ہم دیکھیں گے
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
کیا وقعی ہی انقلاب آنے
والاہے ؟یہ سوال بہت اہم ہے ۔ جواب ہے جی ہاں انقلاب ضرور آئے گا ۔وقت اور
تاریخ بتانا مشکل ہے پر ایسا انقلاب آئے والاہے۔ جب تخت گرائے جائیں گے۔پی
آئی اے کے طیارے میں رحمان ملک اور رمیش لال کے خلاف جو کچھ ہوا لوگوں نے
اُسے تبدیلی اور انقلاب سے جوڑ کر وہ شورمچایا کہ جیسے بہت بڑی تبدیلی
رونماہوچکے ہے،جیسے واقعی ہی انقلاب برپا ہوگیاہے۔خاص طور پرجو لہر سوشل
میڈیاپر چلی اُس کی شان ہی نرالی رہی ۔کیا کہئے کہ ہم تو عادی ہوچکے ہیں
افواہوں اورمباحثوں کے۔چاروں طرف بے یقینی صورتحال کے باوجودتجزیوں اور
تبصروں کابازار گرم ہے۔ میرے خیال میں توپی آئی اے کے طیارے میں رحمان ملک
اور رمیش لال کے ساتھ پیش آنے والے واقع کا آزادی یا انقلاب کے ساتھ دور
دور تک کوئی تعلق نہیں بنتا ،بات اتنی سی ہے کہ طیارے میں موجود کچھ وی آئی
پیز نے دو وی وی آئی پیز کو تاخیر سے پہچنے پرغصے میں آکرزبردستی نیچے
اُتار دیا۔یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں کیونکہ طیارے میں سوار چند امیر طبقے
سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ 20کروڈ عوام کے ترجمان نہیں تھے بلکہ اُن
کا ذاتی مسئلہ تھا جو اُنہوں نے اپنے طریقے سے حل کیا۔آپ بتائیں کہ کتنے
فیصد عوام اندرونِ ملک جہازوں میں سفر کرتے ہیں؟مشکل سے چار،پانچ فیصد۔وی
آئی پیز نے وی وی آئی پیز کے خلاف ایکشن لیا اس بات کولے کر ہم ہرگزیہ
فیصلہ نہیں کرسکتے کہ تبدیلی یا انقلاب برپا ہوچکاہے ۔میرے خیال میں تبدیلی
یا انقلاب کم ازکم پچاس فیصد عوام کے باہر نکلنے پر ممکن ہوسکتے ہیں۔ایک
طیارے سے دو سیاستدانوں کو اُتار کر وی وی آئی پی کلچر کوختم نہیں کیا
جاسکتا۔یہ کلچر ایسی لعنت ہے جس نے تقریبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے
رکھا ہے ۔زیادہ ترپسماندہ ممالک اس کلچر کے شکار ہیں ۔یوں کہا جائے تو
زیادہ بہتر ہوگا کہ وی وی آئی پی کلچر نے کئی ممالک کو پسماندگی کے دلدل
میں دھکیل دیاہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کی وفات کے بعد جب عام لوگ حضرت عمرؓ کے
ہاتھ پربعیت کرچکے توآپؓ نے منبر پرکھڑے ہوکریہ خطبہ دیا،اے لوگو،میں بھی
تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں،اگر مجھے حضرت ابوبکرصدیقؓ کی نافرمانی کا
خیال نہ ہوتاتومیں تمہارا امیر اور حاکم بننا کبھی پسند نہ کرتا ،لوگو،اﷲ
تعالیٰ نے مجھے تمہارے لئے آزمائش بنایا ہے ،تم میں جونیک کام کرے گامیں
اُس کے ساتھ نیک سلوک کروں گااور جو بُرائی کاارتکاب کرے گااسے عبرت ناک
سزا دوں گا۔عرب کی مثال اس اُنٹ کی ہے جواپنے ساربان کامطیع ہے ،اس کے
ساربان (رہنماء)کافرض ہے کہ وہ اسے کس طرف لے جارہا ہے ،میں(حضرت عمرؓ)اﷲ
تعالیٰ کی قسم کھاکرکہتاہوں کہ تمہیں سیدھے راستے پرلے کرچلوں گا ‘‘تاریخ
شاہد ہے کہ حضرت عمرؓ کے دورخلافت میں چلنے والا مسلم حکومت کا نظام نا صرف
مسلمانوں کے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے اپنی مثال آپ ہے ۔وسیع تر سلطنت کے
حکمران ہونے کے باوجود حضرت عمر نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی ،آپ اکثر
مدینہ منورہ کی گلیوں میں پیوند لگے لباس میں گشت کیا کرتے تھے،اکثر مقامات
پر اینٹ کا تکیہ لگائے بلا تکلف سوجاتے ،خود بھی سادگی پسند کرتے اور اپنی
ٹیم کو بھی سادگی کی تلقین کرتے تھے،ایک لباس سردیوں کااور ایک گرمیوں
کارکھتے ،کبھی کبھی صرف ایک جوڑا ہوتا جسے دھوکرپہن لیتے ،آپؓ گزربسر کے
لئے صرف دو ،درہم روزانہ بطور وظیفہ لیتے ۔قارائین محترم کالم کے آخر میں
آپ کو حضرت عمرؓ کا ایک قول سناؤں گاجومسلم ریاست کے حاکم کی حیثیت اورذمہ
داری کا مکمل نمونہ پیش کرتا ہے ۔ اگر پاکستان کے عوام اور حکمران حضرت عمرؓ
