اردو کی ٹیچر نے دوسری جماعت کے
طالب علم کو دونوں ہاتھ سامنے پھیلانے کا حکم صادر فرمایا ۔ حکم کی بجاآوری
کے ساتھ ہی اس نے اپنے بیگ میں سے کالے رنگ کا ایک ڈیڈھ فٹ لمبا
ڈنڈانکالا۔پانچ پانچ دونوں ہاتھوں پر کھانے کے بعد سوجے ہاتھوں نےتختی کبھی
گھربھول نہ آنے کی قسم کھانے کے ساتھ ساتھ مولا بخش سے ملاقات کا یہ شرف
کبھی نہ بھلایا۔زندگی میں پہلا سبق اسے بھولنے کی وجہ سے بھگتنا پڑا ۔اس کے
بعد وہ ہر سبق کی طرح ساتھ رکھنے والی چیزوں کو گن گن کر روزانہ بیگ میں
سنبھالتا۔بھولنے کی ایک معمولی غلطی کی سزا کو اس نے دو ہفتوں تک اپنی نرم
ہتھیلیوں پر محسوس کیا تھا۔جیسے ہر رات اس کی ہتھیلیوں پر کوئی آنگارے رکھ
رہا ہو۔جسم بڑے ہو جاتے ہیں مگر سزا کے اثرات وہیں رہ جاتے ہیں۔کرب واذیت
کے یہ کھونٹے بچپن میں ہونے والی زیادتیوں ، نا انصافیوں کےسنگل سے چھٹکارہ
پانے کی اُمید جوانی سے بڑھاپے کی طرف پہنچا کر بھی پوری نہیں ہونے
دیتے۔انسان قدموں سے میلوں کا سفر اور سوچ میں صدیوں کا سفر طے کر لینے کے
باوجود ان کھونٹوں سے چھٹکارہ نہیں پا تا۔
ہمدردی کرنے والے انہیں فریب دکھائی دیتے ہیں۔کھونٹے سے کھولنے والے انہیں
ظالم نظر آتے ہیں ۔سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی دوسرے کھونٹے سے باندھنے کے لئے
لے جایا جا رہا ہے۔جنہیں اعتماد سے ٹھیس پہنچتی ہے وہ اعتبار سے ڈرتے
ہیں،جھوٹ سے ڈسنے والے سچ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔بھولنے کی سزا پانے والے یاد
کرنے سے ڈرتے ہیں۔خوف کا ایک عفریت روح میں سما کر اتنا طاقتور ہو جاتا ہے
جس کے سامنے ایک توانا وجود بھی دوسری جماعت کے طالبعلم کی نازک ہتھیلیوں
سے بڑھ کر نہیں ہوتا۔
گھر کی دہلیز اور سکول کی عمارت کے اندر سوچ کی آزادی کو باندھنے کے چھوٹے
بڑے کھونٹے صدیوں سے معاشرے کے باڑوں میں سختی سے زمین میں گاڑے ہوتے
ہیں۔خوش قسمتی سے اگر کوئی ان سے چھٹکارہ پا بھی لے تو بھول جانے کی سزا
یاد نہ رکھنے کی عادت سے نکلنے نہیں دیتی۔اس کے بعد تلاش کے لا متناہی
سلسلے پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرح زمین پر اکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔کوئی علم
کے قلم پر سوار لفظوں کے سمندر میں اُتر جاتا ہے تو کوئی عقل سے ستاروں کی
روشنیوں میں کھو کر منزل پانے کی نوید سننے میں بیتاب ہو جاتا ہے۔سفر میں
آگے بڑھ جانے والے اگر آنکھیں موندھ لیں تو بعض اوقات منزل پیچھے رہ جاتی
ہے۔تلاش کے بعد منزل پاناہمیشہ خمار میں مبتلا رکھتی ہےلیکن جب مقصد نہ رہے
تو سفر باقی رہ جاتا ہے منزل کہیں کھو جاتی ہے۔جسے مشکل سے ڈھونڈا جاتا ہے
اسے آسانی سے کھودیاجاتا ہے۔جسے پا کر کھو دیا جائے وہ منزل اپنے نشان بھی
مٹاتی جاتی ہے۔ یہ بھول بھلیوں کا ایسا پزل ہے جس میں آسانی سے داخل ہو کر
مشکل سے نکلا جاتا ہے ۔ ہر بار نیا راستہ بنتا ہے تو نیا راستہ ہی نکلتا
ہے۔جس میں سے ایک بار گزر کر پچھلے راستے خودبخود بند ہوتے چلے جاتے
ہیں۔جیسے امتحانات میں ایک ہی کتاب سے سوالات ہر امتحان میں بدل جاتے
ہیں۔جوابات چاہے کتنے ہی ازبر کیوں نہ ہوں ، ایک بار یادداشت کے پردے پر بے
ہنگم ڈھول کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ایک وقت کے بعد اگر کورس ہی تبدیل ہو جائے
تو پھر پہلے جوابات ختم ہو جاتے ہیں اور نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔جن کے حل
کے لئے تلاش کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔
سوچ و افکار کی لینڈ سلائیڈنگ سے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔پھر دو ہی صورتیں
باقی بچتی ہیں پلٹ جاؤ یا کسی دوسرے طویل راستہ سے منزل مقصود تک پہنچنے کی
کوشش شروع کر و۔کیونکہ بعض اوقات ساری توانائی خرچ کر کے بھی بھاری پتھر
اُٹھانے سے بھی راستے صاف نہیں ہوتے۔ |