بوڑھے والدین اور اولڈ ہاؤس

اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان میں بھی یورپین طرز کا ’’اولڈ ہاؤس‘‘ تعمیر کرنے کی پلاننگ کی جارہی ہے اگر یہ خبر فی الو اقعی صحیح ہے تو یہ بزرگوں کیلئے کوئی اچھی بات نہیں ۔ اولڈ ہاوسز میں ساٹھ سے ستّرسال کے بزرگوں کو رکھا جاتا ہے اور انکی جملہ ضروریات کو پورا کرنے کا ذمہ ہاؤس کے منتظمین پر ہوتا ہے۔ اولڈ ہاؤسز دراصل ان بزرگوں کی ’’آخری آرامگاہ ‘‘ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنی الگ ہی جنت بسالیں اور نوجوان نسل کو کھلی فضا میں سانس لینے کا موقعہ فراہم کریں اور انکے جذبات و احساسات کو ڈسٹرب نہ کریں۔

اصل میں آدمی جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو اسکے مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے اور بات بات پر ٹوکنا اور دخل در معقولات اسکا معمول بن جاتا ہے، انکی بات چاہے صحیح بھی ہو مگر نوجوانوں کو پسند نہیں آتی لہٰذا یورپین ممالک میں اسکا حل یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ انہیں اولڈ ہاؤس بھیج دیا جائے تاکہ یہ وہاں ’’سکون سے‘‘ اپنی زندگی کے بقیّہ ایام پورے کر سکیں۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آدمی چاہے کتنا ہی بوڑھا کیوں نہ ہو جائے اسکی سوچ اور اسکے خیالات تو بوڑھے نہیں ہوتے وہ یہ چاہتا ہے کہ کوئی اسکے پاس آئے اس سے باتیں کرے، اسکا دل بہلائے اور اسکی خدمت کرے وہ ہرگز اس ماحول سے الگ تھلگ ہونا پسند نہیں کرتا جہاں اس نے ساری زندگی بسر کی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے آپ کو طرح طرح کے مشاغل میں مصروف رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

مگر وہ لوگ جو مغربی تہذیب و تمدّن کے دلدادہ ہیں انکو یہ بات پسند نہیں آتی اور وہ ان سے چھٹکارے کی نت نئی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں۔

ایسے ہی ایک میاں جی کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور وقت گزاری اور دل بہلانے کیلئے فلم ’’بڈھا گجر‘‘ دیکھ رہے تھے۔

اسی اثناء میں انکے پڑپوتے کمرے میں داخل ہوئے اور ان سے یوں گویا ہوئے’’ گرینڈ پا! آپ سے ایک التماس ہے امید ہے آپ رد نہیں فرمائیں گے اور بات غور سے سنیں گے‘‘۔ گرنیڈ پا نے سکرین سے نظریں ہٹائیں اور بولے کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ آپ جیسے نیک لوگوں سے سنا ہے کہ موت برحق ہے اور عقلمند وہ ہے جو مرنے سے پہلے پہلے مو ت کی تیاری کرلے۔تاریخ میں لکھا ہے کہ مغل حکمران اپنی قبریں اپنی زندگی ہی میں تیار کرو ا لیا کرتے تھے اور ان میں داخل ہوکر تسلّی کر لیا کرتے تھے کہ یہ قبر ہمارے سائز کے مطابق ہے یا نہیں۔لہٰذا ہم نے بھی انکی ’’سنّت ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے آپکے لئے قبرستان میانی صاحب میں ایک نہایت مناسب جگہ بڑی سفارشوں سے ڈھونڈی ہے اور ماہر گورکن سے آپکی قبر تیار کروائی ہے آپ ذرا چل کر اسکا سائز دیکھ لیں تاکہ اگر کوئی کمی بیشی رہ گئی ہو تو ہو دور کر لی جائے نیز ہم نے آپکا کفن بھی آب زم زم میں بھگو کر سکھا دیا ہے کہ وقت کا بہر حال کوئی پتہ نہیں تیاری تو کر لینی چاہئے۔

یہ سنتے ہی گرینڈ پا کی رگیں تن گئیں،آنکھیں غصے سے لال بھبوکا ہو گئیں کہنے لگے ’’ کم بختو! دور ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے تم مجھے وقت سے پہلے ہی مار دینا چاہتے ہو ابھی میں نے زندگی میں دیکھا ہی کیا ہے؟ تم اس فلم کے ہیرو کو دیکھ رہے ہو جو اسّی کے پیٹے میں ہے مگر اسکے گرجنے اور برسنے کا انداز نوجوانوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ تم سگریٹ پیتے وقت اسکے کانپتے ہاتھوں کو نہ دیکھو یہ انھیں ہاتھوں سے گھسن مار مار کر بیس ڈاکوؤں کو اکیلا ہی بھگا دیتا ہے میں تو پھر بھی اس سے دس سال چھوٹا ہوں ہم اکٹھے رائل پارک میں گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔

ابھی تو چوہدری شجاعت حسین بوڑھے نہیں ہوئے جن کے دم سے ہی قائد اعظم مسلم لیگ قائم ہے اور تو اور ابھی تو فخر لال حویلی اور عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے رکن اور پریذیڈنٹ شیخ رشید بوڑھے نہیں ہوئے جو ستّر کے پیٹے میں ہیں اور ابھی تک’’کنوارے ویارے‘‘ ہیں ، میں کہاں سے بوڑھا ہو گیا ظالمو! تم مجھے ابھی سے قبر میں اتارنے کی فکر میں لگے ہو، دفع ہو جاؤ ورنہ تمہارے کھنّے سینک کہ رکھ دوں گا۔
جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے تو اس کے مطابق والدین جب بوڑھے ہو جائیں تو انکی خدمت کرنی چاہئے اور انکی دعائیں لینی چاہئیں اور انکے ساتھ نرمی اور رواداری کا سلوک کرنا چاہئیے۔ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین دعایءں لازمی طور پر قبول ہوتی ہیں ایک والدین کی دعا اولاد کے حق میں چاہے وہ دعا ہو یا بددعا یعنی اگر والدین کی خدمت کی ہے اور انھوں نے خوش ہو کر دعا دی ہے تو وہ لازمی طور پر قبول ہوگی اور اسکے برعکس اگر گستاخی سے پیش آیا اور انھوں نے بددعا دی تو وہ بھی قبول ہوگی اور اس میں کوئی شک نہیں۔ دوسری مظلوم کی دعا اور تیسری مسافر کی دعا۔

لہٰذا بڑھاپے میں والدین کو کسی الگ تھلگ مقام پر رکھنے کی بجائے انہیں اپنے پاس رکھیں،انکی خدمت کر کے دعائیں لیں تاکہ دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 320905 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More