دوسرا رخ

تمام اعدادو شمار اس حقیت کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان میں معذور افراد کی اکثریت بصارت سے محرومی کا شکار ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ معاشرے میں ان کیلئے ملے جلے جذبات پائے جاتے ہیں کہیں خدا ترسی و ہمدردی ہے تو کہیں یکسر اہمیت سے انکار اور انہیں بے کار سمجھا جاتا ہے۔ ان کو در پیش بنیادی مسائل میں تعلیم کا حصول ، روزگار کی فراہمی اور برابری کی سطح پر معاشرتی مقام، تاہم بد قسمتی سے نہ تو ان کیلئے کوئی مناسب تعلیم کا بندوبست ہے نہ ہی روزگار اور نہ ہی معاشرے کو یہ شعور ہے کہ ان کے بھی عام آدمی کی طرح مساویانہ حقوق موجود ہوں۔نابینا کو کتابوں کے رٹے لگوالینے سے کبھی بھی اُس کے اندر موجود جہالت ختم نہیں کی جاسکتی۔ اگر ایک نابینا کو قائد اعظم کے چودہ نکات زبانی یاد ہیں لیکن سر ہلانا، سر جھکانا، کان میں اُنگلی پھیرنا، یا دیگر غیر اخلاقی حرکتیں اُس میں موجود ہیں تو میں اُسے پڑھا لکھا جاہل سمجھوں گی کیونکہ یہ لوگ دیکھ نہیں سکتے اس لئے مناسب تربیت نہ ہونے کے باعث ان سے بہت سی ایسی حرکتیں سرزد ہو جاتی ہیں جو عام لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہوتی ہیں مثلاً شک و وہم تجسس وغیرہ ایک انجانے خوف کا شکار لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر اُن کی موجودگی میں دو بینا لوگ آپس میں اشارے سے بات کرتے ہیں تو انہیں یہ لگتا ہے کہ یا تو ان کے خلاف بات ہورہی ہے یا ان دنوں افراد کا باہم کوئی غلط تعلق ہے۔ بہت سے نابینا افردا دوسرے لوگوں سے بڑے پیمانے پر اُمیدیں اور توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اگر وہ پوری نہ ہوسکیں تو وہ پوری دنیا کو ایک ہی طرح کا سمجھ کر کسی ایک شخص کا انتقام پورے زمانے سے لینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ملک بھر میں موجود تعلیمی ادارے کیونکہ تربیتی ادارے نہیں ہیں اور دوئم یہ کہ بینا اور نابینا افراد کے مابین موجود فرق کے باعث ان لوگوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار رہتی ہیں یہ ایسا وسیع موضوع ہے جس پر نہ صرف طویل بحث بلکہ نتیجہ خیز حل بھی تجویز ہونے چاہئیں کہ نابینا لوگوں کی تربیت کر کے انہیں منفی سرگرمیوں سے پاک کیا جاسکے لیکن میں گزشتہ کئی سالوں سے بہت سے پرائیویٹ ادارے جوان نابینا لوگوں کی فلاح کیلئے قائم کئے گئے اُن کی بربادی کا منظر نابینا لوگوں کے ہاتھوں سے دیکھ چکی ہوں۔ دلائل اور ثبوت کیلئے چند واقعات پیش خدمات ہیں۔

