سیلاب: ہماری ذمہ داریاں

پچھلے چند ادوار سے سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں ہماری زندگی کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔اس مرتبہ بھی سیلاب نے لوگوں کی جان و مال کو خطرے سے دوچار کیا ہوا ہے۔ ایک تو آفت ناگہانی ، اس پر ناقص منصوبہ بندی اور اب یہ بحث کہ کیا ہوا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے بڑھا رہا ہے۔ اب تدبیر کا وقت ہے کہ سوچنا یہ ہے کہ اس سے آگے اب کرنا کیا ہے اور ان لوگوں کے معاشی، معاشرتی اور ظاہری مسائل کے ساتھ ساتھ انکو نفسیاتی طور پر کیسے مضبوط رکھنا ہے ان تباہ حال لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دینی ہے جو اتنے بڑے مسئلے کیلئے ذہنی طور پر کم ہی تیار تھے ۔وہ علاقے جن میں پہلے بھی کم یا زیادہ سیلاب آتا ہے لوگ ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں خصوصاََ دیہات کے لوگوں میں ویسے بھی رواداری اتحاد اور لحاظ نمایاں ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو مصیبت میں اکیلا نہیں رہنے دیتے ۔ ایک گاؤں میں مصیبت آئے تو دوسرے مدد کے لئے آجاتے ہیں ۔ لیکن اس دفعہ تو وسیع علاقہ زیر آب آگیا ہے۔ لوگوں کا سامان اور مویشی بہہ گئے ہیں اور یہ لوگ بے سروسامانی کے عالم میں منتظر ہیں کہ کوئی ان کا پُر سان حال ہو۔

حکومت کے اقدامات پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن یہ اتنی بڑی آزمائش ہے کہ اس میں ساری قوم کی شمولیت اور مدد ضروری ہے۔ پاکستان کی بہادر اور دلیر فوج اس مصیبت کی گھڑی میں بھی اپنی جان اور آرام کی پرواہ کیے بغیر دشوار گزار علاقوں سے لوگوں کے انخلا میں مدد کر رہی ہے۔ لوگوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچا رہی ہے۔ صحت عامہ کے مسائل میں مدد دے رہی ہے ۔ فوج پہنچنے کی خبر سُن کر لوگوں کو بھی اطمینان ہوجاتا ہے کہ اب بچ جائیں گے اور ان کی دیکھ بھال بھی اچھی ہوگی ۔ غیر محسوس طور پر فوج سے محبت اور اُمید ہر شخص کو ذہنی طور پر اطمینان دیتی ہے ۔

فوج بہت سے معاملات میں پہلے سے ہی مصروف عمل ہے۔ آپریشن ضرب عضب ایسے مرحلے میں ہے جہاں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اندرونی اور بیرونی سیکورٹی کے معاملات بھی ہیں۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی کو پانچ چھ لاکھ فوج کتنی مشکلات سے نکال سکتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود فوج کے ہر سپاہی نے ثابت کیا کہ قوم کی ایک آواز پر وہ کیسے سُر عت سے پہنچی اور ہر طرح کی مدد کی۔ہمارے لوگ مدد کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں ۔ لیکن انہیں کس قسم کی مدد دینی ہے اس کے بارے میں ضرور آگاہی ہونی چاہیے ۔ سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اس وقت سر چھپانے کی جگہ چاہیے ۔ اس لیے جو لوگ اس سلسلے میں مدد گار ہو سکتے ہیں وہ ضرور سوچیں ۔ ان لوگوں کو کھانے پینے کی ایسی چیزیں چاہیں جنہیں پکانا نہ پڑے ۔ اس کیلئے بسکٹ ، کجھوریں ، چنے ، گڑ ، خشک دودھ ، روغنی نان ، پانی کی بوتلیں وغیرہ بھیجی جا سکتی ہیں ۔ ان کی پیکنگ میں بھی احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ زیادہ تر سامان ہیلی کاپٹر سے پھینکا جا رہا ہے اس لیے اسے پانی میں گرنے سے خراب ہونے سے بچانا ضروری ہے سا تھ ہی یہ بھی کہ یہ کُھل کر بکھر نہ جائے۔ اس کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی پہنچانا بھی ضروری ہیں جس میں کپڑے اور ادویات شامل ہیں ۔

سیلاب کے بعد صحت کے مسائل ایک دم سے بہت بڑھ جاتے ہیں ۔ گندے پانی کی وجہ سے جلدی امراض میں اضافہ ہوتا ہے ۔ انفیکشن اور پیٹ کی خرابی کے مسائل ہوتے ہیں ۔ اس لیے لوگوں کو جب بنیادی سہولتیں پہنچائیں تو ساتھ ساتھ آگاہ بھی کریں کہ وہ کس طرح اپنا خیال رکھ سکتے ہیں ۔ کوشش کریں کہ سامان میں صابن اور صرف بھی رکھ دیں ۔ لوگوں تک ریڈیو اور ٹی وی کی رسائی نہیں ہے اس لیے سامان میں ہی ایسے پمفلٹ رکھ دیے جائیں جن میں لکھ کر اور تصویروں کے ذریعے انہیں آگاہ کیا جائے کہ سیلاب کے پانی سے کیا کیا نقصان ہو سکتے ہیں تاکہ لوگ جتنی ہو سکے اپنی مدد خود کر سکیں۔ ان کی ذہنی کیفیت میں مایوسی کا عنصر ہوگا لیکن ہماری چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے انہیں یہ احساس ہوگا کہ ہمیں ان کی فکر ہے اور جلد از جلد ان کی بحالی اور انہیں صحت مند دیکھنا چاہتے ہیں ۔

ان چند آزمائش کے دنوں میں اگر ہم ان لوگوں کو ضروریات زندگی پہنچانے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی قربت اور ذمہ داری کا احساس دلائیں تو یہ ایک ایسا مضبوط قومی رشتہ بنے گا جس کو کوئی کسی پراپیگنڈے سے نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ سیلاب سے متاثرہ ہر شخص ہمارا اپنا ہے۔ کاش ہر مقام پر اس اہم ذمہ داری کو محسوس کیا جائے اور اس کا عملی مظاہرہ بھی ہو۔
 
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.