کی طرح سادگی پسند ہوتے تو آج وی وی آئی پی کلچر اس قدر نہ پھیلتا۔میں تو
وی آئی پی کلچر کو تمام مسائل کی جڑ سمجھتا ہوں ۔آج ہر طرف سفارش ، رشوت ،کرپشن
،اقرباء پروری اور بے ایمانی کابازار گرم ہے ۔جہاں حکومت کوبجلی
بحران،مہنگائی،دہشتگردی،کرپشن ،امن وامان کی خراب صورت حال،بے روز گاری
وغیرہ وغیرہ کاسامنا ہے وہاں سفارش ،کرپشن،رشوت ،اقرباء پروری اور وی وی
آئی پی اور خوشامدی کلچر کے چیلنج کا سامنا بھی کرناپڑے گا۔معافی چاہتاہوں
غلطی ہوگئی قارئین یہ تمام چیزیں تو حاکمین کی پسندیدہ غذائیں ہیں۔ہمیشہ کی
طرح ان تمام لعنتوں کا عذاب عوام کو بھگتا ہوگا۔میرے خیال میں میاں
نوازشریف اور میاں شہبازشریف وی آئی پی کلچر، کرپشن، سفارش ،اقرباء پروری
اور رشوت کے ساتھ ساتھ باقی تمام چیلنجزکا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
پروہ رشوت ، کرپشن، سفارش ،اقرباء پروری اوروی، وی آئی پی اور خوشامدی کلچر
کو ختم نہیں کرپائیں گے ۔کیونکہ رشوت ، کرپشن، سفارش،اقرباء پروری اور اس
کے علاوہ بہت سی خرابیوں کی فصل وی آئی پی کلچر کے کھیت میں اُگتی ہے اور
وی آئی پی کلچر کے سارے کے سارے کسان میاں برادران کے ارد گرد جمع ہوچکے
ہیں اور جوباقی بچیں ہیں وہ بھی بس آنے ہی والے ہیں ۔قارائین آپ جانتے ہیں
کہ کوئی کسان اپنے کھیت کھلیان کو اُجڑتے نہیں دیکھ سکتا اور پھر وی آئی پی
کھیت ۔اِن کھیتوں میں کسی بھی فصل کاکوئی خاص موسم نہیں ہوتا بلکہ کرپشن،
رشوت،سفارش،اقرباء پروری ایسے پھل پھول ہیں جوان کھیوں میں ہر وقت پکے ہوئے
تیار ملتے ہیں ۔وی آئی پی کلچر آج ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ مضبوط ہوچکا
ہے ۔چیرمین ،ناظم،ایم پی اے یا ایم این اے گریڈ کے لوگ کبھی برداشت نہیں
کرتے کہ اُن کے حکم کے بغیرکوئی ادارہ بھی کام کرے ۔واپڈا،گیس،تھانے سے لے
کر گلی کوچوں کی صفائی کرنے والا عملہ بھی کسی شہری کی جائز بات اُس وقت تک
نہیں سنتا جب تک کسی ناظم ،ایم پی اے یا پھر ایم این اے کا فون نا آجائے ۔اُس
پر عوام کی خوش فہمی دیکھیں وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے کہنے پر اتنی پڑی
شخصیت نے سیورج کھولنے والوں کو فون کرکے اُن پرخاص احسان کیا ہے ۔سچ کہوں
تو مجھے نہیں لگتا کہ ہم پاکستان کو اسلامی ،فلاحی ریاست بنائے بغیر مسائل
کے گردآب سے نہیں نکل سکتے ہیں ۔ہمیں موجودہ بحرانوں سے نکلنے کے سرکار
دوعالم حضرت محمدؐ اور اُن کے غلاموں کی سادگی اور عاجزی کو کاپی
کرناہوگا۔آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں یہ سارے ترقی یافتہ دورکی پیداوار ہیں
جس نے ہمیں ہمارے دین سے دور کرکے تباہ برباد کردیا ہے۔قارائین اب میں آپ
کی نظر حضرت عمرؓ کا وہ قول کرتا ہوں جس کا میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔آپ
فرماتے ہیں کہ’’مسلمانوں کے مال پر میرااتنا ہی حق ہے جتناایک یتیم کے مال
پر متولی کا ہوتا ہے ‘‘یہ یاد رہے کہ حضرت عمرؓنے جب یہ قول فرمایا اُس وقت
وہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت کے عظیم حاکم تھے ۔اﷲ والے بتا رہے ہیں کہ وہ
وقت قریب ہے جب تخت گرائے جائیں گے اور سب تاج اُچھالے جائیں گے۔حکمرانی کے
نشے میں لوگوں کو پتا ہی نہیں چل رہا کہ دھرنا دینے والے کوئی بچے نہیں جو
پچھلے سوا مہینے سے روٹھ کر ڈی چوک بیٹھے ہیں ۔اہل دانش جانتے ہیں کہ عمران
خان اور علامہ طاہرالقادری بیٹھے نہیں بلکہ اُن کو بیٹھایا گیا ہے ۔سوال یہ
پیداہوتا کہ آخر کس نے بیٹھا رکھا ہے؟اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا ۔ہمیں
بس انتظار کرنا ہے اُس وقت کا جب تخت گرائے جائیں ،جب جات اُچھالے جائیں ۔وقت
اتناقریب ہے کہ یہ کہنا بھی لازم ہوگیا ہے۔ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی
دیکھیں |
|