ملتان کے ایک پرائیویٹ نابینا ادارے کا ایک نابینا ادارے کے نام پر جب مانگتا ہوا پکڑا گیا تو ادارے نے اُس کے خلاف کارروائی کی بجائے اپنی اصلاح کرنے کے اُس نے اد ارے کے سربراہ اور ادارے پر کیچڑ اُچھالا اور کئی جگہوں سے اُس ادارے کو ملنے والی امداد بند کرادی۔ اسی مشہور ادارے کے سربراہ کو جب ایک مقدمے میں جیل جانا پڑا تو اُس کے وفادار نابینا اُس کی پھانسی کا مطالبہ کررہے تھے لیکن باعزت بری ہونے کے بعد دوبارہ وہی نابینا وفاداری کا دم بھرنے لگے۔ پنجاب حکومت نے ہمدردی کی بنیاد پر جتنے نابینا سرکاری ملازم بھرتی کئے اُن کی اکثریت دفتروں سے غیر حاضر رہتی ہے اور اگر انہیں سزاد دینے کی بات کی جائے تو احتجاج پر اُتر آتے ہیں۔ اسپیشل ایجو کیشن میں بیٹھے ہوئے نابینا بینا لوگوں کی طرح کرپٹ تو نہیں لیکن نا اہل، نکمے، سست اور غافل ضرور ہیں اور یہ بھی ایک کرپشن ہے۔ اسی طرح بہاولپور بریل پریس میں بھرتی ہونے والا عملہ کا غذا نہ ہونے کے باعث بغیر کام کے تنخواہیں لے رہا ہے اور کوئی اُس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ فیصل آباد کا نابینا ادارہ جو کہ اپنی بچاسویں سالگرہ بھر پور انداز میں منا سکتا تھا مگر نابینا لوگوں کے باہم انتشار اور سیاست کی نذر ہو کر اس وقت سوشل ویلفیئر کی تحویل میں ہے ایک مختصر اقلیت ہر ادارے میں ایسی ضرور رہی ہے جو اپنے ہی اد ارے کو اپنا غاصب سمجھ کر اُس کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہو جاتی ہیں جدید دور میں ان فارغ اور بے بس نابینا لوگوں نے اپنے ہی اداروں اور اُن میں پڑھنے والے نابینا بچے ، بچیوں کے مستقبل کو تاریککرنے کیلئے سستا ترین ذریعہ SMS کمپین ڈھونڈ لیا ہے کبھی الفیصل مرکز کبھی PAB کبھی بلائنڈ سنٹر ملتان کبھی URF کبھی Idarioکی کردار کشی کر رہے ہیں اور انہیں برا بھلا کہنے کے بجائے Messageپڑھنے والے فوراً اداروں کے خلاف ہو جاتے ہیں ۔ یہ عجیب ملک ہے جہاں نابینا لوگوں کے نام پر کروڑوں روپے کھانے والے بینا لوگوں سے تو کوئی پوچھ گچھ نہیں لیکن اُن پرائیویٹ اداروں سے جو سر عام اپنی خدمات انجام دے رہے ہوں ماہانہ 5سو چندہ دینے والا بھی سوال و جواب کرتا ہے۔ نابینا افراد کی یہ حرکتیں نہ صرف اُن کا معاشرتی مقام کم کررہی ہیں بلکہ پرائیویٹ ادارے چلانے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہیں کہ وہ ان کے خلاف سخت کارروائی کریں محض نابینا پن کی وجہ سے نماز چھوڑنا، روزہ چھوڑنا، ڈیوٹی پر نہ جانا، وقت سے پہلے آنا، فارغ رہنا، ایسے ہے جیسے خود اپنا منہ پیٹنا اور سلجھے ہوئے نابینا افراد کی حق تلفی کا باعث ہے۔ اگر نابینا روٹی کھا سکتا ہے میٹھے، کڑوے کا فرق بتا سکتا ہے ، ہوسٹل میں بوٹیاں نہ ملنے پر واویلا مچا سکتا ہے محض خالی برتن کھڑکنے سے یہ سوچ سکتا ہے کہ شاید دیگ آئی تھی صاحب کے گھر چلی گئی کئی کئی شادیاں کر سکتا ہے تو پھر کام سے کیوں جی چراتا ہے ؟ میرا قطعاً مقصد نابینا افراد کی دل آزاری نہیں لیکن میں اس برادری میں موجود اُن کالی بھیڑوں کی اصلاح چاہتی ہوں جو نہ خود ترقی کر سکے نہ اُن سے اداروں کی ترقی برداشت ہے اور نہ ہی اپنے ساتھیوں کی تعلیم و تربیت ، جب جب معاشرے نے اداروں کو فروغ دیا تب تب ڈاکٹر فاطمہ شاہ، شاہد میمن، یونس جہانگیری، صائمہ عمار، سلمیٰ مقبول، امیر علی ماجد، طہٰ حسین، شیخ احمد یاسین، غلام ربانی جیسے بے شمار لوگ آگے آئے اور اپنی محنت سے یہ ثابت کیا کہ نابینا کسی سے کم نہیں۔ اور جب جب اداروں کو توڑنے کی کوشش کی گئی اور از خود تعلیم کے بجائے بھیک دی گئی تو پھر اس معاشرے نے نابینا افراد کا وہ روپ دیکھا جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اتفاق و اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے اور ایک دوسرے کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے لاکھوں افراد پر مشتمل یہ برادری اُس بکھری ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح ہے جسے کوئی پڑھنے کو تیار نہیں اور پاؤں تلے روند جاتا ہے۔ اسمبلیوں میں خصوصی نشستیں نہ ہونا کونے پر عملدرآمد نہ ہونا، تعلیمی اداروں کی بدحالی روزگار نہ ملنا، بریل سامان اور چھڑیوں کی عام مارکیٹ میں عدم دستیابی ، ہمارے مقابلہ جات میں کمپنیوں کا عدم تعاون ، 15اکتوبر کو نظر انداز کیا جانا، میڈیا کی عدم دلچسپی کی سب سے اہم وجہ نابینا لوگ خود ہیں کیونکہ یہ اداروں سے جڑنے اور وابستہ رہنے کے بجائے بھیک کو اپنا حق سمجھتے ہوئے اپنی ذات کو مضبوط اور اداروں کو کمزور کرتے ہیں۔ ان کا رویہ دیکھئے کہ یہ اداروں میں کسی طرح کی فیس یا رقوم جمع نہیں کراتے لیکن اگر کبھی بھولے سے اس ادارے کا باورچی انہیں باسی روٹی دے دے تو قیامت کھڑی کردیتے ہیں۔ تربیت کے حصول کیلئے ایسے اداروں کو انتخاب کریں گے جہاں سب کچھ مفت ملے بھلے وہاں ان کی نمائش لگا کر ان کے نام پر لاکھوں روپیہ کمایا جائے لیکن جہاں فیس دینی پڑے وہاں پر کشش تعلمی ماحول کے باوجود بھی یہ جانے کو تیار نہیں۔ بہت سے ملوں،فیکٹریوں نے نابینا لوگوں کو آپریٹر رکھا لیکن اُن کی کاہلی کے باعث آج وہ ان ملوں کے ملازم ہونے کے بجائے وظیفہ خور بن چکے ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ کاروباری ادارے انہیں ملازمت دینے کے بجائے بھیک دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

