نظام کی اصلاح و اعتماد بحالی !
(Muhammad Asif Iqbal, India)
دنیا کے مختلف ممالک میں نظام کی
اصلاح ایک مستقل اور بتدریج عمل ہے۔جس قدر نظام درست،چست،منظم اور اقدار پر
مبنی ہوگا اسی قدر ملک بھی پائیدار ومستحکم کہلائے گا۔دنیا کے وہ ممالک
جہاں آبادی کے تناسب سے نظام کو چلانے والے مقدار یا صلاحیتوں کے اعتبار سے
کم ہیں،وہاں مسائل کاحل بھی ممکن نہیں ہے۔برخلاف اس کے مسائل کے حل میں ایک
جانب جہاں انسانی وسائل بھر پور ہونے چاہیں،وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ موجود
انسانی وسائل کو قابل قدر اور قابل استعمال بنایا جا ئے۔باالفاظ دیگرانسانی
وسائل کی تربیت اور اصلاح کا عمل ایک مستقل جاری وساری رہنے والا عمل
ہے۔ہندوستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے خصوصاً اور عموماً آزادی کے بعد ہی
سے پولیس نظام کی اصلاح کی کوششیں جاری ہیں۔پولیس وہ ادارہ ہے جو نہ صرف
نظام کو درست رکھنے،نظم و نسق چلانے،انسانی مسائل کے حل میں بہترین
کارکردگی انجام دینے میں سرگرم رہتا ہے بلکہ سماج میں پھیلی برائیوں کے
خاتمہ کے لیے بھی پوری طرح مستعد رہنے والا ادارہ ہے۔لیکن چونکہ نظام میں
بگاڑ ایک حقیقت ہے لہذااس ادارہ میں بھی مختلف وجوہات کی بنا پر خامیاں
محسوس کی جاتی رہی ہیں۔وہ مختلف وجوہات کیا ہیں؟ ان کا ہم بعد میں تذکرہ
کریں گے۔
فی الحال "فرضی انکاؤنٹر"کے تعلق سے ایک رضا کار تنظیمPCULنے سپریم کورٹ
میں ایک اپیل برائے ممبئی،جس میں 1995اور 1997کے درمیان99مڈبھیڑوں میں
135افراد کے مارے جانے سے متعلق دائر کی تھی۔اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے
سپریم کورٹ آف انڈیا نے 32صفحاتی فیصلہ کے ساتھ پولیس نظام کی اصلاح سے
متعلق راہنما ہدایات جاری کی ہیں۔یہ ہدایات اس طرح ہیں: i) ہر انکاؤنٹر کی
جانچ سی آئی ڈی یا آزاد ایجنسی سے کرائی جائے۔ii)جانچ ختم ہونے تک اس میں
شامل پولیس اہلکاروں کو پرموشن یا بہادری ایوارڈ نہیں ملے گا۔iii)تعزیرات
ہند کی دفعہ176کے تحت ہر انکاؤنٹر کی جوڈیشیل مجسٹریٹ سے جانچ لازمی
ہوگی۔iv)ہر انکاؤنٹر کے بعد ہتھیار اور گولیاں جمع کرانے ہوں گے۔v)ہر
انکاؤنٹر کی ایف آئی آر درج کرانی لازم ہوگی۔vi)انکاؤنٹر کی جانچ رپورٹ ہر
6ماہ میں متعلقہ ریاستی انسانی حقوق کمیشن کو بھیجنی ہوگی۔سپریم کورٹ کی
ہدایات کے مطابق اب اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہر انکاؤنٹر کی آزاد
ایجنسی سے جانچ کرائی جاے۔یہ جانچ تیزی سے پوری کی جائے۔اگر کوئی پولیس
اہلکار فرضی مڈبھیڑ میں ملوث پایا جائے تو اس کے خلاف قانونی اور محکمہ
جاتی کارروائی ہو۔اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ایف آئی آر،ڈائری کی
انٹری اور پنچ نامہ اور اسکیچ وغیرہ،متعلقہ عدالت کو بھیجنے میں تاخیر نہ
ہو۔موت کے بعد ملزم یا مجرم کے سب سے قریبی رشتہ دار کو جلد از جلد واقعہ
کی بابت مطلع کیا جائے۔وہ لوگ جو صرف اس ہی پرمنحصر تھے،انہیں معاوضہ پانے
کا پورا حق ہوگا۔ اگر کسی کو انکاؤنٹرکے فرضی ہونے کا شک ہو تو وہ سیشن
کورٹ میں شکایت درج کراسکتا ہے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ رہنما ہدایات کی
