گھر گھر کی کہانی
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
گو کہ پوری دنیا میں اذیت پسند
لوگ پائےجاتے ہیں جن کو نہ صرف اپنے آپ کو تکلیف پہنچا کر راحت محسوس ہوتی
ہے بلکہ دوسروں کو کسی بھی قسم کی اذیّت پہنچا کر سکون ملتا ہے لیکن برّ
صغیر کی عجب تاریخ ہےلگ بھگ سو سال پہلے تو ایسی فلمیں جنھیں دیکھ کر عوام
زار و قظار روتے ہوئے باہر نہ نکلیں تو پیسے وصول ہی نہیں ہوتے تھے۔ہر شے
کی حد اور عروج و زوال بھی ایک فطری امر ہے لہٰذا تبدیلی کے لیئے رفتہ رفتہ
طنز و مزاح کی آمیزش گذشتہ پانچ دھائیوں سے وقوع پذیر ہوئی لیکن ایک عنصر
ہمیشہ ہی غالب رہا جو تھا رومانس کا جس کے بغیر کائنات کا نظام ہی نہیں چل
سکتا۔
اذیّت پسندوں نے اپنی فطرت کی مجبوری کے تحت رومانس و طنز و مزاح کے ساتھ
اپنی اس خصلت کو بھی شامل کرکے ایک مرتبہ پھر اپنے دل کی تسکین کی خاطر
کہیں تشدّد تو کہیں غمِ فراق کی آمیزش کرکے فتح حاصل کر لی اور لگ بھگ
گذشتہ پانچ دھائیوں سے نہ صرف سنیما گھروں بلکہ ہمارے کمروں کے اندر گھس کر
معاشرے کی جو تباہی مچائی ہے، یہ میرے اس مضمون کا نچوڑ ہے۔ انڈین ڈرامے
ہوں یا پاکستانی، نہایت ہی رومانوی انداز میں کہانی شروع ہوتی ہے خوب طنزو
مزاح بھی ہوتا ہے، نہایت فرحت بخش مقامات کا انتخاب کر کے وہاں گیتوں کی
بارش بھی ہوتی ہے، حد تو یہ ہے کہ وقت کے خوبصورت ترین مرکزی کرداروں کی
شادی ایک شاندار شاہانہ انداز میں منعقد ہونے میں پہلے زمانے کی طرح کوئی
رکاوٹ بھی پیش نہیں آتی اور اس شاہانہ انداز کی شادی میں دونوں اطراف سے
کوئی مقروض بھی نہیں ہوتا خواہ ابتدا میں کتنے بھی غریب ہی کیون نہ
ہوں۔انتہا تو یہ ہے کہ نہایت خوبصورت اولاد بھی ہو جاتی ہے لیکن ہم سب
سمجھتے ہیں کہ اتنی آسانی سے جان چھوٹ گئی تو اذیّت پسند مافیا فلم یا
ڈرامہ بنانے والی پوری ٹیم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیگا اور ہم تبصرہ کے بھی
قابل نہیں رہیں گے۔لہٰذا کہانی میں "ٹؤسٹ" آتا ہے اور اچانک یا تو ایک عام
سا نوجوان یا ایک معمولی شکل کی حسینہ کی انٹری ہوتی ہے نوجو ان ہیرو ئین
کا یا حسینہ ہیرو کی بچپن سے تلاش میں خوار ہانپتی کانپتی اسقدر قوّت سے
سینے سے ٹکراتے ہیں کہ آس پاس کے پہاڑ و وادیاں تھر تھرا جاتی ہیں، ننھے
بچوں پر بجلی سی کڑکتی ہے اور بس عوام پر سکتا سا طاری ہو جاتا ہے حالانکہ
شروع سے ہی سب کو اسی لمحے کا انتظار ہوتا ہے کیونکہ اب تو پورا معاشرہ ہی
پیشہ ور اذیّت پسند ہو گیا ہے۔ نتیجتاً بے شمار ہنستے بستے گھرانے غموں کے
ڈھیر میں تبدیل ہو رہے ہیں اور یہ محض برِّ صغیر میں ساٹھ سے پینسٹھ فیصد
تک ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک فیصد بھی ایسا نہیں ہوتا کیونکہ
وہاں سمدھیانے نہیں ہوتے جو بچپن کے نوجوان یا خوبرو حسینائیں ڈھونڈ کر
کہانی میں اپنا مصالحہ ڈالیں۔ |
|