وسیع موضوع کو سمیٹتے ہوئے نابینا برادری کی اقلیت میں پائے جانے والے یہ رویے اکثریت کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک اداروں کے سربراہان انا کے خول سے نکل کر اس بات پر ایکا نہیں کر لیتے کہ انہوں نے ان بگڑے ہوئے لوگوں کو سلجھانا ہے میرا قطعاً مقصد اداروں کو مقدس گائے ثابت کرنا نہیں لیکن میرا دعویٰ ہے کہ ایسے نابینا ادارے جنہیں از خود نابینا چلا رہے ہیں وہاں کرپشن کی شرح ایسے اداروں سے انتہائی کم ہے جو نابینا لوگوں کے نام پر بینا چلا رہے ہیں اور اگر کسی کو یقین نہ ہو تو وہ PWD ادارو کی فنڈنگ فار دا بلائنڈ اداروں کی فنڈنگ کی تفصیلات ہم سے حاصل کر سکتا ہے۔ اپنوں کی ستم ظریفی کا شکار پرائیویٹ نابینا اداروں کو اپنے ان ساتھیوں کی اصلاح کیلئے فی الفور ایک ایسا سلیبس تیار کرنا چاہئے جو ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کر سکے اورن ان کی ہوسٹل لائف کا شیڈول اس انداز میں مرتب کرنا چاہئے کہ انہیں منفی رحجانات کیلئے فرصت ہی نہ ملے اور سب سے بڑھ کر انتظامیہ اساتذ ہ اور طالب علموں کے مابین فاصلہ بہت ضروری ہے۔

جزا و سزا اور استاد کا ڈر ہی ایسی چیز ہے جو آپ کو ٹھیک کر سکتی ہے ۔ اور وہ معاشرہ جو میرا یہ مضمون پڑھے وہ بھی خدارا افرادکوک بھیک دے کر اداروں کو کمزور کرنے کے بجائے اداروں کے ساتھ مل کر افراد کو مضبوط کرے۔ اور ان عقل کے اندھوں کو کاش کوئی سمجھا جانے والا ہو کہ ادارے جو دن رات کی محنت سے بنتے ہیں کسی کے خط Massegeیا ای میل سے بند نہیں ہوتے۔

نابینا ساتھیوں آپ کی بقاء اور آپ کا وجود آپ کے اداروں سے وابستہ ہے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کے کود کو اپاہج نہ کیجئے اپنی اصلاح کیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ زمانے کی دھول میں خود کو ضائع کر بیٹھیں ہو سکے تو ذرا سوچئے گا۔
Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 24034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.