سختی سے ہر حال مین اور ہر کیس میں پابندی کی جائے۔کورٹ کے فیصلے کے مطابق
سی آئی ڈی یا کسی اور اسٹیشن کی پولیس ٹیم اپنے سینئر پولیس افسر کے نگرانی
میں انکوائری کرے گی۔ وہ شواہد جمع کرے گی جس میں خون،بال،جائے وقوع کی مٹی
کے ذرات کے علاوہ واردات کے عینی گواہوں کو ان کے پورے نام،پتے،اور ٹیلی
فون نمبروں کے ساتھ تفصیلات موجود ہوں۔ان کے بیانات لے گی،ان لوگوں کا بھی
بیان لیا جائے گا جو انکاؤنٹر میں شریک تھے۔ جو انکاؤنٹر کی تفصیلات،اس کا
مقصد،مقام ،نقشہ کے ساتھ اور اگر ممکن ہو تو انکاؤنٹر کے سین کا فوٹو اور
ویڈیو یا کچھ جسمانی شہادت،موت کا وقت،اس کے علاوہ جو بھی ممکن ہو اس کی
تفصیل جمع کرے گی،تاکہ اس موت کے تمام حقائق سامنے آسکیں۔زخمی مجرم یا
متاثر کو ہر طرح کی طبی امداد مہیا کرائی جائے نیزاس کا بیان مجسٹریٹ یا
علاج کرنے والے ڈاکٹر درج کریں گے۔یہ وہ تفصیلی رہنما ہدایات ہیں جن کے تحت
فرضی انکاؤنٹر پر قابو پائے جانے کی کوشش مقصود ہے۔
درج بالا سپریم کورٹ کی رہنما ہدایات ایک تاریخی ساز فیصلہ ہے۔اس کے
باوجودایسا نہیں ہے کہ پولیس نظام کی اصلاح پہلی مرتبہ ہورہی ہے بلکہ یہ
عمل تقریباً سو سال پرانا ہے۔پولیس نظام کی اصلاح ہندوستان میں آزادی سے
قبل انگریزوں کے زمانے سے آج تک جاری ہے۔بے شمار کمیشن قائم ہو چکے ہیں اور
تجاویز،مشورے اور تربیت و تنظیم کے پروگرام چلائے جا چکے ہیں۔مختصراً ہم اب
تک قائم کمیشنز اور کیمیٹیز کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں تاکہ اس بات کا
اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ نظام اور اس کی اصلاح کسی ایک مخصوص وقت میں
مکمل نہیں ہو سکتی ہے۔1855ء میں تین ممبران پر مشتمل ایک کمیشن پولیس
ٹارچرسے متعلق ریکارڈ میں آیاہے۔1860ء میں پہلی مرتبہ باضابطہ پولیس کمیشن
قائم ہوا۔1861 ء میں پولیس ایکٹ بنا۔جس میں فیصلہ لیا گیا کہ ریاستیں پولیس
پر کنٹرول رکھیں گی ۔آزادی کے بعد1950ء میں شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق
بل پاس ہوا۔1958تا1970ریاستی حکومتوں کے تحت مختلف پولیس کمیشنز قائم
ہوئے۔جن میں پولیس کارکردگی،ان کے مسائل،افراد ِقلت وغیرہ سے کو سدھارنے کی
بات کی گئی۔1964ء میں کرپشن سے متعلق سنتھانم کمیٹی قائم ہوئی۔کمیٹی کی
سفارشوں کی روشنی میں سنٹرل ویجلینس کمیشن قائم ہوا۔1967ء میں اصلاح
انتظامیہ کمیشن قائم ہوا۔جس میں ڈسٹرکٹ پولیس پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی نگرانی
کا فیصلہ لیا گیا۔1971ء گور کمیٹی قائم ہوئی۔جس میں موجودہ پولیس والوں کی
ٹریننگ کو مزید بہتر بنانے کی بات سامنے آئی۔1977ء میں شاہ کمیٹی قائم
ہوئی۔1977-81ء کے دوران نیشنل پولیس کمیشن قائم ہوا۔1993ء میں نیشنل ہیومن
رائٹس کمیشن قائم ہوا۔یہ کمیشن ہیومن رائٹس ایکٹ کی حفاظت کے لیے قائم کیا
گیا تھا۔جس کا ایک بڑا مقصد بنیادی حقوق کی پامالی کی شکایتوں کا جائزہ
لینا تھا۔1996ء میں سابق ڈائیریکٹر جنرل آف پولیس، پرکاش سنگھ نے ایک
PILسپریم کورٹ میں داخل کی۔PIL میں نیشنل پولیس کمیشن کی رکمینڈیشنس اور اس
کو بہتر بنانے کے تعلق سے سوالات اٹھائے گئے۔دس سالہ طویل کورٹ پرسیڈنگس کے
بعد عدالت نے کئی کمیٹیاں قائم کیں۔1998ء میں ریبی رو کمیٹی(Ribeiro
