ذکر آل پاکستان ٹلا ایسوسی ایشن اور گل محمد ایسوسی ایشن کا

آل پاکستان ٹلا ایسوسی ایشن اور گل محمد ایسوسی ایشن جامعہ کراچی کی ایسی غیرسیاسی تنظیمیں تھیں جو جامعہ کے سیاسی جھگڑوں کے بیچ اپنے منفرد نعروں اور سرگرمیوں سے نہ صرف جامعہ کے سیاسی تناﺅ کو کم کرتی تھیں بلکہ چہروں پر مسکراہٹ اور شگفتگی لاتی تھیں۔ ان سرگرمیوں سے ہر ایک لطف اندوز ہوتا تھا۔ جب جامعہ کراچی میں ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے کے پرجوش نعروں کا مقابلہ ہوتا تھا تو اس دوران آل پاکستان ٹلا ایسوسی ایشن والے سرخ ہے نہ سبز ہے ایشیا کو قبض ہے کا نعرہ لگا کر ماحول کو ٹھنڈا کردیتے تھے۔ گل محمد ایسوسی ایشن والوں کا نعرہ تھا زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔۔۔ جامعہ میں الیکشن کے دوران ایک بین الاقوامی نمائش کا اہتمام بھی ہوا جس میں ملکہ پیٹرا کے سینڈل اور ٹوتھ برش سے لیکر کبڑے عاشق کی اشیاء استعمال کی بھی نمائش کی گئی تھی۔ دنیا بھر میں جہاں ایک نمبر کا چرچا ہوتا ہے۔ وہاں دو نمبر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لئے جب سے امن کا نوبل انعام امریکی صدر اوباما کو ملا ہے۔ لوگوں کو ایک مشغلہ ہاتھ آگیا ہے۔ اب نیویارک والوں نے نوبل انعام کے مقابلے پر اگنوبل انعام کا مقابلہ کرایا ہے ۔ جس میں ادب کا نوبیل انعام آئرلینڈ کے محکمہ پولیس کو ملا جس نے ایک خاص شخص کا پچاس بار چالان کا ٹکٹ درج کیا تھا۔ نوبیل انعامات کے متوازی ’اگنوبیل انعامات‘ (Ig Nobel Prizes)کا نوبیل انعامات کی طرح دنیا بھر کے میڈیا میں ڈھنڈورا نہیں پیٹا گیا، اگنوبیل انعامات کے اعزاز سے نوازنے کے لیے ایک امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر کیمبرج میں ایک خصوصی تقریب بپا کی جاتی ہے اور ان کا اعلان کم و بیش نوبیل انعامات کے اعلان کے دنوں ہی میں کیا جاتا ہے، نوبیل اور اگنوبیل انعامات میں فرق یہ ہے کہ اگنوبیل انعامات میں تحقیق کے انتخاب کا معیار یہ ہے کہ پہلے تو لوگ انعام کا سن کر خوب ہنسیں اور پھر غورو فکر کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اگنوبیل انعامات کے مستحق علما و فضلا اپنے متعلقہ شعبوں میں جتنے دور کی کوڑی لے کرآتے ہیں، اسے دیکھ کر انشا اللہ خان انشا کا مصرعہ ذہن میں آتا ہے، اندھے کو اندھیرے میں بڑے دور کی سوجھی۔ مثال کے طور پر اس سال امن کا اگنوبیل انعام سوئٹزلینڈ کے اس سائنس دان کو دیا گیا جس نے اس بات پر دادِ تحقیق دی تھی کہ کسی کو بے ہوش کرنے کے لیے اس کے سر پر بیئر کی خالی بوتل مارنا زیادہ کارگر رہے گا یا بھری ہوئی بوتل! تحقیق سے معلوم ہوا کہ خالی بوتل زیادہ مؤثر ہتھیار کا کام کرتی ہے۔ اسی طرح طب کا نوبیل انعام کیلی فورنیا کے اس ڈاکٹر کو ملا جس نے 60 سال تک اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں چٹخا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی آیا انگلیاں چٹخانے سے جوڑوں کی بیماری آرتھرائٹس لاحق ہوتی ہے یا نہیں۔ کیلی فورنیا کے ڈاکٹر ڈونلڈ انگر اس 60 سالہ تحقیق کے دوران روزانہ اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں چٹخاتے رہے لیکن انھوں نے دوسرے ہاتھ کو اس مشق سے محفوظ رکھا۔ ساٹھ سال بعد جب دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ دونوں ہاتھوں کی جسمانی صحت میں ذرا برابر فرق نہیں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ انگلیاں چٹخانے سے آپ کے قریب بیٹھنے والے کتنا ہی الجھتے ہوں، کم از کم اس عمل کے باعث آپ کو آرتھرائٹس کا مرض لاحق نہیں ہوگا۔ ریاضی کا انعام زمبابوے کے ریزو بنک کو ملا۔ کمیٹی نے انعام کی توجیہ یہ بیان کی کہ بنک نے لوگوں کو چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہندسوں سے نبرد آزما ہونے کا آسان طریقہ فراہم کر دیا ہے۔ اور وہ یوں کہ بنک نے ایک سینٹ سے لے کر ایک ہزار کھرب ڈالر کے نوٹ چھاپے ہیں، جس کی مدد سے اب لوگ ان بڑی رقموں کا حساب لگا سکتے ہیں، جو کسی اور صورت میں ممکن نہیں تھا۔ ایک سینٹ سے لے کر ایک ہزار کھرب ڈالر کے نوٹ چھاپنے پر زمبابوے کے سرکاری بنک کو اگنوبیل انعام سے نوازا گیا۔ اسی طرح صحتِ عامہ کا انعام ڈاکٹر الینا بوڈنار کو ایک نادر ایجاد پر ملا۔ انھوں نے ایک ایسی برا ایجاد کی ہے جسے ہنگامی حالات میں گیس ماسک کی طرح استعمال کیا جا سکتاہے۔ یہ برا+گیس ماسک 99.9 فی صد موذی گیسوں کو فلٹر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فزکس کا اگنوبیل انعام یونیورسٹی آف ٹیکسس کی الزبتھ شپیر کو دیا۔ الزبتھ یہ دور کی کوڑی لائی تھیں کہ آخر حاملہ خواتین بچے کے بوجھ تلے آگے کی طرف لڑھکتی کیوں نہیں ہیں۔ ان کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حاملہ خواتین لڑھکنے سے بچنے کے لیے چلتے وقت تھوڑا سا پیچھے کی طرف جھک جاتی ہیں۔ نوبل انعام کے برعکس اگنوبیل انعامات کی خامی یہ ہے یہ سائنس دان چاہے کتنی عرق ریزی سے تحقیق کیوں نہ کریں، انھیں انعام کے ساتھ کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ یہی نہیں بلکہ تقریب میں شرکت کرنے کے لیے بھی اپنے خرچ پر آنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں تو ہمارے سیاست دان٬ بیورو کریٹ، سرمایہ دار، شوگرمل مالکان میں سے ہر ایک اس قابل ہے کہ اسے اگنوبل ایوارڈ سے نوازا جائے۔ خاص طور پر شوگر مل مالکان کہ جنہوں نے تین ماہ کے قلیل عرصے میں چینی ۱نیس روپے سے بہتر روپے پر پہنچا دی ہے۔ اس انھیں ضرور انعام دیا جانا چاہئے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387549 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More