں ایک مقام فطرت کی طرف سے ملتا ہے اور بہت سے
لوگ اس سٹیٹس کو تبدیل بھی کرلیتے ہیں خواہ زندگی کے کسی بھی پہلو سے متعلق
ہو۔ مگر بہت سے لوگ ساری زندگی اس سٹیٹس سے شکایت تو کرتے ہیں مگر کبھی بھی
اس سٹیٹس کو تبدیل کرنے کی جرات اور ہمت نہیں پاتے اور روتے چلاتے رہتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جس سٹیٹس کے ساتھ دنیا میں موجود تھے شروعات سے اسی
اسی سال کی عمر گزار کر بھی اسی سٹیٹ میں رہتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
گر کی بات یہ ہے کہ انسان کو جس جگہ پر خدا نے زمیں پر بھیجا اس کے لئے
بہترین وہی تھی انسان کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں کہ وہ یو تو ساری اندگی
شکوہ کرتا رہے ساری زندگی ماں باپ غربت اور کم شکلی جیسی وجوہات کا رونا
روتا رہے یا کام کرنا شروع کر دے اور سٹیٹس کو بدل دے اور بہترین بنالے
کیونکہ زندگی میں بہت کم چیزیں نہ بدلنے کا اختیار ہونے کے بعد بے شمار
چیزیں بدلنے کا اختیار ہمارے پاس موجود ہوتا ہے۔ |