Committee)قائم ہوئی۔اسی کمیٹی کے تحت1861ء کا پولیس ایکٹ تبدیل ہوا۔2000ء
میں پدما نابھیہ کمیٹی(Padmanabhaiah Committee)قائم ہوئی۔جس میں سب
انسپیکٹرس کے اضافہ کی بات سامنے آئی۔
2004ء میں آفیسرس جائزہ کمیٹی قائم ہوئی۔2005ء میں پولیس مشن اور پولیس
ایکٹ ڈرافٹنگ کمیٹی قائم ہوئی۔جس میں اکیسویں صدی کے چیلنجز اور ان کے حل
پر تبادلہ خیال کیا گیا۔2006ء میں سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے
بتاریخ22؍ستمبر2006ء کو رہنما ہدایات جاری کیں۔جس میں درمیانی ؍اعلیٰ پولیس
آفسران کے تبادلہ ،ریاستی حکومت اورپولیس کمشنر کی تقرری کا معاملہ،پولیس
پٹرولنگ اور چھان بین کے الگ شعبہ کا قیام ،وغیرہ فیصلے لیے گئے۔2013ء میں
جسٹس جے ایس ورما کمیٹی قائم ہوئی۔یہ کمیٹی دسمبر2013ء میں دہلی اجتماعی
عصمت دری واقعہ کے بعدقائم ہوئی ۔کمیٹی نے کرمنل لاء سے متعلق فاسٹ ٹریک
ٹرائیل اور سزاسے متعلق اپنی تجاویز پیش کیں۔2013ء میں پارلیمنٹ نے کرمنل
لاء (ردوبدل)ایکٹ2013ء پاس کیا۔جس میں خواتین پر ہو رہے مظالم وجنسی
زیادتیوں سے متعلق فیصلے لیے گئے۔یہ وہ پوراپس منظر ہے جو یہ عیاں کرتا ہے
کہ حالیہ سپریم کورٹ کی راہنما ہدایات برائے فرضی انکاؤنٹر اُس مسلسل اصلاح
عمل کا ایک قدم ہے جو پولیس کی بہتر کارکردگی کی جانب رواں ہے۔تاکہ ایک
جانب پولیس کی کارکردگی بہتر ہو تو وہیں دوسری جانب شہریوں کا پولیس کے
تعلق سے اعتمادبھی بحال کیا جا سکے۔کیونکہ جس ملک کے شہریوں کا اعتماد
،جرائم و مظالم کے خاتمہ کے لیے قائم شدہ ادارہ پر ہی متزلزل ہو اس ملک میں
قیام امن کی بات ایک مذاق کے سوا اور کچھ نہیں کہلائے گی۔لیکن یہ حقیقت بھی
پیش نظر رہنی چاہیے کہ قیام امن کا ادارہ یعنی پولیس خودمختلف طرح کے
دباؤمیں رہتے ہوئے سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔
ایسوسیئشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس کے جائزے کے مطابق ملک کے حالیہ لوک سبھا
الیکشن میں پرچہ نامزدگی داخل کرنے 5,380؍امیدواران میں سے% 17؍ فیصد
امیدواران نے اپنے افیڈیوٹ میں مجرمانہ الزام میں ملوث ہونے کا اقرار کیا
ہے وہیں10%؍فیصد ایسے امیدواران بھی تھے جو بڑے جرائم،جیسے قتل،زنا وغیرہ
میں ملوث تھے۔جائزے کے اس مختصر ترین حصہ کی روشنی میں اس بات کا باخوبی
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس ملک کی سب سے بڑی قانون ساز باڈی میں حصہ
داری میں شریک ہونے والے افراد کی صورتحال ایسی ہو۔وہاں بے شمار جرائم
ومظالم میں ملوث افراد کی تعداد کیا کچھ ہو سکتی ہے۔معاملہ یہیں نہیں رکتا
بلکہ اس سے آگے چُھٹ بھیّے نیتا اور مختلف قسم کے جرائم پیشہ افرادکا دباؤ
بھی کہیں نہ کہیں پولیس کے کام کاج میں نہ صرف رکاوٹ بنتا ہے بلکہ کوموں کو
نتائج کے اعتبار سے متاثر بھی کرتا رہا ہے۔اس پس منظر میں جہاں ملک کے ہر
شہری کو اپنے اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری کے لیے سرگرم رہنا چاہیے وہیں
قیام امن سے وابستہ ِپولیس افسران کو بھی ہر ممکن تعاون فراہم کیا
جاناچاہیے۔تب ہی ممکن ہے کہ مسائل کے حل میں،نظام کی اصلاح میں اور شہریوں
و پولیس ہردو سطح پر اعتماد بحالی میں پیش رفت سامنے آئے! |
|